دھم کی آواز سنتے ہی بوڑھی بیگم خالد جان چونک اٹھیں۔ ان کی آنکھوں میں خوف سما گیا۔ وہ گھبرا کر صحن میں نکلیں تو وہاں ایک شخص موجود تھا۔
’’خبردار! پولیس میرا پیچھا کررہی ہے… آپ کی چار دیواری زیادہ اونچی نہیں، اس لیے یہی مناسب نظر آیا کہ اس پر چڑھ کر اِدھر آجاؤں… میرا آپ کو نقصان پہنچانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں… اگر آپ نے کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کی تو بالکل محفوظ رہیں گی۔‘‘ اس نے سرسراتی آواز منہ سے نکالی… اس کے ہاتھ میں ایک ننھا سا پستول تھا اور چہرے پر رومال۔ اب پستول کا رخ ان کی طرف تھا۔
’’مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘ انھوں نے اپنے دل کی دھڑکنوں کو تیز ہوتا محسوس کیا، کیونکہ یہ آواز ان کے لیے جانی پہچانی تھی۔
’’بس آپ مجھے کہیں چھپا دیں… پولیس اگر دروازہ کھٹکھٹا کر میرے بارے میں پوچھے تو کہہ دیں، ادھر کوئی نہیں ہے۔‘‘
’’اچھی بات ہے… آؤ… میں تمھیں چھپا دیتی ہوں۔‘‘ وہ بولیں۔
وہ اسے اندرونی کمرے میں لے آئیں… یہاں گھر کی بے کار چیزیں رکھی گئی تھیں… ان کے پیچھے چھپنے کی بہت جگہ تھی…
’’تم یہاں چھپ جاؤ… پولیس آئی تو میں اسے آگے بھیج دوں گی۔‘‘
’’شکریہ محترمہ! آپ بہت اچھی ہیں۔‘‘
’’تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے!‘‘ انھوں نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
’’جی… میں… یعنی کہ میں…!‘‘ انھوں نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
وہ بغیر کچھ کہے کمرے سے نکل گئیں… عین اس لمحے دروازے پر زوردار انداز میں دستک ہوئی… انھوں نے ایک نظر اندرونی کمرے پر ڈالی… اس کا دروازہ انھوں نے کھلا چھوڑ دیا تھا… اجنبی اب نظر نہیں آرہا تھا… اس کا مطلب تھا، اس نے خود کو چھپا لیا تھا۔
اب وہ دروازے کی طرف آئیں … دروازہ کھولنے سے پہلے انھوں نے پوچھا: ’’کون؟‘‘
’’پولیس… فوراً دروازہ کھول دیں۔‘‘
انھوں نے دروازہ کھول دیا… باہر واقعی کئی پولیس والے کھڑے تھے۔
’’محترمہ! معاف کیجیے گا… ہم ایک چور کا پیچھا کررہے ہیں… وہ اسی سمت آیا ہے… کہیں وہ آپ کے گھر میں تو نہیں ہے۔‘‘
ایک لمحے کو ان کا جی چاہا … کہہ دیں: ’’ہاں! وہ اندر چھپا ہے۔‘‘
لیکن وہ یہ نہ کہہ سکیں… انھوں نے کہا: ’’نہیں… وہ اس طرف نہیں آیا۔‘‘
’’اچھی بات ہے،دروازہ اندر سے بند رکھیں، کوئی دستک دے تو ہرگز نہ کھولیں… وہ بہت خطرناک ہے۔‘‘
’’جی اچھا!‘‘ وہ بولیں۔
اور پولیس والے آگے بڑھ گئے… انھوں نے دروازہ اندر سے بند کرلیا… کافی دیر گزرگئی، پھر وہ اندرونی کمرے سے نکل کر ان کے سامنے آگیا… ان کے تینوں بچے ابھی تک گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔
’’اب تم جاسکتے ہو… میرا خیال ہے پولیس والے دور جاچکے ہیں۔‘‘
’’ابھی نہیں … میں دن نکلنے کے وقت یہاں سے جاؤں گا۔‘‘
’’لیکن تم اتنی دیر تک میرے گھر میں کس طرح ٹھہر سکتے ہو؟‘‘
’’مجبوری ہے… پولیس صبح سے پہلے اس علاقے سے نہیں جائے گی… کیونکہ انھوں نے مجھے اس طرف آتے دیکھ لیا تھا۔‘‘
’’تب پھر تم اسی کمرے میں چلے جاؤ… میں باہر سے دروازہ بند کردیتی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے… مجھے کوئی اعتراض نہیں… لیکن اگر آپ نے مجھے پکڑوانے کی کوشش کی تو پھر میرا پستول چل جائے گا۔‘‘
’’اگر یہ کرنا ہوتا تو ابھی کرچکی ہوتی۔‘‘ انھوں نے منہ بنایا۔
پھر وہ اس کمرے میں چلا گیا… انھوں نے دروازہ بند کردیا اور خیالات میں کھوگئیں… نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور جاچکی تھی۔
صبح سویرے انھوں نے دروازے پر دستک دی… او ر بولیں: ’’دن نکلنے والا ہے، اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘
’’میں جانے کے لیے تیا ربیٹھا ہوں… آپ کے دستک دینے کا انتظار تھا۔‘‘
’’شکریہ!‘‘ انھوں نے کہا اور دروازہ کھول دیا۔
وہ کمرے سے نکل آیا… اور بولا: ’’میں آپ کا یہ احسان یاد رکھوں گا… اور آپ کے کام آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
’’کیا تمھیں اس بات پر حیرت نہیں کہ میں نے اس قدر آسانی سے تمھیں گھر میں کیوں چھپنے دیا … اور پولیس کو کیوں نہ بتایا۔‘‘
’’آپ ایک شریف خاتون ہیں… آپ کے دل میں انسانی ہمدردی بہت ہے۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔
’’ہاں! یہ بات ہے ۔۔۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’ابھی تم نے کہا ہے ناں… تم میرے کام آنے کی کوشش کروگے۔‘‘
’’ہاں بالکل … میں برا آدمی ضرور ہوں… لیکن احسان کرنے والوں کے احسان کو کبھی نہیں بھولتا۔‘‘
’’تب پھر سنو! آج سے تین سال پہلے تم نے میرے گھر میں چوری کی تھی اورمیرے گھر کا صفایا کرکے چلتے بنے تھے۔‘‘
’’کیا… نہیں، یہ غلط ہے۔ … میں جہاں چوری کرلیتا ہوں… اس گھر کو کبھی نہیں بھولتا … اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں… میں نے اس گھر میں تین سال پہلے چوری نہیں کی تھی۔‘‘
’’وہ یہ گھر نہیں تھا… یہ گھر کرائے کا ہے… اور وہ گھر بھی کرائے کا تھا۔‘‘
’’اوہ اچھا… ہاں یہ ہوسکتا ہے… لیکن آپ کیا کہنا چاہتی ہیں… اس صورت میں آپ کو میرے بارے میں پولیس کو بتادینا چاہیے تھا، اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’ہاں! بتادینا چاہیے تھا، لیکن میں نے بتایا نہیں… اس کی وجہ ہے… تین سال پہلے جب تم چوری کے لیے آئے تھے … گھر کی جو قیمتی چیزیں تم سمیٹ کر لے گئے تھے … ان میں میرے بیٹے کے بچپن کی کچھ چیزیں بھی تھیں … مجھے اصل میں ان چیزوں کا بہت دکھ تھا… میں ان کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھی… لیکن وہ تم لے گئے… اب تین سال بعد میں نے تمہاری آواز سنی تو پہچان گئی کہ تم وہی ہو… اسی لیے میں نے تمھیں پولیس کے حوالے نہیں کیا… بس تم میری وہ چیزیں مجھے لادو… اس احسان کا بدلہ یہی ہے۔‘‘
’’لیکن مجھے کیا معلوم! وہ کیا چیزیں تھیں… ہم لوگ تو بس قیمتی چیزوں کے چکر میں ہوتے ہیں… ان میں جو چیزیں ہمارے مطلب کی نہیں ہوتیں، ہم انھیں کب سنبھال کر رکھتے ہیں… بے کار چیزوں میں پھینک دیتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’میرے لیے … بیٹے میرے لیے… بس تم وہ چیزیں تلاش کرو۔‘‘
’’اچھی بات ہے… میں تلاش کرتا ہوں جاکر… یہ بتائیں… وہ چیزیں تھیں کیا؟‘‘
’’ہم نے اس کے گلے میں ایک لاکٹ ڈالا تھا… وہ قیمتی نہیں تھا… لیکن بہت خوب صورت تھا… اس میںنیلے رنگ کے ستارے لگائے گئے تھے… اس کے علاوہ پیتل کی ایک انگوٹھی تھی… اس میں سرخ رنگ کا دل نما نگینہ جڑا تھا… بس میرے پاس اپنے بیٹے کی یہی چیزیں تھیں… وہ بھی تم لے گئے… دونوں مجھے لادو۔‘‘
’’اچھا! میں بیکار چیزوں میں تلاش کرتا ہوں جاکر… مل گئیں تو کل لے آؤں گا۔‘‘
اللہ تمھیں خوش رکھے۔
اور وہ چلا گیا… دوسرے دن وہ شام کے وقت واپس آیا… اس کے چہرے پر جوش تھا… بیگم خالد اسے اندر لے گئیں… اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولیں: ’’اس کا مطلب ہے… وہ چیزیں مل گئیں۔‘‘
’’ہاں مل گئیں… بلکہ اور چیز بھی مل گئی۔‘‘
’’ایک اور چیز… کیا مطلب؟‘‘ وہ چونکیں۔
’’ان دونوں چیزوں کے علاوہ آپ کے بیٹے کے گلے میں ایک زنجیر بھی ہوتی تھی… اس زنجیر کے نیچے ایک چاند لٹکتا تھا، اس پر بسم اللہ لکھا ہوا تھا۔‘‘
’’کیا مطلب… یہ ایک اور چیز تمھیں کہاں سے مل گئی… ضرور تم نے اس گھر میں بھی چوری کی تھی، بس وہیں میرا بیٹا موجود ہے۔‘‘
’’نہیں… بلکہ وہ زنجیر بچپن سے ہی میرے پاس ہے… آپ کا بیٹا گھر سے بھاگ گیا تھا ناں… یہ رہا میں… آپ کا بیٹا… اور یہ رہیں وہ تینوں چیزیں۔‘‘
پھر جونہی اس نے وہ چیزیں نکال کر اس کے سامنے کیں… بیگم خالد اس سے لپٹ گئیں… ان کے باقی بچے اس منظر کو حیرت سے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے… پھر وہ اپنے بڑے بھائی کی طرف لپکے۔
دوسرے دن بیگم خالد نے اپنے علاقے کے پولیس آفیسر کو فون کرکے گھر بلایا اور اپنے بیٹے کی ساری کہانی سنائی… پوری کہانی سننے کے بعد وہ بولے: ’’ہم اپنی پوری کوشش کریں گے کہ قانون انھیں معاف کردے… جن جن گھروں میں انھوں نے چوریاں کی ہیں، ان گھرانوں کا مال جتنا انھیں واپس کیا جاسکتا ہے، کریں گے… ان لوگوں سے انھیں معافی بھی دلوائیں گے… امید ہے یہ بہت جلد آپ لوگوں کے درمیان ہوں گے… آؤ بھئی چلیں۔‘‘
وہ انسپکٹر صاحب کے ساتھ پولیس اسٹیشن جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس وقت اس سب کی آنکھوں میں آنسو تھے… یہ آنسو غم کے بھی تھے اورخوشی کے بھی…
——