قرآن میں عورت کے دو کردار

سید اسعد گیلانی

اللہ تعالیٰ نے مومنہ خاتون کی بڑی مفصل صفاتی تصویر قرآن پاک کی سورئہ احزاب میں پیش کردی ہے۔ ایک خاتون قرآن کے بتائے ہوئے ان خدوخال کو اگر اپنے سروپا میں جذب کرلے تو ایک ایسی ہستی وجود میں آتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو مسلمان عورت کی حیثیت سے دنیا میں مطلوب ہے۔
دو مثالی کردار
مسلمان عورت کی مطلوبہ صفات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن نے دو مثالی کردار بھی پیش کیے ہیں:
ایک فرعون کی بیوی، حضرت آسیہؓ کا کردار ہے۔
دوسرا حضرت عیسیٰ کی والدہ محترمہ حضرت مریمؓ کا کردار ہے۔
ایک خاتون اپنے وقت کے ظالم، جابر، قاہر اور متکبر ترین بادشاہ کے محل میں ہے، ظلم و جبر، قہر اور کبر کی پیروی کے لیے تو اس کے پاس بے شمار سامان، اسباب اور امکانات ہیں بلکہ ہر قسم کے مواقع دست بستہ سامنے موجود ہیں۔ دوسری طرف اللہ سے تعلق جوڑنے، اس کی معرفت حاصل کرنے، اسی کا کلمہ دل میں جاگزیں کرنے اور اسی کی بندی بن کر رہنے کا وہاں کوئی موقع نہیں ہے۔ ایک جابر و قاہر انسان اپنی خدائی کا ڈنکا بجارہا ہے اور اسی کے محل میں اسی کے حکم کے ماتحت رہتے ہوئے ایک خاتون اسلام قبول کرتی، اس کا اظہار کرتی، اس کے لیے مشکلات و مصائب برداشت کرتی اور اس پر عمر بھر قائم رہتی ہے۔ بادشاہ اس کی جان چھین سکتا ہے لیکن کسی بڑے سے بڑے ظلم وجبر کی مدد سے بھی اس کا ایمان نہیں چھین سکتا۔ اس کا ایمان بادشاہ کے سارے لاؤ لشکر سے زیادہ قوی، مضبوط اور طاقتور ہے۔ نہ اس کو طاقت کی پروا ہے نہ روپے کی، نہ اقتدار کی، نہ محل کی نہ آرام و راحت کی اور نہ قہر و جبر کی۔ اسے صرف اپنے مالک، آقا اور خالق کی پروا ہے۔ چنانچہ وہ صرف اسی کی بندی ہے اور اس کے باغیوں کے محلات میں محبوس رہ کر بھی ان سب سے باغی ہے۔ بدترین شوہر بھی اس کی عاقبت کو بگاڑ نہیں سکتا۔ وہ دنیا میں ہی اپنی جنت کا محل دیکھ لیتی ہے۔
دوسری خاتون حضرت مریم ؑ ایک ظالم، جابر، فاسق اور ناخداترس قوم کے درمیان رہتی ہے جو اپنی ہی بہو بیٹیوں پر ہاتھ اٹھاتی اور ان کی عصمت و عفت کو مشتبہ قرار دیتی ہے۔ ایسے ماحول میں بھی وہ اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کرتی اور راہِ حق پر مستقیم چلی جاتی ہے۔ وہ نہ ان کے الزامات کی پروا کرتی، نہ ان کے طعنوں کو خاطر میں لاتی اور نہ ان کی سختیوں کے آگے جھکتی ہے۔ وہ خاموشی صبر اور عزیمت سے صرف اپنے مالک کے سامنے ہی جھکی رہتی ہے۔ اسی سے حفاظت، مدد اور رحم کی طلب گار ہے اور بالآخر وہ ایک عظیم الشان نبی کو پرورش کرتی ہے۔
برے کردار
قرآن نے اسی طرح عورت کے دو برے کرداروں کا تذکرہ کیا ہے، جن سے مسلمان عورت کو بچانا اور محفوظ رکھنا مطلوب ہے۔ایک حضرت نوحؑ کی بیوی ہے اور دوسری حضرت لوطؑ کی بیوی ہے۔
ان دونوں کو اپنے وقت کے بہترین انسان اپنے گھر کے اندر میسر آتے ہیں۔ ان کی پاکیزہ تعلیمات سے شب و روز دوسر ے استفادہ کرتے اور اپنے اخلاق و اعمال درست کرتے ہیں۔ وہ ان کا بہترین کردار اور اخلاق اپنی آنکھوں سے دیکھتی اور ان کی اثر انگیزی کو جانتی ہیں۔ ان کی پاکیزہ تعلیمات کو سنتی ہیں، لیکن ان کے دلوں پر ایسی مہر لگی ہے اور وہ ایسی بدقسمت سخت دل اور کج فہم ہیں کہ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں۔ وہ شب و روز دیکھتی ہیں کہ دوسرے کے اخلاق ان کے شوہروں کی تعلیمات سے سدھر جاتے ہیں، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ان کی آنکھوں میں بصارت نہیں ہے، ان کے کانوں میں سماعت نہیں ہے۔ ان کے دماغ میں فہم نہیں ہے اور وہ بالکل بھیڑ بکری کی سی کیفیت سے اس ماحول میں رہتی ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ ظالموں اور خدا کے باغیوں کا ساتھ دیتی ہیں۔وہ شوہر کا حق وفاداری ادا نہیں کرتیں، وہ حق سے رو گردانی کرتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اپنے وقت کے بہترین شوہروں کی بیویاں ہونے کے باوجود عذاب کی مستحق قرار دی جاتی ہیں۔
قرآن کے اندر عورت کے یہ دو برے کرداری نمونے بتاتے ہیں کہ کس طرح خدا کی رضا مندی تنہا اپنی کوشش اور ایمان سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ کسی کے لیے یہ فخر اور بڑائی بلکہ مغفرت کی ضمانت نہیں ہے کہ وہ کسی بڑے نیک انسان کی بیوی ہے اور نہ کسی کے لیے یہ لازمی عتاب کی بات ہے کہ وہ کسی برے انسان سے وابستہ ہے۔ اصل چیز اس کے اپنے اعمال و کردار اور اخلاق ہیں، جن کے ترازو میں اسے دنیا اور آخرت دونوں جگہ تلنا ہے۔ اسی لیے حضور پاکﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہؓ اور اپنی پھوپھی صفیہؓ کو مخاطب کرکے فرمادیا تھا کہ اپنی اپنی آخرت کی فکر کرلیں، یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ وہ نبی کی بیٹی اور پھوپھی ہیں۔ آخرت کی جوابدہی سے اپنے ذاتی اعمال کے سوا کوئی شے بچانے والی نہیں ہے۔ البتہ مرد اور عورت دونوں باہم ایک دوسرے پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں۔
ہن لباس لکم وانتم لباس لہن۔
’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘
اور نیکی اگرپختہ، سلجھی ہوئی اور گہری جڑیں رکھتی ہو تو لازماً اثر انداز ہوکر رہتی ہے اور عورت کے لیے تواثر انداز ہونے کے مواقع مرد سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ گھر کی فضا پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ جس قسم کی فضا گھر میں وہ بنائے گی وہی فضا گھر کے افراد پر اثر ڈالے گی اور ان کے روز مرہ کے کاموں کو متاثر کرے گی۔ ویسے بھی گھروں میں ہونے والی نیکی کی باتوں کو پھیلانے کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔
واذکرن مایتلی فی بیوتکن من آیٰت اللّٰہ والحکمۃ۔
’’تمہارے گھروں میں اللہ کی آیتیں اور حکمت کی جو باتیں ہوتی ہیں ان کا چرچا کرو۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں