وقت گزرنے کے ساتھ اسلم کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ دو دن سے شہر میں کرفیو لگا ہوا تھا اور آج چند گھنٹوں کے لیے کرفیو میں نرمی کا اعلان کیا گیا تھا۔ وہ تین دن پہلے اپنی بہن سے ملنے آیا تھا۔ اس کی بیوی نے اسے شہر چھوڑ کر جانے سے منع کیا تھا کیونکہ کسی بھی وقت تشدد بھڑک سکتا تھا۔ اسے بھی لگ رہا تھا کہ ساجدہ کی بات مان لینی چاہیے لیکن وہ بھی کیا کرتا بیوہ بہن کا بیٹا سخت بیمار تھا ایسے میں اس کا جانا بے حد ضروری تھا۔
ارجمند اس کی منتظر تھی۔ وہ بچے کو ڈاکٹر کی پاس لے گیا۔ چند ہی گھنٹے میں اس کی حالت بہتر ہوگئی۔ وہ اسی دن شہر لوٹ آنا چاہتا تھا لیکن ارجمند نے اسے روک لیا۔ پتہ نہیں کیوں اس کے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات آرہے تھے۔ اس نے انہیں ذہن سے جھٹک دیا۔ رات کو جب وہ بستر پر لیٹا تو نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس کے ذہن میں ساجدہ کی باتیں گونج رہی تھیں کہ اگر یہاں ہنگامہ ہوگیا تو میں کیا کروں گی۔ اپنی بیٹیوں کو لے کر کہاں جاؤں گی؟ ساجدہ کو اس نے ڈانٹ دیا تھا۔ ’’کیوں بدفال زبان سے نکالتی ہو؟ انشاء اللہ کچھ نہیں ہوگا۔ میں کل تک لوٹ آؤں گا۔‘‘ یہی سوچتے ہوئے وہ پتہ نہیں کب نیند کی آغوش میں گم ہوگیا۔ صبح جب آنکھ کھلی تو اس نے ارجمند کو پریشان پایا۔ اسے ارجمند کے بیٹے کی فکر لاحق تھی۔ ’’سب کچھ ٹھیک تو ہے نا؟ ‘‘
’’بھیا خدا خیر کرے۔ شہر میں رات سے ہی فساد ہورہا ہے۔ کافی خون خرابہ ہوچکا ہے۔‘‘ اس نے بتلایا:’’تمہیں کیسے پتہ چلا؟ ‘‘
’’رات صغریٰ بوا کا بیٹا آیا ہے۔ وہی بتا رہا تھا کہ گھر سے کھینچ کر لوگوں کو مارا جارہا ہے۔ اسے بھی کسی نے مارنے کے بعد مردہ جان کر پھینک دیا تھا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ کسی طرح وہاں سے نکل بھاگا۔‘‘
تھوڑی دیر قبل ریڈیو پر یہ خبر آئی ہے کہ صبح سات بجے سے شہر میں کرفیو نافذ ہے۔ یہ سنتے ہی اسلم کا وجود کانپ اٹھا۔ اس نے جانے کا ارادہ کیا تو ارجمند نے روک لیا۔
’’بھیا آپ نہیں جاسکتے شہر میں کرفیو نافذ ہے۔‘‘
اس نے ارجمند کی بات نہ سنی اور گھر سے نکل پڑا۔ پڑوسیوں نے اسے سمجھایا اور زبردستی گھر میں لے گئے۔ وہ دن بھر بھوکا پیاسا رہا۔ اس کے ذہن و دماغ میں ساجدہ اور بچوں کی تصویریں گھوم رہی تھیں۔ اسے بار بار بچوں کی پکار سنائی دیتی۔ اسی بدحواسی کے عالم میں رات کٹ گئی۔ ارجمند رات بھر جا نماز بچھائے خدا سے اہلِ خانہ کی سلامتی کی دعا کرتی رہی۔ صبح چند گھنٹے کے لیے کرفیو ہٹایا گیا تو وہ دیوانہ وار اپنے شہر کی جانب دوڑ پڑا۔ راستے میں اسے جو بھی ملتا سب سے اپنے اہلِ خانہ کے بارے میں پوچھتا۔ لوگ پاگل سمجھ کر اسے نظر انداز کردیتے۔
جب وہ شہر میں پہنچا تو ہر طرف عجیب سا سناٹا بکھرا ہوا تھا۔ صرف ایمبولینس کی گاڑیاں ہر طرف نظر آرہی تھیں۔ وہ جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اس کا گھر گلی کے آخری کنارے پر تھا۔ جب وہ موڑ پر پہنچا تواپنی پشت پر اسے وحشت ناک قہقہہ سنائی دیا۔ شاید وہ اس کا تعاقب کررہے تھے۔ اسلم نے بھی دوڑنا شروع کردیا۔
’’ارے ٹھہر جا وہاں کیا دیکھے گا۔ تمہارے گھر والوں کا کام تمام ہوچکا ہے۔‘‘
یہ آواز نشتر بن کر اس کے وجود میں اترگئی ۔ اس کے قدم خود بہ خود رک گئے۔ اس کا گھر خاکستر ہوچکا تھا اور بیوی اور بیٹیوں کا بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ ابھی وہ ان پر آنسوؤں کے نذرانے پیش بھی نہ کرپایا تھا کہ وہ سبھی اس پر ٹوٹ پڑے۔ ابتدا میں تو وہ مار کھاتا رہالیکن جب قوت برداشت جواب دے گئی تو اسلم نے ان میں سے ایک ہاتھ سے اس کا ہتھیار چھین لیا اور پلک جھپکتے ہی انہیں نشانے پر لے لیا۔ وہ دیوانوں کی طرف ہتھیار لہراتے ہوئے قہقہے لگا رہا تھا تبھی کیمرہ کا فلیش چمکنے لگا۔ دوسرے دن اخبار میں اس کی تصویر کے ساتھ سرخی لگی تھی ’’قاتل اسلم ہتھیار کے ساتھ گرفتار۔ وہ آئی ایس آئی کا ایجنٹ تھا…!‘‘