’’قربانی‘‘ ایک ایسا عظیم اور معنی خیز لفظ ہے، جس کے زبان پر آتے ہی خانوادہ ابراہیمی اور انبیاء کرام کی قربانیوں کی مکمل تاریخ آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ ان قربانیوں کے اندر روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے کا سامان ہے۔ دنیا کو چھوڑ کر عقبیٰ کی تلاش اور فانی کو بھول کر باقی کو یاد کرنے کاسبق موجود ہے، جسے ہم لفظ ’’قربانی‘‘ کے اندر دیکھ اور محسوس کرسکتے ہیں۔ دنیا جو کہ فانی اور ختم ہوجانے والی ہے، اس کی بھی ہر خوشی اور ہر کامیابی ایثار و قربانی کی مرہونِ منت ہے۔
تاریخ کی انہی عظیم قربانیوں میں سے ایک قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔ جب وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدائے بزرگ و برتر کی رضا و خوشنودی کی خاطر ذبح کرنے کے لیے لے گئے اور آپ نے ان کے گلے پر چھری بھی چلادی تھی، مگر نہ چھری چلی اور نہ اس کو چلنا تھا۔ اس لیے کہ مقصد تو صرف امتحان لینا تھا، ان کو آزمانا تھا، سو آزمایا جاچکا تھا۔ آسمان سے ندا آئی’’وفدینا بذبح عظیم‘‘ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں دے کر اس بچے کو چھڑالیا۔ (الصافات: ۱۰۷)
اللہ رب العزت نے انسانوں کو جو حیات عطا کی ہے، اس کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ ابتلا و آزمائش کی بھٹی سے گزرے تاکہ اس کے اچھے برے اعمال کو پرکھا جائے اور دیکھا جائے کہ ان میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے۔ الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا۔ (الملک) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہر طرح کی آزمائش اور امتحان سے گزارا گیا اور نہ صرف آپ بلکہ آپ کے ساتھ آپ کی بیوی حضرت ہاجرہ اور صاحبزادہ اسماعیل علیہ السلام بھی آزمائے گئے اور سب نے مکمل صبر و تحل کے ساتھ ان مشکل ترین حالات کا سامنا کیا۔ یہاں تک کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل نے اپنے والد بزرگوار کو اطمینان و یقین دلاتے ہوئے فرمایا: یا ابت افعل ما تؤمر ستجدنی انشاء اللہ من الصابرین ’’حضرت اسماعیل نے کہا: ابا جان جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کرڈالیے آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘‘ (الصافات: ۱۰۲) باپ اور بیٹے کی یہ قربانی بارگاہِ ایزدی میں اس قدر مقبول و محبوب ہوئی کہ اس کو بطورِ نشانی اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے باقی رکھا، تاکہ انسان ان اولوالعزم پیغمبروں کی قربانی سے سبق لیں اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے ہر طرح کی دشواریوں اور مشکلوں سے گزرجانے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا کرنا سیکھیں۔
آج انسانیت بے حیائی، فحاشی اور ظلم و ستم کے جس دہانے پر کھڑی ہے، وہاں سے اس کا لوٹنا بہت ہی مشکل ہے۔ آج نہ تو کسی عزت دار کی عزت محفوظ ہے، نہ کسی سرمایہ دار کی دولت، نہ یتیموں کا مال محفوظ ہے اور نہ بیواؤں کی عفت و عصمت، بے حیائی گھر گھر ناچ رہی ہے، عریانیت ہر در پر دستک دے رہی ہے۔ اس کریہہ اور گھناؤنے منظر سے روح انسانی تڑپ رہی ہے۔ ہر روز ہوس کے بازار میں عزت و ناموس کی نیلامی ہوتی ہے۔ ایمان واخلاق کے نام پر بے ایمانی، کفر والحاد، وفا کے نام پر بدعہدی اور خلاف ورزی یہ سب روز وشبینہ کا معمول بن گیا ہے۔ آج زمانے کو پھر اگر کسی دورِ ابراہیمی، نویدِ مسیحا اور دعوتِ محمدی کی تلاش ہے۔ انہی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ جیسے انبیاء کرام علیہم السلام نے تبلیغ دین اور اشاعتِ اسلام کے لیے پیش کی تھیں۔ جس طرح خاتم الانبیاء محمد ﷺ نے طائف کی گلیوں میں پتھر کھائے تھے۔ احد کے میدان میں آپ پر نیزے و خنجر آزمائے گئے تھے۔ آپ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے تھے۔ آپ کے اوپر خانہ خدا میں گندگیوں کا ڈھیر ڈالا گیا تھا۔ آپ ﷺ کے صحابہ کو سخت سے سخت سزائیں دی گئی تھیں، ان کو سخت دھوپ میں پتھروں پر لٹایا گیا تھا۔ ان کے سینوں پر پتھر رکھے گئے تھے۔ گھر سے بے گھر کیا گیا تھا اور تیر و نشتر کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
آج پھر اسی ابراہیمی ایمان اور اسماعیلی قربانی کی ضرورت ہے۔ ایمان کی بقا، ماؤں اور بہنوں کی عزت و ناموس کی حفاظت، انسانی ہمدردی، اخوت، بھائی چارگی، غریبوں سے انس، یتیموں سے محبت، بیواؤں کی کفالت، یہ سب چیزیں ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اپنے عیش و آرام، راحت و سکون کو ٹھکرا کر اپنے گھروں اور خانقاہوں سے باہر نکل کر منبر و محراب سے اتر کر انسانیت کی چوکھٹ پر قدم رکھیں، جہاں انسانیت دم توڑ رہی ہے، اس کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ بنایا جارہا ہے۔ جہاں عریانیت کا ننگا ناچ ہورہا ہے۔ عورتوں کو Modernityاور Development کے نام پر بازاروں اور قحبہ خانوں میں سرِ عام نیلام کیا جارہا ہے۔ بھائی، بہن، ماں باپ اور بہو بیٹیوں کے رشتے مجروح ہوکر رہ گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عیدالاضحی کے اس مبارک موقع پر ہم اپنے جدِ امجد حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کو یاد کریں اور خدا کے پیغام کو بندگانِ خدا تک پہنچانے کا عزم اور ارادہ کریں، انسانیت کا کھویا ہوا وقار اس کی لٹی ہوئی متاع عزت نفس دوبارہ ان تک پہنچانے کی کوشش کریں اور اس بات کا عہد کریں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی پیش کرکے اپنی معاشی، معاشرتی، دینی اخلاقی، تہذیبی اور تمدنی، انفرادی اور اجتماعی ہر طرح کی زندگی کو کامیاب اور بہتر بنائیں گے اور اس عہد کو پورا کریں:
ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للّٰہ رب العالمین۔ (الانعام: ۶)
’’میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی خدمت کے لیے قبول کرے اور دین پر چلنا آسان کردے۔ آمین!
——