قرآن کریم کتابِ ہدایت ہے۔ تقویٰ پر مبنی صاف ستھری زندگی کے ذریعہ ازلی ابدی کامیابی کی راہ دکھانا اس کا مقصود ہے۔اس کے باوجود چونکہ وہ علیم و خبیر ربِّ کائنات کا کلام ہے، اس لیے اس میں کون و مکان کے حقائق سے ٹکرانے والی کوئی بھی بات نہیں۔ اخروی صداقتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کلامِ الٰہی میں بہت سے سائنسی اشارات بھی ضرور موجود ہیں۔ سائنسی تحقیقات بھی انھیں کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ بطور نمونہ چند مثالیں قابل ذکر ہیں۔قرآن کریم نے فرمایا:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنَّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتَقاً فَفَتَقْنَاھُمَا۔ (الانبیاء:۲۱/۳۰)(کیا منکرین نے غور نہیں کیا کہ آسمانوں اور زمین کو ایک دوسرے سے منسلک رکھا گیا تھا،بعد میں ان کو ہم نے الگ الگ کیا۔)مفسرین کا خیال ہے کہ آسمان کو بارش کے ذریعہ اور زمین کو نباتات کے ذریعہ الگ کیا گیا۔ اسی آیت میں آگے فرمان الٰہی ہے کہ ہم نے پانی سے ہر جاندار کو بنایا۔ کیا یہ بات ان کو ہم پر ایمان لانے کے لیے کافی نہیں؟ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَئٍ حَيٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ۔ سائنس نے اس آیت قرآنی کی مسلسل تصدیق کی۔ کون نہیں جانتا کہ پانی ہی زندگی کی ماں ہے اور زمین کے تین چوتھائی حصے پانی سے عبارت ہیں۔ طبقات الارض (جیولوجی) کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ زمین بھی پہلے سورج کا ایک حصہ تھی جو بعد میں الگ ہوئی۔
قرآن نے کہا کہ سورج چاند ستارے اور خود زمین ایک دوسرے کے گرد مخصوص انداز پر اپنے محور اورمدار پر گردش کررہے ہیںاور گویا اپنی اپنی سطح پر تیر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَھَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ، وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہٗ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ ۔ لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَا أَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ، وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ، وَکُلٌّ فِيْ فَلَکٍ یَسْبَحُوْنَ۔(یٓس :۳۶/۳۸-۴۰)
قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اس طرح پیدا کیا کہ دن اوررات دونوں گیند جیسی گولائی کی شکل میں ایک دوسرے پر لپٹے رہتے ہیں: خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ یُکَوِّرُ اللَّیْلَ عَلَی النَّھَارِ، وَیُکَوِّرُ النَّھَارَ عَلَی اللَّیْلِ۔ (الزمر:۳۹/۵)یہ وہ آیت ہے جو زمین کے گول ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سورئہ النازعات میں والأرض بعد ذلک دحاھا کی تفسیر کرتے ہوئے امام فخر الدین رازی ؒنے بہت پہلے لکھ دیا تھا کہ زمین گیند کی طرح گول تھی، بعد میں اللہ نے اس کو اسباب زندگی سے آراستہ کرکے کچھ اس طرح قابل رہائش بنایا کہ اس کی گولائی محسوس نہیں ہوتی۔ دحا یدحو دحواً (حسب ضرورت ہم وار کرنے) کا لغوی مفہوم عام بسط یبسط بسطا (بچھانے) کے مفہوم سے اسی بنا پر مختلف ہے۔
سورئہ سبأ (۳۴/۳) میں ہے کہ اللہ سے کوئی بھی چیز چھپی نہیں، چاہے وہ زمین اور آسمانوں کے اندر کوئی ذرّہ ہو یا ایٹم سے بھی کچھ چھوٹی یا بڑی چیز ہی کیوں نہ ہو۔ لَا یَعْزُبُ عَنْہٗ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِيْ السَّمٰوَاتِ، وَلَا فِيْ الأَرْضِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلَاأَکْبَرَ إِلَّا فِيْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔اس آیت نے ایٹم سے کم تر اور چھوٹی چیز کے ہونے کی طرف اشارہ کیا جو بعد میں ثابت ہوا کہ ایٹم کے ناقابل تقسیم ہونے کا نظریہ غلط تھا۔ اب تو ذرہ کے بھی پروٹون، الیکٹرون اور نیوٹرون کی شکل میں چھوٹے سے چھوٹے اجزاء مسلّمہ حقائق کے طور پر تسلیم کیے جارہے ہیں۔ جن کی طرف قرآن نے پہلے ہی اشارہ کردیا تھا۔
کلام الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص ہدایت سے سرفراز ہوتا ہے اس کو شرح صدر (یعنی سکون و اطمینان) حاصل ہوتا ہے اور گمراہی میں رہنے والے شخص کے سینے میں ایسی گھٹن پیدا ہوجاتی ہے جیسی سانس لیتے وقت گھٹن محسوس ہوتی ہے جو آسمان میں بمشکل تمام چڑھ رہا ہو۔ وَمَنْ یُرِدْ أَنْ یُضِلَّ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقاً حَرَجاً کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِيْ السَّمِآئِ۔ (الأنعام ۶/۱۲۵)۔اب یہ بتائیے کہ پندرہ سو سال پہلے صاحبِ وحی الٰہی کو کس نے بتادیا کہ جدید سائنس کیمطابق آکسیجن کی کمی کے باعث آسمان کے حدود میں گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ کیا یہ کلام الٰہی کی صداقت پر شہادت نہیں؟
قرآن کریم میں آیا ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام دنیاؤں کا پالنہار ہے (الحمدللہ رب العالمین) اس کا مطلب ہے کہ عالم صرف ایک نہیں بلکہ بہت سے عالم اور دنیائیں ہیں۔ ایک دوسری جگہ فرمایا: اللہ کی تعریف و ستائش اور عبادت میں ساتوں آسمان اور زمین اور ان کے اندر کے سارے جاندار مصروف ہیں۔ تُسَبِّحُ لَہٗ السَّمٰوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ (الإسراء ۱۷/۴۴) اس کا مطلب کیا یہ نہیں ہے کہ اس زمین کے علاوہ آسمانوں میں بھی دیگر جانداروں پر مبنی دنیائیں موجود ہیں۔ سائنس دانوں نے اب چودہ سو برس بعد کچھ پیش رفت اور ابتدائی انکشافات کرنے شروع کیے ہیں۔ قرآن نے چرند پرند اور دیگر حیوانات کے الگ الگ نظام ہائے زندگی کی طرف بھی اشارات کیے ہیں اورچیونٹی، شہد کی مکھی اور مکڑی کے انتظام و انصرام اور فہم و فراست پر متعدد مقامات پر روشنی ڈالی ہے۔ سورئہ انعام (۶/۳۸) میں کہا گیا ہے کہ ان جانداروں کے اپنے الگ الگ نظامہائے زندگی ہیں اور وہ تمھاری ہی طرح کی امتیں ہیں۔ (وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِيْ الأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہٖ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُکُمْ)۔ یہ وہ حقائق تھے جن کی طرف قرآن نے بہت پہلے اشارے کردئے تھے، اور اب بیالوجی اور زولوجی کے ماہرین حیوانات کی خلقت اور حکمت پر کتابوں پر کتابیں لکھے جارہے ہیں۔قرآن کریم نے پہلے ہی کہا تھا کہ آسمان و زمین کی تخلیق اور رات و دن کے تغیر وتبدّل اور خود انسانوں اور حیوانوں کے اپنے وجود میں خالقِ کائنات تک پہنچنے کے دلائل ہیں۔ آیاتِ انفس و آفاق پر جو بھی جتنا زیادہ غور کرے گا، اتنا ہی بڑا خدا شناس ہوگا۔ فرمان الٰہی ہے: إِنْ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَآیَاتٍ لأُِوْلِیْ الأَلْبَابِ۔دوسری جگہ ہے:وَفِيْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔تیسری جگہ ہے کہ اللہ سے زیادہ ڈرنے والے سائنٹسٹ ہی ہوتے ہیں:إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَائُ۔
پیڑ پودوں اور پھل پھول کے نظام میں اللہ نے ازدواجی تعلقات کی موجودگی کااشارہ دیا اور ان پر غور کرنے کی تلقین کی۔ أَوَلَمْ یَرَوْا إِلیٰ الأَرْضِ کَمْ أَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ إِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لآَیَۃً وَمَاکَانَ أَکْثَرُھُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔ بعد میں پودوں کے فرٹیلائزیشن کے نظام کو انسان نے واضح کیا جو وہ خود کر نہیں سکتا تھا؛ کیا ان تمام باتوں میں وجود خدا کی گواہی نہیں؟
تخلیق انسانی اور اس کے مراحل کے سلسلے میں ارشاد الٰہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو تمھاری ماؤں کے پیٹ میں تین تین تاریکیوں کے اندر ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ ان تین تاریکیوں سے مراد شکم مادر، رحم مادر اور وہ جھلی یا پردہ مراد ہے جس کے اندر بچہ سیال مادّہ میں نشو ونما پاتا ہے۔ یَخْلُقُکُمْ فِيْ بُطُوْنِ أُمَّھَاتِکُمْ خَلْقاً مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ۔ (الزمر:۶)۔ اللہ تعالیٰ رحم مادر میں جنین کو مختلف اطوار سے گزارتا ہے۔ پہلے نطفہ، پھر علقہ، پھر مضغہ، پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ جس کے اوپر گوشت کا لباس۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان کامل تیار ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو بہت تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر ہر مرحلے کو ایک خاص نام و اصطلاح سے یوں فرمایا:مَالَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَاراً وَقَدْ خَلَقَکُمْ أَطْوَاراً۔ (نوح: ۱۳، ۱۴) (تم کو کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے لیے کسی وقار و برتری کو نہیں مانتے حالانکہ تم اس نے تم کو مختلف مراحل میں پیدا کیا ہے) سورئہ المومنون کی آیت ۲۳ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِنْ طِیْنٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہٗ نُطْفَۃً فِيْ قَرَارٍ مَکِیْنٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً، فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً، فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَاماً فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً، ثُمَّ أَنْشَأْناَہٗ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔(ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا پھر اسے ایک مضبوط جگہ نطفہ میں تبدیل کردیا پھر اس نطفے کو علقہ (خون کے تھکّے) کی شکل دی پھر اس علقے کو مضغہ (لوتھڑا) بنایا پھر اس مضغے کو عظام (ہڈیوں) میں تبدیل کردیا، پھر ان عظام پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔) قرآن کریم میں مذکورہ تخلیق انسانی کے ان مراحل کو سننے کے بعد بڑے بڑے اطباء اور سائنس داں دین حق کی صداقت کے معترف ہوئے بغیر نہ رہے اور قبولیت اسلام سے بھی مشرف ہوئے۔
٭استاذ شعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی