نماز کا بیرومیٹر
یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کی نماز قبول ہورہی ہے اور کس کی نہیں؟ یہ بات اکثر آپ سنتے ہوں گے۔ بعض موقعوں پر تو بحث و مباحثہ ہوجاتا ہے اور آگے بڑھ کر تنازعہ بن جاتا ہے۔ خاص کر اس وقت جب فریقین الگ الگ مسلکوں کے ماننے والے ہوں۔
ہمارا ایمان ہے کہ ہر چیز کا حل قرآن میں ہے خاص طور پر فرائض اسلام تو قرآن سے ثابت ہیں ہی۔ اور نماز- اس کے بارے میں تو ۷۰۰ مقامات پر قرآن نے تذکرہ کیا ہے۔ قرآن نے نماز کی فرضیت بتائی، اس کے اوقات بتائے، اس کی غرض و غایت بتائی، اس کے ثمرات بتائے، نہ پڑھنے پر خوفناک انجام کی وعید سنائی۔ اسی نے قبولیت کا راز بھی بتایا۔ قرآن کھولئے سورئہ العنکبوت نکالیے آیت نمبر ۴۵ پڑھئے ان الصلـوٰۃ تنہی عن الفحشاء و المنکر اس کا ترجمہ پڑھئے: ’’بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روک دیتی ہے۔‘‘
اب اس پر غور کیجیے کہ نماز پڑھنے والا بے شرمی، بے حیائی کے کام تو نہیں کررہا ہے۔ کیا وہ حیا سوز فلمیں دیکھ رہا ہے؟ فحش ناول پڑھ رہا ہے؟ گالیاں دے رہا ہے؟ عریانیت پھیلارہا ہے؟ بے پردگی، جسم کی نمائش اور زیب وزینت سے فحاشی کا مرتکب ہورہا ہے؟ اور منکر تو تمام ان کاموں کو کہتے ہیں جس کے کرنے سے اللہ اور رسولؐ نے روکا ہے کیا وہ منکر کررہا ہے؟ اگر نماز کے ساتھ ساتھ یہ سب بھی ہے تو نماز نہیں پڑھ رہا ہے۔ بلکہ صرف اکسرسائز کررہا ہے۔ دھوکا دے رہا ہے اور اگر ان چیزوں سے بچ رہا ہے تو نماز پڑھ رہا ہے اس کی نماز قبول ہورہی ہے۔ جس حد تک بچ رہا ہے اس حد تک نماز قبول ہورہی ہے۔ یہ آیت نماز کی قبولیت ناپنے کا آلہ ہے۔ آپ بھی آج اپنی نماز کو ضرور ناپئے گا۔
تول کر بولئے
آپ کی ز بان سے جو لفظ بھی نکلتا ہے، وہ ہوا میں تحلیل ہوکر نہیں رہ جاتا بلکہ وہ موجود رہتا ہے۔ اس کا انکشاف سائنس کی تحقیق سے بھی ہوا ہے۔ آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کوئی نہ کوئی ضرور سن لیتا ہے۔ اس غلط فہمی میں نہ رہئے کہ انہیں کسی نے سنا نہیں ہے۔ شہ رگ سے قریب تو خدا کی ذات ہی ہے جو یعلم ما فی الصدور (وہ جان لیتا ہے جو دل میں ہے) ہے۔ اس کے علاوہ کاندھے پر تشریف رکھنے والے دو معزز کاتبین فرشتے بھی آپ کی آواز کو سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ لکھتے بھی ہیں۔ اس کا انکشاف کسی سائنس داں نے نہیں کیا ہے جس پر مزید تحقیق کا بہانہ بناکر ٹال دیا جائے بلکہ اس ذات نے کیا ہے جو خالق کائنات ہے اور اس کتاب میں کیا ہے جو لاریب ہے۔ جس کے ہر حرف پر آپ کا ایمان ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اب خواہ مخواہ تو فرشتے نہیں لکھتے ہوں گے، لکھا جارہا ہے تو ایک دن حساب بھی دینا ہوگا۔
اُف میرے اللہ! نہ معلوم کتنے لاکھ الفاظ میری زبان سے غلط نکل چکے ہیں کبھی گالیاں دیں، کبھی چغلی کی، کبھی غیبت کی، لیکن کیا ہنسی مذاق میں بھی نکلے ہوئے لفظوں کو لکھا جاتا ہے؟ ہاں اور کیا نہ لکھا جائے گا۔ ہر حرف اور ہر لفظ لکھا جارہا ہے۔ ریکارڈ ہورہا ہے، تول کر بولئے، اس زبان کے استعمال کی ضمانت پر حضورؐ نے بھی جنت کی ضمانت دی ہے۔ کس قدر اہمیت ہے زبان کی۔ میرے مالک آج تک کے گناہوں کو تو معاف کردے آئندہ اپنی زبان کو قابو میں رکھیں گے۔
مَا یَلْفَظُ مِنْ قَوْلِ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۔ (ق:۱۸)
’’ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔‘‘