قبر کا بچھو

مصطفی کمال خاں / بشیر ساجد

کئی سال پہلے کی بار ہے، یہ سچا واقعہ میرے ایک رفیق کار نے مجھے سنایا تھا:
چچا احمد خاں جس ادارے سے وابستہ تھے وہاں دوسری عالمی جنگ کی ہندوستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر طفیل بھی ملازم تھے جو بائیں ہاتھ سے ٹنڈے تھے۔ بڑے دیندار، پابند صوم و صلوٰۃ، پرہیز گار، فرض شناس، خاموش طبع اور کم آمیز۔ اپنے کام سے کام رکھتے۔ دوسرے ملازموں سے بہت کم بات چیت کرتے۔ ہر وقت کسی گہری سوچ میں ڈوبے رہتے۔ کسی سے کچھ لے کر کھاتے پیتے بھی نہ تھے۔ ہر وقت کچھ زیر لب پڑھتے رہتے۔ بعض دفعہ اچانک بڑبڑا اٹھتے: ’’میں گناہ گار ، تو بخشن ہار‘‘ سننے والے چونک اٹھتے۔ ان کا یہ رویہ دوسرے ملازموں کے لیے خاصا حیران کن تھا،البتہ چچا جان سے ان کی کچھ ہم مذاقی تھی۔ ان سے گاہے گاہے مختصر سی بات چیت ہوجاتی۔ انہیں میجر طفیل میں کچھ دلچسپی تھی، لیکن میجر کے کٹے ہوئے ہاتھ کے بارے میں پوچھتے انہیں بھی ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی۔ تاہم ایک دن میجر صاحب کو قدرے خوشگوار موڈ میں پاکر چچا جان نے جرات کرکے ان سے پوچھ ہی لیا:
’’میجر صاحب! اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کا بایاں ہاتھ کیسے کٹا اور آپ ٹنڈے کس طرح ہوئے؟ کسی فوجی کارروائی میں کوئی شدید ضرب لگی یا عام زندگی ہی میں کوئی حادثہ پیش آگیا، اور پھر آپ اتنے گم صم کیوں رہتے ہیں جیسے آپ اندر سے دکھی ہوں؟‘‘
’’احمد خاں جی! اس کے پیچھے ایک طویل اور دہشت انگیز داستان ہے۔ آپ سن کر کیا کریں گے؟‘‘ میجر طفیل نے قدرے تشنجی کیفیت سے کہا اور ان کا رنگ زرد ہوگیا۔
’’میجر صاحب! مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کا ہاتھ کٹنے کے پس پردہ کوئی ذہنی و نفسیاتی طورپر اذیت ناک واقعہ ہے۔ کیا حرج ہے اگر آپ یہ گزرا ہوا واقعہ مجھے سنا دیں۔ اس سے آپ کا جی بھی ہلکا ہوسکتا ہے اور شاید میرے لیے بھی اس میں کوئی سبق ہو۔‘‘ چچا جان نے کہا۔
میجر طفیل نے کچھ تامل کے بعد کہنا شروع کیا: ’’میں نے اپنا ہاتھ کٹنے بلکہ خود کاٹنے کا واقعہ اب تک کسی کو نہیں سنایا، آج آپ کو سناتا ہوں۔ شاید واقعی اس میں آپ کے لیے غور کرنے کا کوئی نکتہ اور عبرت کا سامان ہو۔‘‘
’’جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا ۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا۔ جرمنی اور اٹلی ایک طرف تھے، برطانیہ اور فرانس دوسری طرف۔ بعد میں روس اور امریکہ بھی برطانیہ اور فرانس کے اتحادی بن گئے۔ امریکہ کے مقابلے میں جاپان نے محوری طاقتوں، یعنی جرمنی اور اٹلی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا اور بحرالکاہل پر واقع امریکہ کی مشہور بندرگاہ اور جنگی اڈے پرل ہاربر پر اچانک حملہ کرکے اسے تہس نہس کردیا اور پھر اپنے ہمسایہ مشرقی ایشیائی ممالک فلپائن، انڈونیشیا، ملایا، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، سنگاپور اور برما وغیرہ پر، جن پر یورپی طاقتوں کا قبضہ تھا، حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور ولندیزی فوجوں کی بری طرح پٹائی کی۔ کلکتہ اور آسام پر بھی بمباری کی جس سے وہاں بھگدڑ مچ گئی۔ دولت مندوں نے کلکتہ اور آسام کے بڑے شہروں سے اندرون ہند کے محفوظ علاقوں کی طرف بھاگنا شروع کردیا۔ سنگاپور اور برما میں انگریزی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ انگریز جرنیل نے ہتھیار ڈالتے وقت اپنے فوجیوں سے کہہ دیا کہ جو فرار ہوکر جانیں بچاسکتے ہیں، انہیں ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ وہ اپنی فوج کے آسام میں واقع بیس کیمپ میں رپورٹ کریں یا جدھر اور جہاں ممکن ہو جاپانیوں سے بچ کر نکل جائیں اور اپنے فوجی دستوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔ فوجیوں کے علاوہ سنگاپور اور برما میں جو غیر فوجی ہندوستانی کاروبار وغیرہ کے سلسلے میں مقیم تھے، وہ بھی بے سروسامانی کی حالت میں جانیں بچا کر بھاگے۔ برما اور آسام کے جنگلوں کا سفر بڑا کٹھن، اذیت ناک اور جان لیوا تھا۔ کچھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے اور بہت سے مارے گئے۔ انگریز فوجوں نے ایسی عام اور بڑے پیمانے پر بے پناہ شکست کسی دوسرے ایشیائی ملک میں اس سے پہلے کبھی نہ کھائی تھی۔
اس افراتفری اور عام ہڑبونگ کے دوران میری رجمنٹ کا ایک سکھ میجر نہال سنگھ اور میں اندھیری رات میں گھوڑوں پر سوار ہوکر نکلے اور برما کے محاذ سے سرپٹ بھاگے۔ برما گھنے، گنجان، تاریک اور خطرناک جنگلوں کا ملک ہے، جن میں سے گزرنا بڑا دشوار کام تھا۔ جنگلی درندوں کے اچانک حملے کا ہر وقت دھڑکا اور راستے نامعلوم، بلکہ ناپید بہرحال ہم نے اندازے سے ہندوستانی صوبہ آسام کارخ کیا جہاں جاپانی بمباری کے باوجود ہنوز انگریزی تسلط برقرارتھا۔ گھنے جنگلوں میں ہم ککریوں سے راستے کاٹتے چھانٹتے چلے جارہے تھے۔ دنوں کی گنتی نہ راتوں کا شمار یاد رہا۔ کھانے پینے کا سامان ختم ہوتا جارہا تھا۔ جنگلی پھلوں اور ندی نالوں کے پانی پر گزارہ ہونے لگا۔ بعض دفعہ درندوں اور خطرناک سانپوں سے بھی واسطہ پڑا مگر ان سے بچ کر آگے بڑھتے رہے۔
ایک دن اچانک سامنے کھلی جگہ پر ایک قبرستان دکھائی دیا۔ پچیس تیس قبریں ہوں گی۔ ارد گرد کوئی آبادی نہ تھی۔ کبھی ہوگی لیکن اب یا تو مکین مرکھپ چکے تھے یا جنگ کے خطرات سونگھ کر کہیں دور محفوظ مقامات پر جا چکے تھے۔ شکستہ، ویران اور زمین بوس جھونپڑیوں میں ہو کا عالم تھا۔ ہم نے وہاں کھانے کی چیزیں تلاش کرنے کی عبث کوشش کی۔ مایوس ہوکر ہم اپنی راہ کی طرف چلے تھے کہ اچانک ایک قبر سے مردے کی تقریباً آدھی نعش باہر نکلی ہوئی، کچھ گلی سڑی اور کچھ بچی ہوئی دکھائی دی۔ اس پر ایک چھوٹے سائز کے کچھوے کے برابر بچھو بیٹھا اسے بار بار ڈنک مارتا تھا اور نعش سے خوفناک چیخیں نکلتی تھیں بعینہٖ جیسے وہ بھیانک بچھو کسی جیتے جاگتے انسان کو کاٹتا تو اس کی شدت درد سے چیخیں نکلتیں جو زندہ انسانوں اور جانوروں کو دہلانے بلکہ بے ہوش کرنے کے لیے کافی ہوتیں۔ یہ ایک خاص وحشت ناک اور دہشت انگیز منظر تھا۔ میجر نہال سنگھ نے میرے منع کرنے کے باوجود بچھو پر گولی چلادی۔ ایک شعلہ سا نکلا لیکن بچھو پر کوئی اثر نہ ہوا۔ نہال سنگھ نے گولی چلانے کی نیت سے دوبارہ نشانہ لیا تو میں نے اسے سختی سے منع کیا اور اپنی راہ لینے کے لیے کہا کہ پتہ نہیں اس مردے اور بچھو کا کیا معاملہ ہے۔ کوئی خدائی بھید ہے۔ ہمیں اس میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ لیکن میجر نہال سنگھ آخر سکھ تھا، اس نے میری بات سنی ان سنی کردی اور بظاہر مسلم قبرستان کے ایک مردے کو بچھو سے بچانے کے لیے دوبارہ گولی داغ دی۔ پھر ایک شعلہ سا نکلا لیکن بچھو پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس پر بچھو نعش کو چھوڑ کر ہماری طرف بڑھا۔ میں نے نہال سنگھ سے کہا کہ اب بھاگو یہاں سے، بچھو کا نعش چھوڑ کر ہماری طرف بڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔
ہم نے گھوڑے سرپٹ دوڑائے۔ خاصی دور آگے جاکر پیچھے نظر ڈالی تو بچھو ہمارے تعاقب میں تیزی سے چلا آرہا تھا۔ ہم نے گھوڑوں کو پھر ایڑ لگائی۔ چند میل آگے جاکر ایک ندی سامنے آگئی جو خاصی گہری معلوم ہوتی تھی۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے رک کر سوچنے لگے کہ ندی میں گھوڑے ڈال دیں یا کنارے کنارے چل کر کوئی پل، گھاٹ وغیرہ تلاش کیا جائے، لیکن ابھی فیصلہ نہ کرپائے تھے کہ دیکھا وہی بچھو ہمارے قریب پہنچا ہی چاہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جنگ آزمودہ اورمسلح فوجی ہونے کے باوجود ہم پر سخت گھبراہٹ طاری ہوگئی اور ہمارے گھوڑے ٹاپو مارنے لگے جیسے وہ بھی بچھو سے خوفزدہ ہوگئے ہوں۔ بچھو کا رخ نہال سنگھ کی طرف تھا۔نہال سنگھ نے خوف اور حواس باختگی کے عالم میں اپنا گھوڑا ندی میں ڈال دیا۔ اس کے تعاقب میں بچھو بھی ندی میں اتر گیا۔ خدا جانے بچھو نے اس کے پاؤں یا ٹانگ یا جسم کے کس حصے پر کاٹا کہ گھوڑے نے بھی اس غیر معمولی قسم کی بلائے بے درماں بچھو کی آمد سے خوف محسوس کیا۔ اس پر کپکپی سی طاری ہوگئی۔ نہال سنگھ نے کربناک چیخ کے ساتھ مجھے پکارا: ’’طفیل! میں ڈوب رہا ہوں، جل رہا ہوں، مجھے بچھو سے بچاؤ ، بچاؤ۔‘‘ میں نے بھی گھوڑے کو ندی میں ڈال دیا اور سہارے کے لیے بایاں ہاتھ نہال سنگھ کی طرف بڑھایا جسے اس نے مضبوطی سے پکڑ لیا لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہاں ندی کا عام پانی نہیں بلکہ آگ کا زہریلا لاوا بہہ رہا ہے جو نہ صرف میرے ہاتھ کو جلا ڈالے گا بلکہ میرے باقی جسم کو بھی مکئی کے بھٹے کی طرح ابال کر رکھ دے گا۔ میں نے اوسان بحال رکھے اور جلدی سے فوجی ککری نکالی اور اپنا بایاں بازو کاٹ کر پھینک دیا۔میں نے اپنے آپ کو نہال سنگھ کی گرفت سے چھڑالیا تھا، لہٰذا جلدی سے گھوڑے سمیت کنارے کا رخ کیا۔ میجر نہال سنگھ مجھے آوازیں دیتے دیتے اور درد سے چیختے کراہتے گھوڑے سمیت کھولتے پانی کی دیگ میں ڈوب چکا تھا اور سطح آب پر بڑے بڑے اونچے آتشیں بلبلے اٹھ رہے تھے۔ کنارے کے قریب پانی کا درجہ حرارت نارمل معلوم ہوا۔
وہ قہر خداوندی بچھو اپنا کام کرکے جاچکا تھا۔ مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔ اللہ کے لشکروں میں سے وہ اکیلا ایک غیبی لشکر کے مانند تھا۔ اس نے مجھ سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ غالباً جدھر سے آیا تھا ادھر ہی کو اپنے اصل کار مفوضہ کی طرف لوٹ گیا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے ٹنڈے میجر طفیل کو جھرجھری سی آگئی اور آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ چچا احمد خاں نے میجر طفیل سے پوچھا۔
’’میں نے پٹی باندھی اور جوں توں کرکے جنگل، پہاڑ، ندی، نالے عبورکرتا، جنگلی درندوں سے بچتا بچاتا، کہیں جنگلی پھل کھاتا، کہیں فاقے کرتا، کہیں جنگلی قبائیلیوں سے لڑتا، بچتا اور کہیں پرامن قبائلیوں سے مدد اور رہنمائی لیتا ہوا بالآخر ایک بیس کیمپ میں پہنچ گیا۔ میں ادھ موا ہوچکا تھا۔ بیس کمانڈنٹ کو رپور ٹ کی اور اپنی سرگزشت بیان کی۔ کئی دن تک کیمپ اسپتال میں میرا علاج ہوتا رہا اور آرام کرنے کا موقع دیا گیا۔ کیمپ کمانڈر نے ’’آرڈر آف دی ڈے‘‘ جاری کیا کہ فوجی افسر اور سپاہی جنگلوں، قبرستانوں اور مقامی لوگوں کی بستیوں سے گزرتے وقت کسی قسم کی غیر ضروری دخل اندازی نہ کیا کریں۔‘‘
’’بیس کیمپ سے آپ کو کہاں بھیجا گیا؟‘‘ چچا نے پوچھا۔
’’میں active service کے قابل نہیں رہا تھا۔ ضروری کارروائی کے بعد مجھے پنشن پر گھر بھیج دیا گیا۔ جنگ کے خاتمے پر جب فوجیوں کی سول زندگی میں بحالی کا پروگرام شروع کیا گیا تو مجھے اس محکمہ میں ملازمت مل گئی۔ اللہ کا شکر ہے۔‘‘
’’اس واقعہ نے آپ کی زندگی پر کیا اثر ڈالا؟‘‘ چچا کا اگلا سوال تھا۔
’’سچ تو یہ ہے کہ اس واقعے سے پہلے میں کوئی خاص مذہبی آدمی نہ تھا، اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان ضرور تھا، مگر نماز، روزے اور دیگر دینی عقائد پر عملاً کاربند نہ تھا۔ یہی خیال تھا کہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ لیکن اس واقعے نے میرے ذہن و قلب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں موت کے بعد زندگی، قبر کے عذاب و ثواب، قیامت، حشر و نشر وغیرہ کے متعلق سوچنے لگا۔ قرآن و حدیث کے مطالعے، علما اور اہلِ دل حضرات سے گفتگوؤں کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اللہ نے دنیا عبث پیدا نہیں کی۔ اس دنیا، بلکہ ساری کائنات اور ہماری زندگیوں کا ایک مقصد ہے۔ ہمیں اپنے اچھے برے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ یہاں مکافات عمل کا اصول جاری ہے۔ انسان کو آخرت کا زادِ سفر تیار کرتے رہنا چاہیے۔‘‘
مرسلہ: اقبال احمد ریاض، وانم باڑی (اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں