ماہنامہ حجابِ اسلامی اس شمارے کے ساتھ ہی اپنی عمر کے ساڑھے سات سال مکمل کرلے گا۔ اس مدت میں ماہنامہ حجاب اسلامی کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی مقبولیت سے سرفراز کیا۔ اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اپنے قارئین اور معاونین کے بھی شکر گزار ہیں، جن کی کوششوں کے طفیل حجاب اسلامی کو کثیر الاشاعت اُردو رسالے کا درجہ حاصل ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج حجاب اسلامی مقبولیت کے جس مقام پر ہے، اس کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ مگر اللہ کے فضل نے ہمیں غیر معمولی کامیابی سے نوازا۔
اس سات برس سے کچھ زیادہ مدت کے سفر میں ہم نے بیشمار مسائل اور کئی بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کیا۔ کئی بار ایسے حالات آئے کہ قدم لڑکھڑانے لگے مگر اللہ کے فضل و کرم نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ ہمیں ثبات قدمی حاصل ہوئی۔ مسائل اور چیلنجز کا یہ سفر اب بھی جاری ہے بس نوعیت اور کیفیت بدل گئی ہے۔
کثیر الاشاعت رسالہ ہوجانے کے سبب اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم کس طرح اپنے قارئین تک اپنے رسالے کا پہنچنا یقینی بنائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے جس بہی خواہ اور حجاب کے قاری نے بھی ہمیں زرتعاون دیا ہے اس تک شمارہ پہنچانا ہمارا اخلاقی اور پیشہ وارانہ دونوں طرح سے فرض ہے۔ اس کے لیے ہم نے جہاں اپنے آفس میں ایک مضبوط کمپوٹرائزڈ نظام قائم کیا ہے وہیں پوسٹ کرنے کے طریقوں کو اتنا محفوظ اور آسان بنایا ہے کہ ڈاک کے محکمہ کو نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی زحمت نہ ہو بلکہ اسے کچھ کرنا ہی نہ پڑے۔
ہم اس سے پہلے بھی اپنے قارئین کو بتا چکے ہیں کہ ہم ہر پوسٹ آفس کے نام ہی سے بیگ بناکر بھیجتے ہیں، تاکہ بیگ کو کہیں بھی چھٹنی کے عمل سے نہ گزرنا پڑے۔ اور تمام رسالے محفوظ طور پر پہنچ جائیں۔ مگر اس کے باوجود بہت ساری جگہوں سے مسلسل رسالہ نہ ملنے کی شکایت ہوتی ہے۔ جس کے جواب میں ہم دوبارہ رسالہ بھیج دیتے ہیں۔
بعض قارئین رسالہ نہ ملنے کی صورت میں ہمیں انتہائی غصہ کے عالم میں فون کرتے ہیں اور ’’کھری کھری‘‘سناتے ہیں۔ ان کو شبہ ہی نہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ ہم نے انہیں رسالہ بھیجا ہی نہیں۔ ایسے لوگ ہم سے زیادہ ڈاک کے نظام پر بھروسہ کرتے ہیں جبکہ ڈاک کے نظام کی کوتاہیاں بلکہ غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل ملک کا ہر شہری جانتا ہے۔ سردی کے دنوںمیں رسالے جلاکر خاص طور پر ’’اردو رسالے‘‘ہاتھ تاپنا ڈاک کے محکمہ کا معمول ہے۔ اردو رسالوں کے ساتھ عصبیت اس پر مزید پریشانی کا سبب بنتی ہے۔ کئی جگہ ہمارے رسالے اور دیگر رسالوں کے بنڈل ردی میں پڑے ہوئے پائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ماہ درجنوں رسالے واپس آجاتے ہیں۔ کیونکہ ڈاکیہ کے لیے گھر پر پہنچانے سے زیادہ آسان کام اسے واپس کردینا ہے۔ ان میں کچھ پر تو پتہ کی سلپ موجود ہوتی ہے اور کچھ سے چھٹا کر پھینک دی جاتی ہے۔ جن پر پتہ کی سلپ ہوتی ہے اور فون نمبر درج ہوتا ہے ہم ان سے رابطہ کی کوشش کرتے ہیں۔ جن سے رابطہ ہوجاتا ہے ان کو خبر کردیتے ہیں اور بہت سارے نمبر یا تو لگتے نہیں یا بند ہوچکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم مجبور ہوکر بیٹھ جاتے ہیں یا خط لکھتے ہیں مگر کوئی جواب نہیں ملتا۔ یہ کیفیت ایک طرف تو ہمیں ذہنی پریشانی میں مبتلا کرتی ہے دوسری طرف ہماری امیج کو بھی خراب کرتی ہے۔
قارئین خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہم نے حجاب کو بہتر بنانے اور اسے لوگوں تک پہنچانے میں کس قدر محنت کی ہے اور کررہے ہیں۔ ہمارے نمائندے ملک بھر میں گھومتے پھرتے اور قارئین سے باربار ملتے ہیں۔ ایسے میں اگر ہم ہی کوتاہی کرتے تو ہمارا رسالہ اس مقام تک کیسے پہنچ پاتا۔ آپ سچ جانئے ہمارے لیے ایک ایک خریدار بڑا قیمتی ہے اور اس کااعتماد ہمارا سرمایہ ہے اور اس اعتماد کو ہم کسی بھی صورت میں متاثر نہیں ہونے دینا چاہتے۔
ڈاک کے مسائل اور اس کے عملے کی لاپرواہیوں پر ہم اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور یہ بھی اپنے قارئین کو بتا چکتے ہیں اس مسئلے پر قابو پانے کی ہم نے اپنے طور پر کیا کوششیں کیں ہیں۔ مگر کوئی خاص توجہ ہمارے قارئین کی ہمیں حاصل نہیں ہوئی۔ اور ہمارا رسالہ کیونکہ اپنی اشاعت کے اعتبار سے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اس لیے یہ مسائل بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
ہم اپنے قارئین کو کیا بتائیں کہ بھوپال جیسے شہر میں ڈاک کے عملے کی لاپرواہیوں کے سبب رسالہ ہمارے قارئین کو یا تو مل نہیں پاتا یا وقت بے وقت ملتا ہے۔ شولاپور (مہاراشٹر) کا پورا کا پورا بیگ غائب ہوگیا۔ وانم باڑی (تمل ناڈو) کے پوسٹ آفس میں دو ماہ کا رسالہ ایک ساتھ پہنچا اور وہ بھی اس وقت جب حجاب کے ایک ریڈر نے پوسٹ آفس میں جاکر باقاعدہ شکایت کی۔ یاوت مال ضلع کے ایک شہر کے پوسٹ آفس میں پڑے ہوئے رسالے ہمارے نمائندے نے اٹھا کر لوگوں میں تقسیم کیے۔ ایک صاحب نے فون پر بتایا کہ جب وہ پوسٹ آفس میں شکایت کے لیے پہنچے تو اگلے روز کئی ماہ کے رسالے انہیں پوسٹ مین دے گیا۔ یہ حالات ہیں جو ہمارے لیے مسئلہ بھی ہیں اور چیلنج بھی۔
قارئین کرام! ہم آپ سے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ اب تک ہم نے جو مسائل اور چیلنجز دیکھے وہ اس نوعیت کے تھے کہ ان سے نمٹنا ہماری ہی ذمہ داری تھی اور ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کی اور اللہ کے فضل سے وہ سب مسائل اب نہیں ہیں۔ مگر یہ مسئلہ کہ حجاب اسلامی کیسے آپ تک محفوظ اور بلاناغہ پہنچتا رہے ایسا مسئلہ ہے جس میں ہمیں اپنے قارئین اور بہی خواہوں کا مکمل تعاون درکار ہے۔
ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ آپ نے ہمیں دو سو روپے کی رقم دی ہے اور اپنا رسالہ حاصل کرنا آپ کا حق بھی ہے مگر ہم کہیں گے یہ آپ کا فرض بھی ہے۔ اگر ہم آپ کو رسالہ بھیج رہے ہیں تو وہ آپ کو ملنا چاہیے۔ اور ایک باشعور اور فرض شناس قاری کی حیثیت سے ہم آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنا رسالہ حاصل کریں۔ ہم ڈاک ٹکٹ لگا کر رسالہ بھیجتے ہیں اور آپ پیسے دے کر خریدتے ہیں تو آخر ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے کہ رسالہ آپ کو نہیں ملتا؟
جہاں ہم فرض شناس ہیں وہیں ہمارے قارئین کو بھی باشعور ہونا چاہیے کہ وہ اپنا حق ڈاک کے محکمے یا ہم سے وصول کریں۔ ہم کیونکہ رسالہ بھیج رہے ہیں اس لیے ہمیں اطمینان ہے اگر آپ کو رسالہ نہیں ملتا تو آپ ڈاک آفس میں تحریری شکایت دے کر اس بات کی انکوائری کرائیں کہ رسالہ کیوں نہیں ملتا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر حجاب کے باشعور قارئین اپنے اپنے مقامی ڈاک خانوں پر اس بیداری اور شعور کا ثبوت دیں اور اپنے قیمتی اوقات میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر پوسٹ آفس جائیںتو اس مسئلہ کا حل نکل آئے گا اور ڈاک کے کارکنان زیادہ ذمہ داری کے ساتھ اپنا کام کریں گے۔ یہ ایک طرف تو آپ کا ماہنامہ حجاب کے ساتھ تعاون ہوگا دوسری طرف ملک کے ایک اہم محکمے کے اسٹاف کی لاپرواہیوں کا علاج بھی۔
سرکاری طور پر آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ اپنی ڈاک کے سلسلہ میں تحریری شکایت کرسکیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی ڈاک محفوظ طور پر آپ کو ملے گی۔ اس کے لیے آپ کو بس ایک تحریری شکایت کرنی ہے اور مقامی پوسٹ آفس سے ایک رسیونگ لینی ہے۔ اگرآپ یہ رسیونگ کاپی ہمیں بھیج دیں تو اس کی بنیاد پر ہم آگے ایسی کارروائی کرسکتے ہیںکہ آپ کا رسالہ کیا کوئی ڈاک غائب نہیں ہوگی اور ڈاک کے جو کارکنان سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے وہ آپ کے پیچھے گھومتے پھریں گے۔
یہ باتیں ہم اس لیے تفصیل سے لکھنے پر مجبور ہوئے کہ اس مسئلے سے ہم کافی پریشان ہیں۔ اس صورت حال سے ہمارا اعتماد بھی مجروح ہوسکتا ہے اور آگے بڑھنے اور اپنے مشن کو آگے بڑھانے کی راہ میں رکاوٹیں بھی آسکتی ہیں۔
حجاب ایک مشن اور خدمت و دعوت دین کا پیغامبر ہے۔ ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی کوئی ایسی بات گوارا نہیں جو اس کے لیے نقصان دہ ہو۔ آخر ہم نے محنت کی ہے اور کررہے ہیں۔ ہم نے قربانیاں دے کر اسے یہاں تک پہنچایا ہے اور جدوجہد کرکے مزید آگے بڑھانے کی کوشش میں ہیں۔ بس آپ ذرا تعاون کیجیے۔ تعاون ہمارے لیے، اپنے لیے اور اس محکمے سے کرپشن اور لاپرواہی ختم کرنے کے لیے۔ شکریہ!
شمشاد حسین فلاحی