میں صلہ کے معنی ملانے اور جوڑنے کے ہیں اور اس سے مراد قریبی رشتوں کا جوڑنا ہے۔ یعنی رشتے والوں کے ساتھ نیکی او رحسن سلوک کرنا۔ صلہ رحمی جنت کا راستہ ہے اور قطع رحمی حرام۔ رشتوں میں چوں کہ مختلف درجات ہیں اس لیے صلہ رحمی کے بھی ایسے ہی درجات ہیں۔ ان میں والدین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے۔
صلہ رحمی کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاًان کو ہدیہ و تحفہ دینا اور اگر ان کو اعانت درکار ہو تو اس کام میں ان کی مدد کرنا۔انہیں سلام کرنا، ان سے ملاقات کو جانا، ان کے پاس بیٹھنا، ان سے بات چیت کرنا ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا وغیرہ۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تم اپنے وہ انساب سیکھو جن کے سبب تم صلہ رحمی کروگے۔ کیوں کہ صلہ رحمی گھر والوں میں محبت کا سبب ہے، مال میں کثرت کا ذریعہ ہے اور عمر میں زیادتی کا باعث ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)
اس حدیث کے تحت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: اپنے انساب میں سے اس قدر سیکھو کہ ان کی وجہ سے تم اپنے رشتوں کو ملاؤگے۔ یعنی اپنے آبا و اجداد اور امہات اور ان کی اولادیں خواہ مرد ہوں یا عورتیں ان کو پہچانو اور ان کے نام یاد رکھو تاکہ تم ان کے ذریعے سے اپنے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرسکو۔ کیوں کہ ان ناموں کا جاننا ضروری اور نفع بخش ہے۔
قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور اچھا برتاؤ اللہ کی نظر میں بہت پسندیدہ عمل ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے؛
ترجمہ؛ ’’بے شک اللہ تمہیں حکم فرماتا ہے انصاف، نیکی اور رشتے داروں کو دینے کا اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے۔ تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو۔‘‘ (النحل:۹۰)
یہاں رشتہ داروں میں سارے، دور و نزدیک کے رشتہ دار داخل ہیں اور دینے میں ہر قسم کا حق ادا کرنا شامل ہے۔ خواہ مالی ہو یا بدنی یا ایمانی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر احسان میں رشتہ داروں کا حق غیروں سے زیادہ ہے اور اس میں بھی یہ ترتیب پسندیدہ ہے کہ جو جتنا قریبی ہے وہ اتنا ہی زیادہ حق دار بھی ہے۔
مفسر صاوی فرماتے ہیں: بے شک اللہ حکم کرتا ہے قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کرنے کا کیوں کہ دوسروں کی نسبت قریبی رشتہ دار پر صدقہ کی زیادہ تاکید ہے کیوں کہ اس پر صدقہ صلہ رحمی ہے۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بلاشبہ ثواب کی رو سے سب سے زیادہ جلدی قبول ہونے والی عبادت صلہ رحمی ہے۔‘‘
یعنی ماں باپ کے ساتھ ان کی اولاد، بھائی بہن اور ان کے قرابت داروں یعنی اپنے عزیزوں کی بھی خدمت کرو۔
اللہ تعالیٰ نے والدین سے صلہ رحمی کا حکم دینے کے بعد رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا حکم دیا۔ یعنی رشتہ داروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیا اور ان کے حق سے چند باتیں یہ ہیں کہ ان سے نیکی کرنا، محبت رکھنا، اچھا برتاؤ کرنا، خوشی اور غمی کے موقع پر ان سے باہمی الفت کا مظاہرہ کرنا، ایک دوسرے کی مدد کرنا وغیرہ اور کہا گیا ہے کہ اگر وہ محتاج ہوں اور یہ خوش حال تو ان کا خرچہ اس پر لازم ہے۔
دوسری جگہ اللہ ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: ’’رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق اور فضول خرچی نہ کرو۔‘‘ (بنی اسرائیل:۲۶)
یہ آیت کریمہ تمام قرابت داروں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دے رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر رشتہ دار کا حق ہے۔ اس میں سسرال اور نسبی تمام قرابت دار شامل ہیں۔ (نور العرفان)
مفسر صاوی لکھتے ہیں: ’’یہ آیت نفلی صدقہ کے بارے میں ہے نہ کہ واجب زکوۃ کے بارے میں، کیوں کہ یہ سورہ مکی ہے اور زکوۃ کا حکم مدینہ منورہ میں سن دو ہجری میں نازل ہوا تھا۔‘‘ (صاوی)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: ’’او ریاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ اور رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کرو۔‘‘
ماں باپ کے ساتھ ان کی زندگی میں احسان یہ ہے کہ ان کا ادب کرے، ان کی جانی و مالی خدمت کرے ان کے جائز حکموں کو مانے۔ ان کی خدمت کے لیے نوافل ترک کر سکتا ہے، فرائض و واجبات نہیں چھوڑ سکتا۔ اگر ماں باپ کسی گناہ یا کفر میں مبتلا ہوں تو ان کو اچھی تدبیر سے روکے۔ والدین کے مرنے کے بعد ان سے بھلائی یہ ہے کہ ان کی وصیتیں پوری کرے۔ ان کے دوستوں کا احترام اور ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرے۔ان کی قبر کی زیارت کرتا رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ اور رشتہ داروں کی خدمت بڑی ضروری ہے کہ رب نے اپنی عبادت کے ساتھ ان کی اطاعت کا ذکر فرمایا ہے۔
اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔ (نساء:۱)
یعنی رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ کرو۔ رشتے توڑنے کے بارے میں بھی نہ سوچو۔ حضورؐ فرماتے ہیں جو رزق کی کشادگی اور عمر میں برکت چاہے وہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کی روزی کشادہ کی جائے اور اس کی عمر لمبی کی جائے تو اسے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے رہنا چاہیے۔‘‘ (متفق علیہ)
جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت میں رشتہ داری کاٹنے والا داخل نہیں ہوگا۔‘‘ (متفق علیہ)
حضرت حسن بصری کا قول ہے، وہ فرماتے ہیں: جو اللہ کی ذات کے وسیلہ سے مانگے اسے وہ عطا کرتا ہے اور جو رشتہ داروں سے حسن سلوک کے ذریعے سے مانگے وہ اسے عطا کرتا ہے اور حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے پھر جب اس کے پاس رشتہ داری پالنے والا آئے گا تو وہ اس کی وجہ سے خوش و خرم ہوگی اور اس سے کلام کرے گی اور رشتہ داری کاٹنے والا اس کے پاس آئے گا وہ اس سے پردہ کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ او ررشتہ داروں سے بھلائی کرو۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری نیکی و احسان کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا تیری ماں۔ پھر عرض کیا۔ پھر کون ؟ فرمایا تیری ماں۔ پھر عرض کیا، پھر کون؟ فرمایا تیری ماں۔ پھر عرض کیا۔ پھر کون؟ فرمایا پھر تیرا باپ اور دوسری روایت میں ہے فرمایا: تیری ماں پھر تیری ماں پھر تیرا باپ پھر زیادہ قریبی رشتہ دار پھر تیرا قریبی رشتہ دار۔ (متفق علیہ)
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو،عرض کیا گیا یا رسول اللہؐ! کس کی؟ فرمایا: جو اپنے والدین کو بڑھاپے میں پائے یا ان میں سے ایک کو پھر جنت میں داخل نہ ہوجائے۔‘‘ (مسلم شریف)
مذکورہ بالا آیات اور احادیث سے واضح ہوگیا کہ صلہ رحمی کی دین میں کتنی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اب ذرا موجودہ معاشرے پر غور کریں تو ہمیں صلہ رحمی کا فقدان نظر آتا ہے۔ اولادوالدین کی نافرمان ہے۔ عزیز عزیز سے نالاں ہے۔ رشتہ دار دوسرے رشتے داروں کا حق غصب کر رہا ہے۔ یہ سب دینی احکامات اور قرآن پاک اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلمسے دوری کے سبب ہے۔ آج بھی اگر مسلم معاشرہ قرآن کے لافانی احکامات صلہ رحمی پر ہوس و لالچ کو ترک کر کے عمل پیرا ہوجائے تو برکت، رحمت و عنایت باری تعالیٰ سایہ فگن ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین lll