آج دنیا میں سب سے یادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن مجید ہے۔ ایک مسلمان ہر صبح نماز کے بعد قرآن کی تلاوت بہت اہتمام سے کرتا ہے۔ جاں کنی کے وقت لوگ دل سوزی کے ساتھ سورہ یٰسین پڑھتے ہیں۔ جلسے کی کارروائی کا آغاز تلاوت کلام پاک ہی سے ہوتا ہے۔ کسی مکان اور دکان کا افتتاح کرنا ہوتا ہے تو قرآن مجید پڑھانا ہے۔ ایک مسلمان اس کی بے حرمتی کسی حال میں برداشت نہیں کرسکتا۔
یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ قرآن مجید کس قدر بگاڑکے دور میں نازل ہوا۔ اور لوگوں نے اس کی کیا کچھ مخالفت نہیں کی۔ اولاً اس پر آپؐ کو اذیت دی گئی۔ کبھی کا ہن تو کبھی مجنون کہا گیامگر اسی معاشرے میں چند ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے آپؐ کے پیغام کو سنا، سمجھا اور اس پکار پر لبیک کیا اور انہیں زندگیاں قرآنی تعلیمات کے مطابق گزاریں۔ اس کتاب پر ایمان لانے کے بعد کفر و باطل کی ہر چیز کو چھوڑتے چلے گئے۔ صدیوں سے جن بتوں کو پوج رہے تھے اُن کو اپنے ہاتھوں سے توڑ ڈالا اور جو رسم و رواج بزرگوں سے چلے آرہے تھے، اُن سب سے کنارا کش ہو گئے۔ ۲۳ سال کی اس مختصر مدت میں ایک ان پڑھ، جاہل ، وحشی قوم پوری دنیا پر چھانے لگی اور اپنے وقت کا امام بن گئی۔
یہی کتاب جب عمر بن خطاب کے ہاتھوں میں آئی تو دل کی تاریکی چھٹ گئی اور صحیح اسلامی شعور نے اُن کو فاروق اعظم بنا دیا۔
عرب کا مشہور شاعر طفیل عمر دوسی جب مکہ میں داخل ہوتا ہے تو کفر وباطل کے علمبردار اس سے کہتے ہیں قرآن کی آواز کو نہ سننا ورنہ بے دین ہوجاؤگے۔ اس نے یہ سن کر اپنے کانوں میں روئی ڈال لی۔ لیکن یہ سوچا کہ میں تو پڑھا لکھا شاعر ہوں۔ حق اور باطل میں فرق کو معلوم کرسکتا ہوں اورپھر کانوں سے روئی نکال پھینکتا ہے۔ جیسے ہی خانہ کعبہ میں داخل ہوتا ہے قرآن کی مقدس آواز سن کے کانوں سے ٹکراتی ہے۔ دل پر اثر کر جاتی ہے۔ پھر چند لمحوں میں وہی شاعر آستانہ اسلام پر اپنا سررکھ دیتا ہے۔
آسمان سے جب یہ حکم نازل ہوا کہ ’’اے مسلمانو رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ‘‘ تو لوگ مسجدوں کی طرف دوڑ پڑے۔ سب کے سب ایک ساتھ سجدہ ریز ہوگئے۔ اور جب آسمان سے یہ ندا آئی کہ ’’سود مت کھاؤ‘‘ تو سودی کاروبار بند ہوگئے۔ اور جب ’’ڈرو اللہ سے کماحقہ‘‘ والی آیت نازل ہوئی تو موت کی آخری ہچکی تک ان کی پوری زندگی خدا ترسی کی آئینہ دار بن گئی۔ اور آخرت میں جواب دہی کا احساس اُن کے دلوں پر چھاگیا۔
لیکن افسوس کی بات کہ آج یہ کتاب اپنی مظلومیت کی شکایت مسلمانوں سے کر رہی ہے آج ہم نے قرآن کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہماری پسند و ناپسند کا معیار وہ ہے جو مغرب نے ہمیں دیا ہے۔ ہم بے حیائی اور فحاشی کے دلدادہ ہیں۔ آج ہم شکوہ کرتے ہیں کہ خدا نے تو وعدہ کیاتھا کہ وہ مومنین کا مددگار ہے۔ اور مومن ہمیشہ فتح یاب ہوگا۔ تو کیوں آج ہم یہ ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج دوسری اقوام ہم پر کیوں چڑھ دوڑ رہی ہیں۔ آج امت مسلمہ ہر طرف سے سازشوں میں گھری ہوئی ہے۔ یہود و نصاریٰ بھوکے بھیڑیوں کی مانند ہم پر ٹوٹ پڑ رہے ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا دیا جا رہا ہے۔ ان سب باتوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن کی تعلیمات کو بھلا دیا۔ ہم نے قرآن کی تلاوت کو صرف ثواب کا ذریعہ بنا لیا۔ برکت کا ذریعہ بنا لیا۔ اگر ہم چاہتے تو اس کتاب سے ہدایت حاصل کرتے، اسے سوچ سمجھ کر معنی و تفسیر سے جاننے کی کوشش کرتے مگر ایسا نہیںکیا۔ نتیجہ اللہ کی تائید اور مدد ہم سے دور ہوگئی۔
ہمارے آباواجداد نے حقیقی معنوں میں کتاب کی ہدایت پر عمل کیا تو چند ہی سالوں میں وہ ساری دنیا کے سردار اور انسانیت کے رہنما بن گئے۔ اس کتاب نے فرد کو اورمعاشرے دونوں کو بدل ڈالا۔
آج قرآن مجید مسجد کے طاقوں میں گھروں کی المادیوں میں حسین سے حسین جز دانوں میں بند کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ گرد و غبار کی تہہ اس پر جمی ہوتی ہے۔ ہمیں اس گرد و غبار کو جھاڑنا ہے اس کتاب سے اپنی زندگیوں کو سنوارنا ہے۔ ll