قربانی ایک بدیہی حقیقت ہے۔ نہ انسانی معاشرے کی گاڑی قربانی اور ایثار کے بغیر چل سکتی ہے اور نہ معاشرہ اس کے بغیر استحکام پاسکتا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہر فرد میں کسی نہ کسی درجے میں قربانی کا داعیہ موجود ہے۔ یعنی قربانی انسان کا فطری داعیہ ہے۔
قربانی کا اصل محور اور مقصد؟
لیکن یہاں ان چھوٹی موٹی چیزوں کی قربانی پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے جنہیں کسی نہ کسی درجے میں انسان شب و روز کرتا ہے۔ بلکہ مقصودِ بحث وہ قربانی ہے جو انسان اپنی عزیز ترین چیز، اپنی جان اور اپنے مال کی دیتا ہے اور کسی کی محبت اور عقیدت میں دیتا ہے۔ اس قربانی کے ضمن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس قربانی کا مرکز و محور کس ذات کو بنائے اور اس کا مقصد کیا ہو؟ کیا اپنے نفس کو، اور ہوائے نفس کی تکمیل کے لیے؟ یا اپنے خاندان، قوم اور وطن اور اسی کی ترقی و بقا اور بالادستی کے لیے؟ یا اپنے ہی جیسے انسانوں اور ان کی خوش نودی کے لیے؟ ان سوالات میں کسی ایک کا بھی جواب کوئی سنجیدہ اور خرد مند انسان اثبات میں نہیں دے سکتا۔ بلکہ وہ تو یہ کہے گا کہ اس قربانی کا اصل مرکز و محور تو صرف وہ ذاتِ خداوندی ہونی چاہیے جو انسان اور ساری کائنات کی خالق، مالک، حاکم اور رازق ہے، اور اسی کے بتائے ہوئے طریقے پر اور اسی کی رضامندی و خوش نودی کے لیے ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہوا تو انسانی معاشرہ نہ استحکام پاسکتا ہے اور نہ اس کی گاڑی امن و فلاح کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ کم از کم ایک مسلمان کا تو یہی جواب ہوگا، اس لیے کہ اسلام اسے یہی بتاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[ترجمہ] ’’ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اس امت کے) کے لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ (ان مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے) پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اسی کے تم مطیع فرمان ہو۔‘‘ [الحج:34]
واضح ہو کہ قربانی نہ صرف شعائر اسلام میں سے ہے، بلکہ ایک عبادت بھی ہے۔ اس لیے اسے مناسک حج میں شامل کیا گیا ہے اور ساری دنیا کے ذی استطاعت مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریکِ حال ہوکر جانوروں کی قربانیاں کریں۔ اس قربانی کی غرض اور علت قرآن مجید میں اس طرح واضح کی گئی ہے:
ترجمہ: ’’اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اسلام میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر یہ ادا کرو۔ نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے ان کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو۔‘‘ (الحج:36,37)
آیت 36 کے پہلے فقرے کی تشریح میں صاحب تفہیم القرآن فرماتے ہیں:
’’یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اٹھاتے ہو۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے، نہ صرف شکر نعمت کے لیے، بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کرنے کے لیے بھی، تاکہ اآدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے، جو اس نے ہمیں عطا کیا ہے۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے۔ نماز اور روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ ان اموال کی قربانی ہے جو مختلف شکلوں میں ہم کو اللہ نے دیے ہیں، جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریے ہیں۔
وہ آیت 37 کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’جاہلیت کے زمانے میں اہل عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا گوشت بتوں پر لے جاکر چڑھاتے تھے، اسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لاکر رکھتے اور خوب اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت پیش کیا جائے۔ اس جہالت کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون اور گوشت نہیں بلکہ تمہارا تقویٰ ہے۔ اگر تم شکر نعمت کے جذبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کروگے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا۔ ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا۔ یہی بات ہے جو حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ اآپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے۔‘‘
قربانی کی غرض و علت پر وہ کلمات بھی روشنی ڈالتے ہیں جو قربانی کرتے وقت ادا کیے جاتے ہیں:
’’میں نے یکسو ہوکر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا، جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں، بے شک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔‘‘
مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں قربانی کے مقاصد کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل ایمان کے اندر درج ذیل صفات نشو و نما پائیں۔
[1] اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں کا دل سے بھی اور اپنے قول و عمل سے بھی ہر وقت شکریہ ادا کرنا۔
[2] ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بڑائی، برتری اور مالکیت کا دل سے بھی اور قول و عمل سے بھی اعتراف اور اظہار و اعلان کرنا۔
[3]اپنے اندر اللہ تعالیٰ کے لیے فدویت و جاں نثاری کا جذبہ زندہ رکھنا، اس کے لیے ہر وقت تیار اور آمادہ رہنے کا عزم محکم کرنا۔
قربانی کے تقاضے
چناں چہ جب ہم جانوروں کی قربانیاں کریں تو اسی تصور کے ساتھ کریں اور انہی مقاصد کا حصول ہمارے پیش نظر رہے۔ جب ہم جانوروں کے گلوں پر چھری چلائیں تو اس تصور اور اس عزم کے ساتھ کہ فی الحقیقت ہم چھری چلا رہے ہیں۔
[1] اپنی نفسانی خواہشات پر جو اللہ کے دین پر چلنے میں مانع بنتی رہتی ہے۔ اس فدویت و جاں نثاری سے ہمیں ہماری ازواج کو اور ہماری اولاد کو روکتی ہیں، جس کا اعلیٰ نمونہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی نیک بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور نیک فرزند حضرت اسماعیل ؑکی زندگیوں میں ہمیں ملتا ہے۔
[2] خاندان اور آباء و اجداد کی غیر اسلامی رسموں پر اور خرافات و بدعات پر جو امت کے ایک بڑے حصے پر مسلط ہیں، جو اس کے عقیدہ توحید کو مشتبہ بناتی ہیں اور جو غیر مسلم دنیا کے اسلام کے قریب آنے اور قبول کرنے میں مانع بنتی ہیں۔
[3] خود غرضی بخیلی، مفت خوری، حرام خوری، فضول خرچی اور ریا کی خباثت پر جس نے ہمارے عوام ہی نہیں خواص کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
[4] حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی سے غفلت پر کہ کتنے ایسے ہیں جو بڑے بڑے جانوروں کی قربانیاں تو کرتے ہیں لیکن ان کے حقوق کی ادائی کی انہیں کم ہی توفیق نصیب ہوتی ہے۔
[5] بے شرمی، بے حیائی و بے پردگی کی لعنت پر، جس کے شکار اب عام مسلمانوں ہی کے نہیں علماء و دانشورانِ اسلام کے گھرانے بھی ہوتے جا رہے ہیں، اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ حضرات خود اس لعنت کے دروازے کھولنے پر مصر نظر آتے ہیں اور اس کے لیے قرآن و حدیث کی من مانی تاویلات کر کے جواز پیدا کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ مزید برآں ان کی سرگرمیوں اور تحریروں کا مرکز و محور ہی یہ نظر آتا ہے کہ ملت کی ترقی و سرخ روئی بس اسوہ مغرب میں ہے۔ اگرچہ یہ سب کچھ یہ حضرات اس مرعوبیت اور شکست خوردگی کو چھپانے کے لیے کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں جس کے شکار وہ مغرب کی غیر معمولی مادی ترقی اور سیاسی غلبہ کو دیکھ کر نیز اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں پر ہر طرح کے اور پیہم حملوں کی تاب نہ لاکر ہوئے ہیں، تو چھری اس مرعوبیت اور شکست خوردگی پر بھی چلائیں۔
[6] اتحاد و اتفاق ملی سے غفلت پر، ملی انتشار و افتراق کو ہوا دینے والی ذہنیت پر اور گروہی و مسلکی عصبیت پر، کہ ان امراض نے ملت کو پارہ پارہ کر دیا اور اس کی ہوا اکھڑ گئی۔ ان امراض کو دعوت دینے کے نتیجے میں فطری طور پر ایسا تو ہونا ہی تھا۔
[7] اقامت دین و غلبہ دین کی کوششوں کے نتیجے میں مختلف نقصانات اور مصیبتوں سے دو چار ہوجانے کے ڈر پر، نیز بے صبری، مداہنت و عافیت پسندی اور سہل انگاری و تعیش پسندی کے رجحان پر، جو رہ رہ کر باطل نظریات اور نظام باطل کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر اآمادہ کرتا ہے۔
یہاں بس اسی پر اکتفا کیا جاسکتا ہے، اگرچہ خبیث اور مذموم چیزیں اور بھی ہیں جن پر قربانی کرتے وقت چھری چلانے کی ضرورت ہے۔lll