قانونی کاروائی اور عدالتی فیصلے

ایڈوکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

کرناٹک کے ایک سرکاری اسکول میںحجاب لینے والی مسلم لڑکیوں کے کلاس روم میں داخل ہونے پر لگائی گئی پابندی کے بعد حجاب نیز ڈریس کوڈ کا معاملہ گزشتہ کئی مہینوں سے موضوع بحث بنا ہوا ہے، اڈوپی کے اس اسکول میں حجاب والی لڑکیوں کو اور پھر بعد میں کئی اسکولوں میں ٹیچروں کو بھی اسکول کالج کے گیٹ سے داخل ہونے کے لئے حجاب اور نقاب کو اتارنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کبھی بھی اس جیسی کسی صورت حال کا سامنا نہیں ہوا کیونکہ کسی بھی سرکاری اسکول یا کالج میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں تھی کہ ڈریس کوڈ کے نام پر سر پر اسکارف یا اسکول کیمپس میں داخلے کے لئے ٹیچروں کو بھی نقاب گیٹ کے باہر اتارنے کے ضابطے نافذ ہوں لیکن اس بار کرناٹک میں اسکارف اور حجاب کوڈریس کے اصولوں کی بے ضابطگی کے طور پر دیکھتے ہوئے طالبات کو پہلے کلاس روم اور پھر اسکول کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

دستور ہند کی آرٹیکل 25 بہت ہی واضح طور پر پورے ملک میں مذہبی آزادی کا بنیادی حق تمام شہریوں کو فراہم کرتی ہے۔ مذہبی آزادی کا یہ دائرہ عقیدے کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی آزادی پر بھی محیط ہے، یعنی ہمارا دستور تمام شہریوں کو یہ دستوری حق فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے مذہبی عقائد اور فریضے کے ساتھ اپنے اعمال کو بھی مذہبی تعلیمات کی روشنی میں انجام دیں۔ اسکارف یا حجاب کا درجہ و اہمیت تمام ہی عملی مسلمانوں کے لئے عقیدے کے ساتھ ضروری عمل کا بھی درجہ رکھتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 1954 میں سوامینار کے مقدمے میں اپنے تاریخی فیصلے میں عقیدے و عمل دونوں کی بنیادی اہمیت اور آرٹیکل 25 کے تحت دونوں کے احاطہ کو تفصیل کے ساتھ واضح کردیا تھا۔

مذہبی رسم و رواج کودستور و قوانین کی تدوین میں بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے ملک بھارت میں جب دستور بنایا جارہا تھا تو سکھ مذہب کی بنیادی تعلیمات کو دستور ہند کے آرٹیکل 25 میں واضح انداز میں شامل کیا گیا، آرٹیکل 25 کے تحت مذہبی آزادی کے ساتھ یہ بھی تحریر کیا گیا کہ سکھ مذہب کے ماننے والوں کو سر پر پگڑی باندھنے اور ساتھ میں کرپان لے کر چلنے کی آزادی ہوگی۔آج ہمارے ملک کی پولیس اور فوج کے اداروں میں بھی سکھ مذہب کے ماننے والوں کو پگڑی باندھنے کی پوری اجازت اور آزادی ہوتی ہے۔

آرٹیکل۲۵ نے اگرچہ مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی فراہم کی لیکن اس آزادی کو پبلک آرڈر کی شرط کے ساتھ منسلک و پابند کردیاگیا۔ اب ایک اہم سوال یہ پیدا ہوا کہ مذہب کی بنیادی رسوم جن پر عمل ضروری ہے اور آرٹیکل ۲۵ کے تحت دستیاب ہے کیسے ثابت ہوگا؟ سپریم کورٹ آف انڈیا نے ۱۹۵۴ میں شیرور مت فیصلے میں کہا کہ مذہب کی بنیادی رسوم کو اسی مذہب کے عقائد و تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ ۱۹۸۳ میں آنندا مرگا طبقے نے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی کہ ٹانڈو ناچ کو ان کی مذہبی آزادی کے تحت تسلیم کیا جائے لیکن سپریم کورٹ نے اس اپیل کو مسترد کردیا۔ مسلم سماج کے لئے مذہبی تعلیمات کو اور ان تعلیمات کی روشنی میں حاصل رسومات کو دستوری حیثیت میں تسلیم کروانا یقیناً ایک سنجیدہ اسکیم اور عملی اقدامات کا حقدار تھا۔ ۱۹۹۴ میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی پانچ ججوں پر منحصر بنچ نے اسماعیل فاروقی کے تاریخی فیصلے میں مسجد کو اسلام کی بنیادی ضرورت و حیثیت کو یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اسلامی تعلیمات میں نماز کہیں پر بھی پڑھی جاسکتی ہےاور مسجد میں ہی نماز ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس سبب سے مسجد کی اہمیت بنیادی ضرورت کی نہیں ہے۔ اس مقدمے میں بابری مسجد و اس کے اطراف کی زمین کو لے کربحث ہورہی تھی۔ ۲۰۱۸ کا مشہور شابری مالا مندر مقدمہ بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ حجاب یا اسکارف کا مسئلہ بھی اسی ضمن کا ایک باب ہے۔

۲۰۱۵ میں سی بی ایس ای نے میڈیکل کے امتحان میں بیٹھنے والوں کے لئے اپنے رہنما اصول میں اسکارف اور فل آستین کے کپڑوں پر پابندی لگادی، اس پابندی کے خلاف ندا رحیم نے کیرلا ہائی کورٹ میں سی بی ایس ای کے اس آرڈر کے خلاف پٹیشن داخل کی، جس کے فیصلے میں کیرلا ہائی کورٹ کے جج ونود کمار چندرا نے کہا کہ “ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا ملک مختلف و متفرق مذاہب و تہذیبوں کا مرکز ہے، ہمیں کسی ایسے مخصوص ڈریس کوڈ پر ذبردستی نہیں کرنی چاہیے جس پر عمل کرانے کی صورت میں بہت سے بچے امتحان میں بیٹھنے سے محروم رہ جائیں۔ ۲۰۱۶ میں دوبارہ سی بی ایس ای نے میڈیکل اکزام کے لئے یہی شرط رکھی جس کو آمنہ بنت بشیر نے کیرلا ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس کے فیصلے میں کیرلا ہائی کورٹ نے تحریر کیا کہ مذہبی تعلیمات کی بنیاد پر کسی بھی لڑکی یا عورت کا اپنے لئے ڈریس کوڈ منتخب کرنا اس کا دستوری حق ہے جو دستور کی آرٹیکل 25 کے تحت حاصل ہے۔ البتہ ہائی کورٹ نے ایک گھنٹہ پہلے پہنچ کر اسکارف و فل آستین کے کپڑوں کی چیکنگ میں مدد کرنے کی تاکید کی۔

کیرلا ہائی کورٹ نےپھر ۲۰۱۸ میں ایک دیگر فیصلے میں جس میں ایک پرائیویٹ مشنری اسکول نے بچیوں کو سر پر اسکارف لگانے سے روک دیا تھا، اسکول کے حق میں کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی پرائیویٹ اور اقلیتی اسکول کو یہ دستوری حق حاصل ہے کہ اس کی آزادی کو یقینی بنایا جائے نیز اسکول کے داخلی نظم و نسق کے لئے اصول و ضوابط مرتب کرے۔ حالیہ مقدمہ میں کرناٹک ہائی کورٹ میں بحث کے دوران بھی اس فیصلے کا تذکرہ کرکے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن کیرلا ہائی کورٹ کے فیصلے میں اسکول ایک پرائیوٹ مشنری کا تھا جس کو مائینارٹی (اقلیتی) ادارے کی حیثیت حاصل تھی جب کہ اڈوپی کا اسکول سرکاری اسکول ہے جو کہ تمام شہریوں سے حاصل ٹیکس کے ذریعے تمام شہریوں کو بنا کسی تفریق کے تعلیم فراہم کرنے کی غرض قائم کیا گیا ہے۔ وہیں کرناٹک ہائی کورٹ میں اسکارف کی بحث کے دوران ممبئی ہائی کورٹ کے ایک فیصلے پر انحصار کیا گیا جس میں ۲۰۰۳ میں ممبئی ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ قرآن کی روشنی میں لڑکیوں کا لڑکیوں کے سامنے حجاب پہننا ضروری نہیں ہے جب کہ اڈوپی و دیگر متنازعہ اسکول و کالج میں لڑکیوں کے علاوہ لڑکے بھی زیرتعلیم ہیں، بہر حال کرناٹک ہائی کورٹ نے فریقین کی دلیل اور بحث سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، امید ہے کہ آنے والا فیصلہ دستوری حقوق کو مزید تحفظ فراہم کرتے ہوئے ایک تاریخ رقم کرے گا۔

سکھوں کی پگڑی کو لے کر انگلینڈ میں ایک بہت مشہور واقعہ ہوا جس میں ایک سکھ کے اوپر 42 دفعہ ٹرافک پولیس نے جرمانہ نافذ کیا کیونکہ وہ سکھ پگڑی کے بعد ہیلمیٹ نہیں لگا سکتا تھا جب کہ موٹر سائیکل چلانے کے لئے ہیلمیٹ کا لگانا ضروری تھا، انگلینڈ حکومت کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو ملک کے قانون میں تبدیلی کردی گئی اور سکھ مذہب کی پگڑی کو قانونی اہمیت فراہم کی گئی جس کے بعد انگلینڈ میں ہیلمیٹ کی جگہ پگڑی کو تسلیم کرلیاگیا۔

مذہب اسلام میں حجاب نیز اسکارف کی بنیادی اہمیت کو ثابت کرنے کے لئے متعدد احادیث و قرآن کی آیتیں موجود ہیں جو اسلام کے پیروکاروں کو حجاب اور پردہ کرنے کے سخت احکامات دیتے ہیں۔ اختلاف رائے چہرے کے پردے کو لے کر ہوسکتا ہے لیکن سر کو ڈھکنے میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔

امریکہ میں اسکارف اور حجاب کو لے کر ایک مخصوص پالیسی موجود تھی جس میں حجاب کو پالیسی کے خلاف تسلیم کیا گیا تھا، لیکن امریکہ کی سپریم کورٹ نے 2015 میں نو ججوں پر منحصر دستوری بینچ میں اپنے مشہور فیصلے ’’اے این ایف‘‘ میں اسکارف کو اجازت دیتے ہوئے ’’لوک پالیسی‘‘ میں تبدیلی کردیا تھا اور اسکارف کو شہری حقوق ایکٹ 1964 کے خلاف تسلیم کیا، اس پالیسی کے تحت اسکارف لگانے والی سامنتھا ٓالوف کو حجاب کی وجہ سے نوکری نہیں مل رہی تھی۔

اسکارف لگانے والی مسلم طالبات نے اڈوپی سرکاری کالج کی انتظامیہ کی طرف سے کئے جانے والے اس غیر منصفانہ فیصلے کو ماننے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ یہ ان کا مذہبی حق ہے، جس حق کو دستور ہند بھی تحریری طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کالج انتظامیہ ان طالبات کا حجاب نہیں اترواسکتی ہے اور نا ہی ملک کا کوئی قانون انتظامیہ کو یہ اجازت دیتا ہے، اور نہ ہی اسکول میں ایسا کوئی اصول موجودہے۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت کی یہ طالبات اب روز کلاس سے باہر بیٹھ کر پڑھائی کرتی ہیں اور اپنا احتجاج درج کراتی ہیں۔

دستور ہند کی آرٹیکل 14 کے تحت تمام مذاہب کو یکساں آزادی اور قانون کا یکساں تحفظ فراہم ہونا تمام ہی شہریوں کا بنیادی حق ہے لیکن دستور کا یہ بنیادی حق اسکارف اور حجاب کے معاملے میں مسلم اقلیتی طبقہ کی طالبات کے ساتھ تفریق اور بھید بھاؤ کا رویہ اختیار کیا گیا۔ اگر سکھ مذہب کو ماننے والوں کو پگڑی باندھنے کی اجازت ہمارا دستور دیتا ہے تو اسلام مذہب کے پیروکاروں کو بھی حجاب اور اسکارف کی اجازت دستوری حق کی صورت میں حاصل ہونی چاہیے۔

ایک جمہوری ملک میں جہاں تمام ہی مذاہب اور تہذیبوں کو اپنے مخصوص شناخت اور تشخص کا احترام نیز اس پر عمل کرنے کے دستوری حقوق حاصل ہوں نیز اقلیتی طبقات کے متعلقہ حقوق کے تحفظ کے لئے مخصوص وزارت و کمیشن قائم ہوں لیکن پھر بھی کسی ریاست میں اس طرح کی کوئی پابندی نافذ نا ہونے کے باوجود کسی سرکاری اسکول یا کالج میں مسلم لڑکیوں کے ساتھ تفریق کا یہ امتیازی سلوک برتا جانا یقینا تشویشناک ہے۔ جب کہ دستور ہند کے آرٹیکل 29 کے تحت کسی بھی شہری کو کسی بھی ایسے تعلیمی ادارے میں مذہب کی بنیاد پر داخل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا ہے جو تعلیمی ادارہ حکومت کے زیر انتظام ہو۔ اڈوپی کا کالج ایک سرکاری کالج ہے، لیکن ابھی تک صوبائی حکومت یا مرکزی حکومت نیز اقلیتی و حقوق انسانی سے متعلق وزارت و کمیشن خاموش ہیں جن کی کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقلیتی طبقات کے ساتھ ہمارے ملک میں تفریق اور بھید بھاؤ کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، اور یہ واقعات کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حکومت والے صوبوں میں ہی نہیں بلکہ سیکولر سیاسی جماعتوں کے زیر اقتدار صوبوں میں بھی بڑھے ہیں، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور راجستھان میں بھی انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے۔ بہر حال ریاست کرناٹک میں بی جے پی کے حکومت میں آنے کے بعد سے اس قسم کے معاملات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ حجاب اور کالج یونیفارم پہنے کلاس کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھی طالبات کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ ان لڑکیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن میں ان کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر تفریق برتی گئی ہے۔

ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ذہنیت رفتہ رفتہ سماج کے ہر ادارے میں اپنا زہر گھولتی جارہی ہے۔ اڈوپی کے سرکاری کالج میں جہاں ایک ہزار سے زائد لڑکیاں زیرتعلیم ہیں اگر دس لڑکیاں سر پر اسکارف لگالیں تو اس سے نظم و ضبط میں کوئی رخنہ نہیں پیدا ہوتاہے، اور نا ہی ہمارے ملک کے کسی بھی ادارے میں ایسا کوئی ضابطہ موجود ہے۔ ایک مہذب سماج میں ایسا کوئی ضابطہ ممکن بھی نہیں ہونا چاہیے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کو ایک ساتھ جمع کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے سماج میں ہر طبقے کو عزت فراہم کی جاتی ہے۔ ہمارا ملک جو اپنی مختلف النوع مذہبی و سماجی تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اور پوری دنیا میں ہماری یہی سب سے اہم شناخت تھی لیکن سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے پوری دنیا میں یہ پیغام پہنچ رہاہے کہ ہمارے ملک میں صرف ایک ہی مذہب اور تہذیب کو جگہ ملے گی بقیہ تمام کی شناخت و تشخص کو ختم کردیا جائے گا۔

اگر اسکارف یا حجاب کے مسئلہ کو ایک معمولی اور چھوٹا معاملہ کہہ کر دبانے کی کوشش کی جائے تو یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو بڑے فیصلوں اور واقعات کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ اسکارف اور حجاب کا مسئلہ ایک ایسے مذہب کے عملی پیروکاروں کے لئے شناخت اور مذہبی آزادی کا مسئلہ ہے جو اقلیت میں ہیں۔ اقلیت کو ہر سماج میں خطرات اور اندیشے لاحق ہوتے ہیں۔ حکومت و عدلیہ کی دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کے ہر فرد کو یہ یقین دلائے کہ وہ پوری طرح محفوظ ہے۔ دستور ہند میں شامل باب سوم’’شہری و بنیادی حقوق‘‘ اور اس میں شامل آرٹیکل کا مقصد یہی تو تھا کہ تحریری شکل میں حکومت اور عوام کو یہ پیغام دیا جائے کہ اب ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی زیادتی ممکن نہیں ہوگی اور ہمارا دستور حکومتوں کے لئے ایک ایسا منظم ڈھانچہ تیار کرے گا جس میں کسی کا استحصال ممکن نہیں ہوگا۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اب تاثر اس کے برعکس دیا جارہا ہے۔

(زیرِ نظر مضمون اس مسئلے پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے لکھا گیا ہے، اس لیے وہ زیر بحث نہیں آیا۔ ایڈیٹر)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146