قربانی

صفیہ سلطانہ صدیقی

’’چوزے لے لو۔ چوزے لے لو۔‘‘ باہر سے آوازآئی تو ننھے میاں مچلنے لگے:
’’امی جی! چوزے لوںگا۔ صرف دو دلوادیں، دلادیں ناں۔‘‘ وہ مستقل عائشہ کے پیچھے پڑے رہے۔
’’امی پھر وہ چلاجائے گا‘‘
’’نہیں بیٹے ہمیںکوئی پالنا تھوڑے ہی آتے ہیں۔ مرجائیںگے یا بلی کھاجائے گی انہیں۔‘‘
’’نہیںنہیں… میں خیال رکھوںگا۔ روزکھانا کھلائوںگا۔ اپنے بسترمیںسلائوںگا۔ آپ مجھے لے دیںبس۔‘‘
’’اچھا بابا! پوچھ کر آئو کتنے کا ہے؟‘‘ننھے میاں خوشی سے بے قابو ہوکر گلی کی طرف دوڑے: ’’چوزے والے… چوزے والے۔‘‘
’’ہاں بھئی بولوکتنے لینے ہیں؟‘‘
’’امی پوچھ رہی ہیں کتنے کاہے؟‘‘
’’اچھا‘‘ کہہ کر ننھے میاں واپس پلٹے۔
’’امی بس مجھے دس روپے دے دیں، پانچ کاایک ہے۔ میں پیلا اور لال والالوںگا۔ وہ دونوں اتنے پیارے ہیں کہ بس کیا بتائوں۔‘‘
اور ننھے میاںخیال ہی خیال میں لال اور پیلے چوزے کو پیارکرنے لگے۔
’’پانچ کاایک! توبہ ہے، کیا اندھیرمچارکھی ہے۔ ہرچیز مہنگی ہوئی جارہی ہے اور ننھے تم بھی بہت ضدی ہوتے جارہے ہو، بس ایک چیز کے پیچھے پڑجاتے ہو۔‘‘
’’اچھا دیں ناں! یہ رکھے مشین کی دراز میںدو پانچ پانچ کے نوٹ۔‘‘
’’جی نہیں… ابھی آٹابھی منگوانا ہے، نمک بھی ختم ہوگیاہے، بس یہی ہیں۔ ایسا کرو پھر لے لینا۔ دوبارہ بھی تو آئے گا۔‘‘
’’نہیں امی!‘‘ ننھے میاںنے رونا شروع کردیا۔
’’اچھا اچھا لے لو۔ ایک لے آئو۔‘‘
ننھے میاں نے اتنا بھی غنیمت جانا اور خوش ہوکر پانچ کا نوٹ چوزے والے کی طرف بڑھادیا۔
’’کون سا لوگے؟‘‘ چوزے والا بولا۔
’’کون سا لوں؟‘‘ ننھے میاں سوچ میںپڑگئے۔ وہ مسلسل لال اور پیلے چوزے کو تک رہے تھے۔ ’’کیا تم دونوں ہی پانچ روپے میں نہیں دے سکتے؟‘‘
’’ہاہاہا… ‘‘ چوزے والے نے قہقہہ لگایا۔
’’اچھا تو یہ لال والادے دو۔‘‘ ننھے میاں نے شرمندہ ہوکر جلدی سے کہا اور پھر خوشی خوشی لال چوزہ لے کر گھر میں آگئے۔
’’امی دیکھیں تو کتنا پیارا ہے۔ میں ابھی اس کا بستر لاتاہوں۔‘‘
عائشہ سلائی میں مصروف تھی۔ ایک نظر دیکھ کر دوبارہ کام میں لگ گئی اور ننھے میاں اپنے چوزے کے لئے اچھے سے بسترکی تلاش میں مصروف ہوگئے۔ ننھی کے گدے میںسے جو تھوڑی سی روئی جھانکتی ہوئی نظر آئی تو ننھے میاں پرانی سی ایک چادر میںاس روئی کولپیٹ کر اپنے چوزے کا بستر تیار کرنے لگے اور اپنے چوزے کو وہیں ننھی کے پاس لٹاکر باورچی خانے میں اس کے کھانے کاانتظام کرنے چلے گئے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ننھی نے چیخ چیخ کر اپنے جاگنے کااعلان کردیا۔ عائشہ سلائی چھوڑچھاڑ ننھی کو گود میں اٹھانے آگئی۔ ’’امی جی کچھ ہے ہی نہیں۔ ننھی کے دودھ میں تھوڑا سا آٹا ملاکر دے دیتا ہوں۔‘‘ ننھے میاں دودھ سے بھرے کپ میں آٹاملاکر لئی سی بنالائے۔
’’ہائے ننھے! تمہارا کیا حشر کروں؟ اب ننھی کو کیا دوںگی؟ پانچ روپے ویسے ہی خرچ کردیے۔ اب ننھی کا دودھ آئے یا تمہارے کھانے کو آٹا؟‘‘ عائشہ نے غصے سے کہا، اور پھر جو اس کی نظر ننھی کے گدے پر پڑی توایک طرف سے بہت سی روئی غائب دیکھی۔ پتاچلاکہ چوزے کا نرم بستر تیار کیاگیاہے۔ پھر تو عائشہ غصے لال پیلی ہونے لگی۔
’’ننھے تمہیں شرم نہیں آتی! بہن کابستر خراب کردیا۔ ابھی تمہارے چوزے کو اٹھاکر گلی میں پھینکتی ہوں۔ بہن کی چیزیں برباد کرتے ہو اور یہ ننھی کی دوہر بھی گندی کرڈالی۔‘‘ وہ ننھے کو برا بھلا کہتی رہی اور وہ ایک کونے میں سہمے کھڑے رہے۔ اب انہیں یہ سمجھ میں آرہاتھا کہ شاید کوئی غلطی ہوگئی ہے۔
بالآخر عائشہ کو خود ہی احساس ہوگیاکہ اتنا ڈانٹنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ وہ سوچنے لگی: آخر میں نے اس کو فوراً ہی کیوں نہ سی لیا جو ننھے نے اس میں سے روئی نکالی۔ اگر میں اس کے مسائل میں دلچسپی لیتی تو دودھ بھی ضائع ہونے سے بچ جاتا۔ وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگی۔ مگر کام بھی تو کتنے ہوتے ہیں۔ عائشہ سارے گھر کاکام کرکے سلائی لے بیٹھتی۔ شوہر کی مختصر آمدنی میں گزارا ممکن نہ تھا۔ وہ سلائی کرکے بمشکل خرچ پورا کرتی۔ ان تمام حالات کے باوجود بھی وہ اپنادامن متوازن رکھتی اور برے حالات یاغربت کا غصہ کبھی بچوں پر نہ اتارتی۔ یہی وجہ تھی کہ ننھے میاں کو ساٹھ گز کے اس مختصر سے مکان میں کبھی کوئی تنگی محسوس نہ ہوئی، اور وہ جب پڑوس میں بچوں کی کبھی پٹائی ہوتی دیکھتے تو حیران ہوتے کہ ان کی امی کیسے اپنے بچوں کومارتی ہیں؟
بقرعید قریب تھی اور سلائیاں بہت باقی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح بقرعید پر ننھے کا نیا کرتا پاجامہ ضروربنالے۔ ننھے میاں ڈانٹ کھاکھاکر سوچکے تھے۔ عائشہ نے اٹھ کر چوزے کو دانہ ڈال دیا اور پھر دوبارہ کپڑے سینے جابیٹھی۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد ننھے کی آنکھ کھلی۔ کھیلنے کا وقت نکل چکاتھا۔ شام کے چھ بج رہے تھے۔ پڑھنے کا وقت تھا۔ ننھے کو سخت بوریت ہوئی کہ اب پڑھنا پڑے گا۔ عائشہ بیٹے کی شکل دیکھتے ہی سمجھ گئی۔
’’ننھے… اِدھر آئیے۔‘‘ عائشہ نے نرم لہجے میں کہاتو ننھے کی جان میں جان آئی۔
’’جی امی؟‘‘
’’ہم سوچ رہے ہیں کہ آج آپ کو بہت ڈانٹ دیا۔ ہمیں افسوس ہورہاہے۔ ایسا کرتے ہیں آپ کا عید کاسوٹ خریدنے چلتے ہیں بازار۔‘‘
’’سچ امی!‘‘ ننھے کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا جیسے کبھی افسردہ ہی نہ ہوا ہو۔
’’مگر ایک بات ماننی ہوگی۔‘‘ عائشہ نے کہا۔
’’کون سی؟‘‘ ننھے نے بدستور دلچسپی سے پوچھا۔
’’وہ یہ کہ ہر چیز پہلے پوچھ کرلیںگے۔ آپ جو کام کرتے ہیں وہ بگڑجاتاہے، پھر ڈانٹ کھانی پڑتی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے امی! پھر چلیں؟‘‘ ننھے نے بے چینی سے کہا۔
’’ہاں ذرا نماز پڑھ لوں۔ جب تک غفوراں خالہ اپنے کپڑے بھی لینے آجائیںگی۔ پھر چلیں گے۔‘‘ اسے پیسوںکا انتظار تھا۔ ننھے میاں بہت خوش تھے۔ امی سے کہنے لگے: ’’امی آپ میرے اور ننھی کے کپڑے بناتی ہیں۔ میرے چوزے کے بھی بنائیں۔ اچھا چھوٹی فراک بنادیں۔ اسے بھی تو سردی لگتی ہوگی۔‘‘
’’نہیں بیٹے چوزے کو تو اللہ میاں نے قدرتی کپڑے پہنائے ہوئے ہیں، اسے بھلا کیا ضرورت ہے فراک کی!‘‘ عائشہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ ننھے کی مزید باتیں اکثر اس کی بہت سی پریشانیوں کو دور کردیتی تھیں۔
ننھے میاں کا چوزہ اب کچھ بڑا ہوگیاتھا۔ وہ سب سے اچھی خوراک اپنے چوزے کو کھلاتے۔ وہ بھی سارے گھر میںگھومتا پھرتاتھا۔ عائشہ حیران تھی کہ اب تک چوزہ بیمار بھی نہ ہواتھا۔ اصل میں ننھے میاں اس پر اتنی توجہ دیتے تھے کہ ان کا باہر نکلنا بھی کم ہوگیاتھا۔ عائشہ خوش تھی کہ چلوننھے کو ایک مشغلہ ہاتھ لگ گیاتو شرارتوں میں کمی آئی۔
عید میں دو دن رہ گئے تھے۔ ہر طرف چہل پہل، بکرے ، دنبے، گائے جگہ جگہ بندھے دیکھ کرننھے نے اپنی امی سے کہا ’’امی ہمارا بکرا کب آئے گا؟‘‘ عائشہ اس سوال پر حیران رہ گئی مگر خاموش رہی۔ ’’امی!‘‘ ننھے نے پھر مخاطب کیا۔ ’’امی سارا سال گوشت منگامنگاکر کھاتے ہیں، بقرعیدمیں گھر میوں کیوں کاٹتے ہیں، بازار سے کیوں لاکر نہیں کھاتے؟‘ عائشہ کو ہنسی آگئی۔ ’’بتائیں ناامی؟‘‘ ننھے نے اپنے مخصوص انداز میں اصرار کیا۔
’’بیٹے اللہ میاں انسان سے کہتے ہیں کہ تم میری راہ میں قربانی دو، اس لیے سب قربانی کرتے ہیں اور اللہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے لئے اپنی عزیز ترین چیزیں جو بھی قربان کرسکتے ہوں، کریں۔‘‘ اس نے ننھے کو آسان اور مختصر انداز میں قربانی کا مقصد سمجھادیا۔
’’تو امی ہم اللہ کی راہ میں بکراقربان نہیں کریںگے؟‘‘
’’نہیں بیٹے یہ تو اُن پ رفرض ہے جو بکرا خریدسکتے ہیں۔‘‘ مختصر سا جواب دے کر وہ دوبارہ سلائی میںمصروف ہوگئی۔
چھ سالہ ننھے میاں بڑے فلسفیانہ انداز میں کچھ غور کرنے لگے۔ ’’کیا سوچنے لگے ہو؟‘‘ امی نے مسکراکر پوچھا۔
’’اچھا امی اگر ہم بکرا نہیں خریدسکتے تو عزیز چیز تو قربان کرسکتے ہیں؟‘‘ ننھے میاں اب تک اسی موضوع پر الجھے ہوئے تھے۔
’’ہاں بیٹاکیوں نہیں کرسکتے؟‘‘ عائشہ نے ہنس کر جواب دیا۔
’’اچھا تو امی پھر ہم اپنے ننھے پیارے سے چوزے کی قربانی کرلیتے ہیں۔ آپ میرا چوزہ کاٹ لیجئے۔‘‘ نہایت معصومیت سے ننھے میاں نے چوزے کو اپنی گود سے اتارکر امی کی طرف بڑھادیا۔
’’عائشہ حیران رہ گئی۔ اس نے بے اختیارننھے کو گود میں اٹھالیا۔ وہ سوچنے لگی کہ ننھے میاں جیسا قربانی کاجذبہ تو شاید مجھ میں بھی نہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146