میں ایک ثانوی درجے کی طالبہ اور ٹیلی ویژن کی دلدادہ تھی۔ میں اس سے ایک لمحے کو بھی جدا ہونا برداشت نہیں کرتی تھی۔ نہ کسی سیریل کو چھوڑتی اور نہ بچوں کے پروگرامس کو، نہ گانوں کو چھوڑتی اور نہ ڈراموں کو۔ ہاں جب کوئی ثقافتی یا دینی پروگرام آتا تو میں تیزی سے ٹیلی ویژن بند کردیتی۔میں ایسا کرتی تو میری بہن مجھ سے کہتی کہ تم نے ٹی وی کیوں بند کردیا؟ جواب میں میں اس سے اسکول کے ہوم ورکس اور گھر کے کاموں کابہانہ کرتی مگر تب وہ کہتی: ’’اب تم کو ہوم ورکس یاد آئے ہیں، تم اس وقت کہاں تھیں، جب تم وہ سیریل، گانے اور گھٹیا پروگرام دیکھ رہی تھیں۔‘‘ اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔
میری بہن اسی طرح بالکل میرے برعکس تھی۔ جب سے ماں نے اسے نماز سکھا دی تھی، وہ بغیر کسی عذر کے اسے کبھی ترک نہ کرتی۔ جبکہ میں کبھی اس کی (نماز) حفاظت نہیں کرتی بلکہ ہفتے میں صرف ایک یا دو مرتبہ نماز پڑھ لیتی۔
میری بہن ٹیلی ویژن سے حتی الامکان بچتی، اس کی بہت سی نیک اور صالح سہیلیاں تھیں، جو نیک کاموں میں اس کا تعاون کرتی تھیں۔
وہ مجھے بھی ہمیشہ اللہ کی تذکیر کرتی تھی۔ مگر اس سے میرے کبروعناد میں اضافہ ہی ہوتا تھا۔ میری ٹیلی ویژن بینی روز بروز بڑھتی ہی جارہی تھی۔ دوسری طرف ٹیلی ویژن، گھٹیا سیریلز، حیا سوز فلم اور فحش گانوں کی پیش کش میں کمالِ تنوع حاصل کرتے جارہے تھے۔ جن کی سنگینی سے میں اس وقت تک واقف نہیں تھی جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت نہیں دے دی۔ خدا کی ہی تعریف ہے اور اسی کا شکر ہے۔
میں یہ سب کررہی تھی اور میرے دل میں یقین واثق تھا کہ یہ حرام ہے اور یقینا ہدایت کا راستہ اس شخص کے لیے جو اس پر چلناچاہے واضح ہے۔ میرا نفس مجھے اس پر بہت ملامت کرتا تھا اور میرا ضمیر مجھے شدت سے کچوکے لگاتا تھا۔ یہ معاملہ (ٹی وی بینی وغیرہ) صرف ارتکابِ گناہ پر ہی منحصر نہیں تھا بلکہ ترک فرائض کااقدام بھی کرواتا تھا۔ ملامتِ نفس کی وجہ سے میں ہمیشہ تنہائی سے بچتی تھی حتی کہ سونے یا آرام کے لیے جاتے وقت میں کسی کتاب سے شغل کرتی اور اس طرح ملامتِ نفس کو کوئی موقع نہیں دیتی۔
میں اسی حال میں پانچ سال رہی یہاں تک کہ وہ دن آگیا جس کو اللہ تعالیٰ نے میری ہدایت کے لیے چن رکھا تھا۔
ہم ششماہی امتحان کی چھٹی گزار رہے تھے۔ میری بہن نے پلان بنایا کہ وہ ایک اسلامی تنظیم کے ’’حفظِ قرآن مع درسِ قرآن‘‘ کے پروگرام سے متعلق ہوجائے۔ اس نے مجھے پیش کش کی کہ میں بھی اس کے ساتھ چلوں۔ میری ماں نے بھی اس کی تائید کی، مگر میں نے انکار کردیا بلکہ سختی سے مسترد کردیا۔ میرا منصوبہ تھا کہ اس چھٹی میں اپنی پوری توجہ ’’ٹی وی سیٹ‘‘ پر دوں گی۔ بقول شاعر:(ترجمہ) ’’قرآن کیمحبت اور خوش الحان گانوں کی محبت ایک دل میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔‘‘ میرے والد آئے تو میں نے اس پورے واقعے کی ان سے شکایت کی، انھوں نے کہا: ’’اسے چھوڑ دو! اور جانے پر مجبور نہ کرو۔‘‘
میرے والد کے نزدیک میری ایک خاص عزت تھی، حالانکہ میں ان کی منجھلی بیٹی تھی۔ مجھ سے بڑی صرف میری بہن تھی اور ایک بھائی مجھ سے نہایت چھوٹا تھا۔ والد صاحب نے یہ بات کہہ دی وہ سمجھ رہے تھے کہ میں نمازوں کی حفاظت کرتی ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ میں ان سے جھوٹ بولتی تھی، جب وہ مجھ سے پوچھتے کہ کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟ تو میں کہتی ’’ہاں‘‘۔ (اس وقت میں چاہتی کہ وہ مجھے جھوٹ سے چھٹکارا دلا دیں)۔ البتہ میں صرف ان کے سامنے جب وہ موجود ہوتے ، نماز پڑھ لیتی اور جب وہ کام پر چلے جاتے تو میں نماز چھوڑدیتی۔ میرے والد اپنے کام کے سلسلے میں ۳؍۴؍ روز ٹھہرتے تھے۔
ایک دن میرے والد نے نہایت شفقت سے مجھ سے کہا کہ میں ایک مرتبہ اپنی بہن کے ساتھ ’’حلقہ حفظِ قرآن و درس‘‘ میں چلی جاؤں۔ اگر مجھے اچھا لگے تو ٹھیک ہے ورنہ یہ پہلا اور آخری ہوگا۔ میں نے اپنے والد کی بات مان لی، کیوں کہ مجھے ان سے بہت محبت تھی اور میں ان کی ہدایت رد نہیں کرسکتی تھی۔ میں ’’باغ قرآن‘‘ کی طرف روانہ ہوگئی۔
باغِ قرآن! ہائے کیا کہنے اس کے! میں نے وہاں نور ایمان سے دمکتے ہوئے چہرے دیکھے اور ایسی روتی ہوئی آنکھیں دیکھیں جو کسی حرام شے کی طرف نہیں اٹھتی تھیں… جیسا کہ میں کرتی تھی… بس میرے اندر ایک ایسا جذبہ ابھرا، جس کو میں کوئی نام نہیں دے سکتی۔ سعادت و خوش بختی کا جذبہ جس میں ندامت اور توبہ کا احساس بھی شامل تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں اللہ عزوجل سے قریب ہوں۔ مجھ پر رقت طاری ہوگئی میری آنکھوں سے بے تحاشا آنسو جاری ہوگئے۔ میرے یہ آنسو میرے ان اوقات پر تھے جن کو میں نے رضائے الٰہی کے خلاف ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے اور اپنی بد خلق سہیلیوں کے ساتھ لغویات کی محفلوں میں گزار دیا تھا۔
میں ایسی مجالس سے کس قدر غافل تھی جن کو فرشتگان الٰہی گھیرے ہوئے ہوتے ہیں اور اہلِ مجلس پر سکینت قلب اور رحمتِ خداوندی نازل ہوتی ہے۔
مجھے ایک بار کے لیے سایہ قرآن میں بھیج کر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا تھا، جس میں میں نے اس نعمت کا مزہ چکھا جس کو اس سے قبل اپنی زندگی میں کبھی نہیں چکھا تھا۔ سایہ قرآن میں میں نے اپنی زندگی انبساطِ نفس، طمانیت، قلب اور انشراح ضمیر کے ساتھ گزاری۔ اور میں اس یقین واثق کو پہنچ گئی کہ اس زمین کے لیے صلاح نہیں، اس انسانیت کو راحت نہیں اور اس انسان کو سکینت نہیں اور نہ ہی برکت و پاکیزگی ہے سوائے رجوع الی اللہ (اللہ کی طرف لوٹنے) میں۔
یقینا سایہ قرآن میں زندگی ایک نعمت ہے۔ ایک ایسی نعمت جس کو صرف وہی جان سکتا ہے، جس نے اس کو چکھا ہو۔ ایک ایسی نعمت جو زندگی کو رفعت بخشتی ہے، اس میں برکت عطا کرتی ہے، اور اس کا تزکیہ کرتی ہے۔ واقعی قرآن کے سائے میں زندگی کتنی خوشگوار ہے۔
ہاں! اللہ عزوجل نے مجھے ہدایت دی جبکہ اس سے قبل میں اس کا سامنا اس کی نافرمانی سے کرتی تھی۔ اور اس کی مرضی پر اپنی مرضی کو ترجیح دیتی تھی۔ (اور آج) یقینا وہ باعظمت و بابرکت ہے – مجھے شیطان (نفس) کسی ایسے کام پر نہیں ابھار سکتا جو رضائے الٰہی کے برعکس ہو۔
مختصراً یہ کہ میں غافل تھی اور اللہ تعالیٰ نے بذریعہ قرآن مجھے جگادیا۔
ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی اقوم ویبشرا لمؤمنین الذین یعملون الصالحات ان لہم اجرا کبیرا۔
’’بے شک یہ قرآن اس راستے کی ہدایت دیتا ہے جو سیدھا ترین ہے، اور ان مؤمنین کو جو اعمالِ صالحہ کرتے ہیں اجرِ عظیم کی بشارت سناتا ہے۔‘‘
اور آج میں تعجب سے پوچھتی ہوں کہ میں کیسے اپنے رب کا سامنا کرتی، اگر وہ مجھے ہدایت نہ دیتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود اپنے آپ سے شرمندہ ہوں اور اس سے قبل اپنے رب سے۔
اور کہنے والے نے سچ کہا ہے: ’’تعجب ہے کہ وہ کیسے معبود کی نافرمانی کرتا ہے، یا کیسے ایک انکار کرنے والا انکار کرتا ہے جبکہ ہر چیز میں اس کی نشانی پنہاں ہے۔ جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ایک ہے۔‘‘
اے میرے رب! میں تیری طرف پلٹتی ہوں اور تجھ سے مغفرت چاہتی ہوں۔ بلاشبہ تو ’تواب الرحیم‘ ہے۔
——