رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ بہت ہی تیزی سے گزر چکا ہے۔ رمضان المبارک کے بعد ہم اب ہمیں اپنا جائزہ لینا ہے کہ روزہ کا اصل مقصد تقویٰ ہمارے اندر پیدا ہوا یا نہیں؟جس طرح ہم روزے میں تمام برائیوں سے بچتے ہیں کیا اب بھی ہم ان برائیوں سے اجتناب کر رہے ہیں؟
رمضان اور قرآن کا گہرا تعلق ہے کیوں کہ قرآن مجید رمضان المبارک میں نازل ہوا۔ اور اسی کے سبب اس مہینے کو فضیلت بخشی گئی۔ رمضان میں ہم نے روز قرآن مجید کی تلاوت کی ہے۔ مگر ہم نے قرآن کریم کی کتنی آیات پر عمل کیا ہے؟ یا پھر سرسری پڑھ کر بس قرآن کو ختم کیا ہے یہ سوچنے اور دیکھنے کا مقام ہے۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو انسانوں کے لیے خیر ہے۔ نظام حیات ہے، یہ اہل ایمان کی زندگیوں کا مینول ہے جس طرح ہم کسی مشین کو خریدتے ہیں تو اس کے ساتھ ایک بک ہمیشہ ہوتی ہے جس میں مشین کی تمام معلومات درج ہوتی ہے۔ اسے کس طرح چلانا ہے؟ اگر خراب ہو جائے تو کیا کرنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح قرآن انسانوں کے لیے ہدایت نامہ ہے۔
انسان ایک بہترین مخلوق ہے۔ اسے اپنی زندگی کس طرح گزارنی ہے؟ پیدائش سے لے کر موت تک کس طرح کا طرزِ عمل اختیار کرنا ہے ان تمام باتوں کی رہ نمائی قرآن مجید میں ہمیں ملتی ہے۔ یہ انسانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اگر ہم اسے اپنی زندگی میں نافذ کرلیں تو انشاء اللہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی ہوگی۔
قرآن کریم زندگی کے ہر شعبے کی رہ نمائی کرتا ہے چاہے ازدواجی زندگی ہو، والدین کے ساتھ سلوک کا معاملہ ہو، رشتہ دار پڑوسی کے حقوق ہوں۔ تجارت ہو یا وراثت کی تقسیم ہو۔ غرض کہ تمام معاملات اور مشکلات کا حل اس میں موجود ہیں۔ بس ضرورت ہے کہ ہم اسے پڑھیں سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔
قرآن پر عمل کرنے کی جب بات آتی ہے تو ہمیں یہ بہت دشوار مرحلہ لگتا ہے اور ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پر عمل کی شروعات کیسے اور کہاں سے کریں؟ جب کہ ۔ قرآن کو کئی بار پڑھ کر ختم کرنا تو ہمیں آسان لگتا ہے کیوں کہ اس وقت ہم اسے محض ثواب کے لیے پڑھ رہے ہوتے ہیں، عمل کرنے کے لیے نہیں۔ قرآن پر عمل کے سلسلے میں کچھ باتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔
٭ ہم دعا تو بہت کرتے ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پر عمل کرنے والا بنا دے، مگر ہم اس کے لیے کوشش نہیں کرتے، جب تک کوشش نہ ہو دعا بھی اثر نہیں رکھتی۔جب بھی ہم قرآن مجید پڑھنے بیٹھیں تو ایک پین اور کاپی بھی پاس میں رکھ لیں۔ قرآن مجید کا جتنا بھی حصہ ہم پڑھیں اس کا ترجمہ ضرور پڑھیں۔ ترجمہ پڑھتے ہی آپ کو وہ تمام احکامات معلوم ہوجائیں گے جن پر ہمیں عمل کرنا ہے۔ شروعات ہم آسان عمل سے کریں گے۔
مثال کے طور پر ہم البقرہ آیت 172 پڑھتے ہیں جس میں واشکروا للہ آتا ہے جس کا ترجمہ ہے ’’اور اللہ کا شکر ادا کرو‘‘ اب اس ترجمہ کو ہم اپنی بک میں لکھ لیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں چاہیے کامیابی ہو، خیریت ہو، خوشی ہو، کوئی نعمت ملنے پر، اچھی خیر آنے پر۔ شروع میں یہ کام کچھ مشکل لگے گا مگر جب اسے اپنی عادت بنالیں گے تو کام آسان ہو جائے گا۔ الحمد للہ کہنے کی عادت ڈالیں۔ دن میں کئی بار اس بک کو کھول کر دیکھیں تاکہ آپ کو آیت پر عمل کرنا یاد رہے۔
اِسی طرح کی آسان آیات کو نوٹ کرنا شروع کردیں۔ جیسے البقرہ کی آیت 83 ’’لوگوں سے بھلی بات کہنا‘‘۔ الحجرات کی 12 آیت ’’تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔‘‘ سورہ لقمان کی آیت 17 ’’آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو‘‘، آپس میں ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ یاد کرو۔‘‘ وغیرہ۔
آپ دیکھیں گے کہ کچھ ہی دنوں میں قرآن کی بہت ساری باتوں پر عمل ہو رہا ہوگا۔ اور زندگی سنورتے ہوئے قرآنی ہدایات کے مطابق ہونا شروع ہوجائے گی۔
ہمیشہ باوضو رہنے کی عادت بنالیں۔ جب بھی موقع ملے قرآن پڑھنا شروع کردیں۔ قرآن کو ایسی جگہ رکھیں جہاں سے ہم با آسانی نکال کر پڑھ سکیں زیادہ اونچائی یا پھر بہت زیادہ کسی کپڑے میں لپیٹ کر نہ رکھیں ورونہ ہمیں اسے کھولنے میں مشکل ہوگی اور ہم اسے پڑھنے میں ٹال مٹول کریں گے۔
جب آسان آیات پر ہمارا عمل پکا ہوجائے تو پھر مشکل آیات نوٹ کرنا شروع کردیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اِن آیات پر ہمارا عمل آسان کردے۔
جس طرح غذا سے ہمارے جسم کو توانائی ملتی ہے اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت سے ہماری روح کی بھوک و پیاس مٹتی ہے۔ صحابہ کرام میں بعض کا معمول یہ تھا کہ وہ ایک ایک آیت کو پڑھنے اور جب تک اس پر عمل کرنے کو عادت نہ بنا لیتے آگے نہ بڑھتے تھے۔
رسولِ کریمؐ نے فرمایا: قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا بچھایا ہوا دسترخوان ہے۔ لہٰذا اس دسترخوان کی طرف بار بار رجوع کرنا چاہیے۔lll