قارئین کی رائے

شرکاء

سوالات
(۱) آپ کے خیال میں مسلم خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
(۲) موجودہ ہندوستانی سماج میں خواتین کا سماجی اور دینی و دعوتی رول کیا ہو؟
(۳) مسلم عورت سماج کی عام خواتین کے لیے کیا کچھ کرسکتی ہے؟
(۴) مسلم سماج سے جہالت و ناخواندگی دور کرنے میں کیا مسلم خواتین کوئی رول ادا کرسکتی ہیں؟
(۵) آپ کے خیال میں ہندوستانی مسلم عورت کہاں کھڑی ہے؟
جوابات
(۱) مسلم خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ دین سے دوری ہے۔اگروہ قرآن وحدیث سے گہرا لگاؤ پیدا کرلیںاور دین سے یعنی قرآن وحدیث سے قریب ہوجائیں تو ان کے سب مسائل حل ہوجائیں گے۔
(۲) ہندوستانی سماج میں خواتین کا رول مختلف قسم کا ہے۔ جو اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں ان میں بیشتر دین سے دور ہوکر دوسری جہالت میں مبتلا ہیں۔ مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد دن رات ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش پروگرام دیکھ کر اپنے اخلاق کو تباہ کررہی ہیں۔ بہت کم خواتین جن کا فیصد بھی نہیں نکالا جاسکتا دینی سرگرمیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ کچھ خواتین Q TV کے ذریعے دین سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔
(۳) مسلم عورت کو سب سے پہلے تو دن رات میں سے جتنا وقت بھی وہ گھر سے کام کاج سے نکال سکتی ہو، اس وقت کو اپنے علم (دینی و دنیاوی) میں اضافے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ مسلم عورت ہی اسلامی معاشرہ کا اصلی خزانہ ہے۔ اسے اپنے گھر سے لے کر محلہ اور جتنی اس کی طاقت ہو مختلف عمر کی لڑکیوں، خواتین کو چھوٹی چھوٹی دینی کتابیں پڑھوا کر ان کے تاثرات لینے چاہئیں۔ خدمت خلق کے ذریعے بھی لوگوں کو قریب لاکر دین سکھایا جاسکتا ہے۔ مسلم عورت کو خود بھی ٹی وی سے بچنا چاہیے اور جو لوگ دین سے قریب ہوتے جائیں انھیں بھی ٹی وی سے دور رہنے کے بارے میں سمجھانا چاہیے۔ کیونکہ ٹی وی حیا کو ختم کردیتا ہے۔
مسلم عورت کو سمجھنا چاہیے کہ دعوتی سرگرمیوں میں ہمیں مکمل دین کو لے کر چلنا ہے۔ اس لیے سماج سے تمام بری رسوم و رواج کے خاتمہ کی کوشش کرنی چاہیے۔
(۴) مسلم سماج سے جہالت و ناخواندگی دور کرنے لیے مسلم خواتین کو ہی آگے آنا ہوگا۔ پڑھی لکھی خواتین سب سے پہلے اپنے گھر اور دھیرے دھیرے آس پاس کی عورتوں کو پہلے تعلیم سے اور پھر دین سے جوڑیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ قوم کے تمام افراد کی تربیت کرے۔ صالح اور نیک ماؤں کی گود میں نیک اور صالح اولاد پرورش پاتی ہے۔ ایک مفکر کا قول ہے ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘ حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے اپنا تمام مال حضورؐ کو دین کی تبلیغ کے لیے دے دیا۔ مصر کی زینب الغزالی سے شادی سے پہلے مہر کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا شادی کے بعد بھی میں دینی تحریک سے اسی طرح وابستہ رہوں گی، جیسے اب ہوں یہی میرا مہر ہے۔ مسلم پڑھی لکھی خواتین کو بھی ایسی قربانیاں دے کر پرانے وقتوں کے کردار کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔
مسلم خواتین کو چاہیے کہ فیشن پرستی، آبا پرستی، دکھاوے، رسم و رواج کو اپنی زندگیوں سے نکال باہر کریں۔ کسی بھی بیماری میں علاج سے فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب پرہیز کا پورا خیال رکھا جائے۔ اسی طرح دین کو غالب کرنے کے لیے ہمیں اپنی زندگی سے درج بالا منکرات کو نکالنا پڑے گا۔
(۵) ہندوستانی مسلم عورت کی ایک بہت بڑی تعداد ایسے مقام پر کھڑی ہے جہا ںکا ہرراستہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔ اللہ کا پکا رنگ نہ چڑھا ہونے پر بڑی تعداد خواتین کے غیر اسلامی رنگ میں بہت جلد رنگ جاتی ہے گھروں میں باقاعدہ دینی تعلیمات کا نظم نہ ہونے سے دین پر چلنے کے لیے مضبوطی پیدا نہیں ہوپاتی۔ مریم جمیلہ صاحبہ نے امریکہ میں اسلام قبول کرکے حجاب استعمال کرنا شروع کیا اور بدترحالات کا مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ہندوستان میں بھی ایسے کردار پیدا کرے۔ آمین!
زیتون نشاط، اندور، ایم پی
(۱) میرے خیال میں مسلم عورت کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی بے شعوری ہے۔ وہ اپنی قدرو قیمت اور اپنے رول سے یکسر ناواقف ہے۔ اور جس حالت میں بھی اس وقت ہے، اسی حالت میں مطمئن نظر آتی ہے۔ بدقسمتی سے اس کی اس حالت کا ذمہ دار اسلام کو قرار دیا جاتا ہے۔
(۲) میرے خیال میں اس وقت مسلم عورت کسی سماجی یا دینی رول کی ادائیگی کے قابل نہیں۔ اس کی دو وجوہ میری نظر میں ہیں۔ ایک یہ کہ مسلم سماج نے عورت کی تعلیم و تربیت پر خاطر خواہ توجہ ہی نہیں دی۔ اس لیے وہ کسی دینی یا سماجی رول کے لائق ابھی نہیں ہے۔ جو بھی تعلیم یافتہ خواتین ہیں وہ اپنے رول کے علاوہ ہر رول ادا کرسکتی ہیں۔ وہ فلموں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہیں تجارت اور نوکریوں میں موجود ہیں۔
دوسری وجہ مسلم سماج کی فکری ناپختگی یا دین سے دوری ہے۔ اس نے اسے کسی بھی ایسے رول کے لیے جو گھر کی چہار دیواری سے باہر ہو نہ تو آمادہ کیا ہے اور نہ وہ اسے درست تصور کرتا ہے۔ اور وہ اسی کو دین داری تصور کرتا ہے۔
(۳) کر تو بہت کچھ سکتی ہے اگر وہ خود کرنا چاہے اور مسلم سماج اسے اس کی اجازت دے اور اس کے لیے تیا رکرے۔
(۴) میرے خیال میں ناخواندگی اور جہالت کو مٹانے کے لیے عورت ہی موثر رول ادا کرسکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ناخواندہ طبقہ کابڑا حصہ خواتین ہی پر مشتمل ہے۔ اور ظاہر ہے خواتین کے درمیان خواتین ہی بہتر کام کرسکتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خواتین کے پاس مردوں کی بہ نسبت وقت زیادہ ہوتا ہے بشرطیکہ وہ اسے برباد نہ ہونے دیں۔ بہار، اڑیسہ اور مدھیہ پردیش میں میں نے ایسی کئی خواتین کے بارے میں پڑھا ہے جنھوں نے تن تنہا گاؤں کے گاؤں تعلیم یافتہ کرڈالے۔ دھوجی امان(الٰہ آباد) نرملا دیوی (ایم پی) اور سکھا (اڑیسہ) وہ زبردست عورتیں ہیں جنھوں نے گاؤں کے غریب گھروں کی عورتوں میں زبردست کام کیا ہے۔ ان کے بارے میں اخبارات میں بھی چھپا ہے۔
(۵) ہندوستانی مسلم عورت کی حالت بڑی عجیب وغریب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنا وجود گم کرچکی ہے۔ انتہائی ماڈرن اور مغرب کی نمائندگی کرنے والوں کی قطار میں بھی مسلم عورت کھڑی ہے۔ پسماندہ، غریب، ان پڑھ اور مظلوم ومجبور طبقے میں بھی وہ موجود ہے اور روایتی مسلمانوں کے جمگھٹے میں بھی وہ نظر آتی ہے۔ لیکن کہیں بھی وہ اپنے حقیقی اسلامی وجود کے لیے نہیں پہچانی جاتی۔
کے۔ منیرہ شیخ، بنگلور
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146