قرآن اور ہماری زندگی

ماریہ سعید اختر

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو ! یقیناً میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھوگے، تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ۔ اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت۔(رواہ الحاکم والبہیقی)
عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا بے شک اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بلند کرتا ہے ۔اور اسی کتاب کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو ذلیل کرتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
قرآن ایک مکمل دستور حیات ہے۔ یہ دستور الٰہی ہر دور کے لوگوں کے لیے راہ ہدایت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ترجمہ:’’ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کردی ہے ۔جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کردینے والی ہے اورہدایت اور رحمت اور بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے سر تسلیم خم کردیا ہے۔ ‘‘ (نحل:89)
ترجمہ:’’یہ قرآن لوگوں کےلیے بصیرت اور ہدایت ہے اور یقین کرنے والوں کے لیے رحمت ہے۔‘‘(الجاثیہ:20)
مسلمانوں کی ذلت وپستی سے نکلنے کا واحد علاج یہ ہے کہ قرآن کی طرف لوٹا جائے۔ اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ بھی پڑھا جائے اور اس کے معانی و مطالب پر بھی غور کیا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ خدا کو اپنے بندوں سے کیسی زندگی مطلوب ہے۔
حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’بے شک تم قرآن سے بڑھ کر افضل کسی چیز کے ذریعے اللہ کی طرف ہرگز نہیں لوٹو گے ۔‘‘
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد قرآن کریم کو اپنا دستور حیات نہیں سمجھتی اور ثواب کی نیت سے صرف اس کی تلاوت ہی کو کافی سمجھتی ہے۔ بے شک قرآن کریم کی تلاوت باعث اجرو ثواب ہے لیکن کیا قرآن صرف بلا سمجھے اور سوچے پڑھنے کے لیے آیا ہے؟ یہ سوال ذہن میں ضرور ابھرنا چاہیے۔
قرآن زندگی کے لیے ہدایت نامہ ہے رب کی طرف سے، اور اس میں ہدایات ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ اگر اس ہدایت نامہ کو اس سے ہدایت حاصل کرنے اور اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی نیت سے پڑھا جائے، جو اس کا اصل مقصد ہے، تو کس قدر ثواب ملے گا اور زندگی کتنی حسین ہوجائے گی۔
اس بات کو قرآن خود بیان کرتا ہے۔ دیکھئے:
ترجمہ’’اورہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے۔پھر ہے کوئی سمجھنے والا ۔‘‘(القمر:17)
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے اسے صرف عربی زبان والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔جبکہ ایسا نہیں ہے۔ الحمدللہ قرآن کے ترجمےوتفاسیرہر زبان میں موجود ہیں۔ قرآن کے معنی و مطالب اور احکام کو جاننے کے لیے ان سے مدد لی جا سکتی ہے یا پھر دینی مدارس اور علماء سے مدد لی جاسکتی ہے یا خود عربی زبان سیکھنے کی بھی کوشش ہوسکتی ہے۔
قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔(البخاری)
اسی طرح ایک دوسری روایت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص علم طلب کے لیے کسی راستہ پر چلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔اور جب بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے گھروں (مسجدوں) میں سے کسی گھر (مسجد) میں جمع ہوتے ہیں ، اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں اسے سیکھتے اور سکھاتے ہیں تو ان لوگوں پر سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے ،رحمتِ الٰہی انھیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے پر پھیلا کر ان پر چھائے رہتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ ملاء اعلیٰ کے فرشتوں میں ان کا ذکر کرتاہے اور جس شخص کے اعمال اس کو پیچھے کر دیں۔ اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا ۔( مسلم ، ابو داؤد )
قرآن کو سیکھنے کے بعد اس کا حق ہے کہ اس پر عمل کیا جائے ۔ہمارا کردار، ہماری گفتار کے مطابق ہو۔صحابہ کیونکہ قرآن کریم کو کتابِ ہدایت سمجھتے اور اسے عمل کرنے کے لیے پڑھتے تھے اس لیے وہ لوگ قرآن کی آیات میں تفکر وتدبر کرنے کے بعداس کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بناتے تھے اور جب تک ان آیات پر عمل نہیں کرتے آگے قرآن نہیں بڑھتےتھے۔ اسی کا اثر تھا کہ جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۥۭ
(آل عمران:92)
تم لوگ جب تک اپنی محبوب چیز صرف نہ کروگے نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتے۔ تو حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ خدا ہمارا مال مانگتا ہے آپ گواہ رہیے کہ اریحا میں میری جو زمین ہے میں اس کو خدا کے نام پر وقف کرتا ہوں۔ آپؐنے فرمایا اس کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ (ترمذی شریف)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید میں تفکر وتدبر اور اسے عملی زندگی کا حصہ بنانے میں جس قدر شوق رکھتے تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپؓنے سورہ بقرہ سیکھنے میں بارہ سال صرف کیے۔ (السیوطی تنویر الموالک، شرح مؤطا امام مالک )
قرآن کی تلاوت اس کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد قرآن کا حق ہے کہ اس کی دعوت کو عام کیا جائے۔ تاکہ قرآن کے نزول کا مقصد پورا ہو ۔
اللہ کا فرمان ہے کہ، ترجمہ:’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرکوں کو یہ غلبہ نا پسند ہو۔‘‘(صف:9)
رہتی دنیا تک کے لیے اب ایک ہی مستند محفوظ اور عنداللہ مقبول دین ہے ۔اور اسکا نام اسلام ہے۔اللہ کا فرمان ہے کہ:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ
’’بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔‘‘(آل عمران،19)
اور یہ دین انسانی زندگی کے تمام انفرادی واجتماعی گوشوں کو محیط ہے۔چاہے وہ عقائد، عبادت اور اخلاق کا معاملہ ہو یا معیشت ،معاشرت اور سیاست کا معاملہ ہو۔ غرض انسانی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے ۔جو اس دائرے سے خارج ہو۔لیکن دین کو اس انداز میں اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب ہم اپنی زندگی کو قرآن کی ہدایات کے مطابق بنانے کی نیت اور ارادے سے پڑھیں اور اللہ کے رسولؐ کی سنت کو اپنی رہنمائی کے لیے منتخب کریں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں