پردہ نشیں عالیہ نے بڑی معصومیت سے کہا کہ بابا میرے جہیز کی خاطر اس طرح پریشان ہوتے ہو، میرے بیاہ کے انتظامات میں اس قدر مصروف ہو؟ کبھی کوئی سامان خرید کر لاتے ہو، کبھی گھر کا کوئی سامان بیچتے ہو یہ کیسی مصروفیت ہے؟ کہاں سے لاؤ گے اتنے پیسے؟ کون دے گا تمہیں اتنا قرض؟ تم نے ناحق کیوں ایک ایسا بوجھ اپنے سر لے لیا جسے تم سہار نہ سکو؟
یہ سن کر چندو کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے۔ عمر ڈھل رہی تھی بلکہ کافی ڈھل چکی تھی۔ چندو نے روہانسی صورت بنا کر کہا :’’اب کتنا رہے گی گی اپنے باپ کے گھر، تو تیس پار کر چکی ہے تیری ماں زندہ ہوتی تو تجھے دیکھ دیکھ کر صبح و شام روتی رہتی میں اب اس کی روح کو مزید صدمہ نہیں پہنچا سکتا۔ دعا ہے تیری عمر دراز ہو اور تو خوش و خرم اپنی باقی زندگی اپنے شوہر کے ساتھ گزارے۔ تیری زندگی کا ایک لمبا حسین پل اس بڈھے کی مفلسی و ناداری کی نذر ہو گیا میں تیرا گنہگار ہوں بیٹی۔‘‘
عالیہ نے بابا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اور آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے کہا:’’تم نہیں بابا بلکہ یہ پورا معاشرہ اس کا گنہگار ہے۔ تم کیوں گنہگار ہونے لگے؟ تم نے کوئی جرم تھوڑے ہی کیا ہے؟‘‘
چندو چند لمحے کو کہیں کھو سا گیا پھر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بولا کہ اللہ کوئی راستہ ضرور نکالے گا۔ یہ کہتے ہوئے اس پر کھانسی کا دورہ پڑا وہ اپنا سینہ پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ بلغم کو دیوار پر تھوکتے ہوئے چندو نے بتایا کہ آج وہ اپنے ایک جگری دوست کے پاس جائے گا۔ خدا کی ذات سے امید ہے وہ میری حاجت روائی ضرور کرے گا۔اور پھر مسجد سے ظہر کی آذان بلند ہوئی۔ چندو وضو کر کے مسجد جانے کی تیاری میں لگ گیا۔عالیہ نے افسردگی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ کہا:’’ اب تو چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں بابا، اتنی جلدی یہ سب کیوں کر ممکن ہے؟ تمہاری حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تاریخ رکھتے ہوئے کچھ سوچا بھی نہیں مجھ سے کوئی مشورہ بھی نہیں کیا؟ اماں نہیں ہیں تو اس نگوڑی سے ہی کچھ پوچھ لیتے؟‘‘ چندو خاموشی سے بیٹی کی بات سنتا رہا۔ عالیہ سے باپ کی حالت چھپی ہوئی نہیں تھی۔ اس نے تکیے میں سر ڈال کر روتے ہوئے اور آہیں بھرتے ہوئے اپنے دل میں کہا کہ لڑکیوں کا باپ ہونا سچ مچ بڑی بدقسمتی ہے۔
چندو مسجد کو جاتے ہوئے راستے میں سوچ رہا تھا کہ ایک غریب باپ کرے بھی تو کیا کرے؟ بیٹی کو گھر پر رکھے تو معاشرہ قدم قدم پر سوال کرتا ہے۔ یونہی چھوڑ دے تو نکمے اور اپاہج کا طعنہ سننا پڑتا ہے اور ہر آن کسی چیل کوئے کے جھپٹ لے جانے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ جوانی کے دنوں میں اس دکھ درد کا اندازہ اگر ہو جائے تو بہت سے نوجوان شادی ہی نہ کریں لیکن قدرت کے بنائے ہوئے نظام زندگی اور فطرت انسانی سے مجبور ہو کر ہی اولاد آدم کی یہ نسل یہاں تک پہنچی ہے۔
میرے ابا کہتے تھے جب صور پھونکا جائے گا تب ساری قبریں اپنے اپنے مردے اگل دیں گی اور روحیں اپنے اپنے اجسام میں داخل ہو جائیں گی۔ اپنے معبود کی جانب رواں دواں۔ پھر حساب و کتاب ہوگا اور خالق کائنات کے حضور حاضری ہوگی۔ سارا کیا دھرا نیکی و بدی ایک دفتر کی شکل میں ہو بہو حاضر کر دیا جائیگا۔
ابا بھی کیا عجیب بات کرتے تھے، ممکن ہے سچ بھی ہو۔ اف! بڑا ہی سخت دن ہوگا وہ؟ میں تو دنیا میں ہی قبر کا اگلا ہوا مردہ ہوں لیکن آج اس مردے کی ملاقات ایک زندہ دل انسان سے کراؤں گا، بعد نماز ظہر— یہ سوچتے سوچتے چندو اپنے دوست کے گھر روانہ ہو گیا۔
گھر پہنچ کر چندو نے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ کون ہے؟ لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب نہ پاکر گمان گزرا کہ کوئی مانگنے والا ہوگا تھوڑے سے انتظار کے بعد خود ہی چلا جائے گا۔ تھوڑی دیر بعد کنڈی میں ہلکی سی لرزش پھر ہوئی۔ میں خاموشی سے ایک کتاب پڑھنے میں منہمک تھا طبیعت میں اکتاہٹ سی پیدا ہوئی۔ کنڈی پھر بجی باہر جا کر دیکھا تو چندو سامنے کھڑا تھا۔میں نے خوش ہو کر کہا آؤ اندر آ جاؤ بیٹھو کیسے تشریف لائے؟ بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی۔ وہ تھکا تھکا سا خیر و عافیت دریافت کرتا ہوا لکڑی کی ایک پرانی سی کرسی میں ڈوب کر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔ سچ یہی ہے کہ چہرہ نام کی کوئی چیز اب اس کے چہرے پر نہیں تھی۔ اس کی گھنی بھنوؤں کے اندر سے لمبے لمبے سفید بال باہر نکل کر آنکھ کے پپٹوں پر جھول رہے تھے، مونچھ داڈھی شاید اس نے مہینوں سے نہیں بنائی تھی اور کوئی ڈھنگ کا کپڑا اس کے بدن پر نہ تھا۔ کسی آڑی ترچھی بگڈنڈی کی مانند جھریاں ڈوبتی ابھرتی ہوئی اسکی ٹھڈی پر آکر ختم ہو رہی تھیں۔ الجھے سے بال، پریشان آنکھیں، کانپتے ہاتھ، لڑکھڑاتے قدم، لرزتے ہونٹ۔ میں اسے بغور دیکھتا رہا اسے دیکھ کر کسی پر خطر اور مخدوش حویلی کی یاد تازہ ہو گئی۔تھوڑا دم لینے کے بعد کھانستے ہوئے کہنے لگا کہ بہت دنوں سے ملاقات کی خواہش تھی۔ پچھلی بار تم آئے تھے لیکن میں اسپتال میں بھرتی تھا۔ دمے کا مریض ہو گیا ہوں۔ اب مجھ سے کوئی کام بھی نہیں ہوتا، کوئی اس بوڑھے کو کام پر رکھتا بھی نہیں۔ چند دنوں قبل پتہ چلا تم عید میں آنے والے ہو۔ کل بھائی کی معرفت معلوم ہوا کہ تم آئے ہوئے ہو، بس فوراً ہی ملنے چلا آیا۔ میں نے سوچا ظہر کی نماز میں آؤ گے مسجد میں نظر نہیں آئے؟ تمہارا پتہ نہیں چلتا کب آتے ہو کب چلے جاتے ہو؟ اس لیے نماز بعد ادھر ہی آ گیا تکلیف کے لیے معافی چاہتا ہوں۔
اس نے سلسلہ وار بول کر اپنی بات ختم کی۔ اسکول کے زمانے سے ہی یہ اس کی پرانی عادت تھی۔تھوڑی دیر وہ خاموش رہا پھر پہلو بدلتے ہوئے کہنے لگا:’’ خدا نے تمہیں بہت دیا ہے اس لیے ایک حاجت لے کر تمہارے پاس حاضر ہوا ہوں۔‘‘ کہتے کہتے کھانسی پھر اٹھی وہ قدرے رک سا گیا۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں بلا جھجھک کہو اور گھر کی خیر خیریت بتاؤ اور سب کیسی گزر رہی ہے کیا چل رہا ہے؟ اس نے ایک لمحے کا توقف کیا پھر رک رک کر کہنے لگا:’’ سب ٹھیک ہی ہے غربت و افلاس کی زندگی کے کیا احوال سنائیں۔ سانس چلتی رہتی ہے، ہم بھی اس کا ساتھ نبھاتے رہتے ہیں اور زندگی کے ساتھ بھاگتے رہتے ہیں ۔‘‘کہتے کہتے اسکی سانس پھول گئی۔ کھانستے ہوئے تھوڑا رک کر کہنے لگا کہ بیٹی کا رشتہ پکا ہو گیا ہے جہیز کا کچھ سامان جوڑنا تھا۔ گاؤں میں بڑے ہاتھ پیر مارے لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ مسجدوں میں پانچ وقت حاضری لگانے والے اور خدا کو بار بار سجدہ کرنے والوں نے بھی ایک نہ سنی۔اگر تم پچاس ہزار قرض مجھے دے دو تو امانت کا یہ بار اتار پھینکوں تمہیں بڑا ثواب ملے گا۔ یہ مت سوچنا کہ اتنی بڑی رقم میں ادا نہیں کر پاؤں گا۔ عالیہ کی شادی کے بعد مکان بیچ دوں گا اس کے بعد گھر کا کرنا بھی کیا ہے جسے بیچوں گا اس سے بس اتنی سی اجازت طلب کر لوں گا دالان کے ایک کونے میں ایک چارپائی بچھی رہنے دے اور رات گزارنے کا سہارا مل جائے۔ کسی رات کھانستے کھانستے زندگی کو الوداع کہہ دوں گا۔ کفن دفن کا انتظام تو گاؤں والے کر ہی دیں گے۔ مردے کو بھلا کون اپنے گھر پر رکھتا ہے۔ مرنے والے کو کیا خبر کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کا ہر جملہ تیر و نشتر کی طرح دل پر چبھتا جا رہا تھا۔
مفلسی و محتاجی کو میں نے پہلی بار بہت قریب سے دیکھا تھا۔ پچاس ہزار کیا چیز تھی چندو کی بے بسی، تنگ دستی، غربت و افلاس اور اس کی شرافت نفسی کے آگے اس وقت میں اپنا دل بھی نکال کر اسے دے دیتا۔ اس کے لہجے میں اعلی نسبی کی بو تھی اور اس راست بیانیہ کی منظر نگاری قابل تعریف تھی میرے سامنے اس وقت وہ ایک حقیقی افسانہ نگار تھا۔
وقت گزرتا رہا۔ مجھے دہلی میں چھوٹے بھائی کی معرفت پتہ چلا عالیہ کی شادی ہو گئی ہے۔ وہ اپنی سسرال جا چکی ہے۔ چندو اب کوئی چھوٹا موٹا کام دھندا کر لیتا ہے اب اس کے چہرے کی جھریاں بھر رہی ہیں۔ جھکی ہوئی کمر تن گئی ہے۔ اس کے قدم میں پہلے کی بنسبت استقامت پیدا ہو گئی ہے۔ اب اس کا چہرہ پہلے کی طرح ہی اس کا چہرہ لگنے لگا ہے۔ میں بے خبر اپنے کام میں لگا رہا۔
آج ایک سال بعد میں گاؤں آیا تھا۔ عید میں چندو نے پیسہ واپس کرنے کی بات کی تھی چندو کیا پیسہ واپس کریگا؟ لیکن اس بہانے میں اس سے ملاقات کا متمنی تھا۔ بھائی نے بتایا وہ آج کل بہت زیادہ بیمار ہے۔ اس کی بیٹی اپنے سسرال سے کئی بار مار پیٹ کر واپس بھیج دی گئی ہے۔ یہ سن کر میرے دل کی حالت اس ناؤ کی طرح ہو گئی جس کا مانجھی بھنور میں اپنا پتوار گنوا بیٹھا ہو۔ مجھے اس سے ابھی ملنا ہے۔ میں ناشتہ سے فارغ ہو کر جانے کی تیاری میں بیٹھا ہی تھا کہ کسی نے آکر خبر دی چندو چاچا نہیں رہے۔ میں بھاگا ہوا اس کے گھر گیا۔ تجہیز و تکفین کا انتظام کرنے کے بعد رنجیدہ طبیعت لیے ہوئے گھر آ کر لیٹ گیا۔بعد نماز عصر میں مسجد کے دروازے پر مغموم چہرہ لیے ہوئے کھڑا تھا تبھی چند آدمی میت کو لے کر گلی کے نکڑ سے نکلے۔ لوگ جنازے کو باری باری کاندھا دے رہے تھے۔ کسی نے میرے کان میں آہستہ سے کہا:’’سنتے ہیں قرض لیکر بغیر ادا کئے مر جانے والے کی میت بھاری ہو جاتی ہے۔‘‘
میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا اور اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ اس نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا ایسا میں نہیں کہتا مولانا صاحب کہہ رہے تھے۔ ’’کون مولانا صاحب؟‘‘ میں نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔ مسجد کے امام صاحب اور کون، جمعہ کے خطبہ میں بول رہے تھے۔
مجھے بھی کاندھا دینا تھا میں نے چند قدم آگے بڑھ کر چارپائی کا اگلا سرا پکڑ لیا جنازہ کاندھے پر رکھتے ہی میت کے بوجھ سے میں یک لخت جھکا۔ میرے قدم لڑکھڑانے لگے۔ میرے دوست نے پیچھے سے فوراً ہی لکڑی پکڑ کر سنبھالتے ہوئے کہا :’’تم اکہرے بدن کے آدمی اور کہاں یہ بھاری لاش میں کہہ نا رہا تھا کہ جنازہ بھاری ہے؟‘‘
میرا سارا علم اور میری پوری ذہانت بیک وقت کند ذہنی کی چپیٹ میں آ گئی۔ کیا واقعی قرضدار کی میت بھاری ہو جاتی ہے؟ میں نے دل میں سوچا اور ذہن پر زور ڈالتے ہوئے آن کی آن میں کئی سو اوراق کی ورق گردانی کر ڈالی لیکن کچھ پلے نہ پڑا، پھر من ہی من میں کہا کہ ہاں میت بھاری تو ہوگی ہی معاشرے کا ظلم سہتے سہتے، قرض داروں کی دھمکیاں سنتے سنتے، ظالموں کی تیکھی اور تلخ باتوں کو پیتے پیتے، غریب بیٹی کا باپ جو ٹھہرا؟
میت قبرستان میں رکھی جا چکی تھی۔ قبر بالکل تیار تھی ایک لحیم شحیم آدمی قبر میں اترا دوسرے کا انتظار تھا۔
چندو کی شخصیت، اس کی صاف گوئی اور محبت میں بڑی کشش تھی وہ میرا بڑا قریبی اور عزیز دوست تھا۔ میں اس سے لپٹ کر رونا چاہتا تھا۔ میں اس سے ملنا چاہتا تھا مگر افسوس کہ مل نہ سکا۔ میں جلدی سے قبر میں اتر گیا۔ اس شخص نے مجھے روکا جس نے جنازے کی لکڑی تھام لی تھی لیکن میں نے اس کی بات نہ مانی۔ دو لوگ کفن کے ایک ٹکڑے کو میت کی کمر میںلپیٹ کر نیچے اتارنے میں ہم دونوں کی مدد کر رہے تھے۔ میت کا منھ میری طرف تھا۔ اچانک لاش سرک کر میرے سینے سے چمٹ گئی۔ میں یک لخت پیچھے کو ہٹا اور قبر کی دیوار سے لگ گیا۔یکایک ایک غنودگی نے مجھے اپنی آغوش میں دبوچ لیا۔ چندو کے چہرے کی جانب سے کفن کا ایک سرا اچانک کھل گیا۔ چندو نے آنکھیں کھول دی تھیں۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا:’’ مجھے معاف کر دینا میں تمہارا قرض ادا نہ کر پایا اور وعدہ خلافی ہو گئی۔‘‘ موت نے بالکل ہی اسے کچھ کہنے سننے کی فرصت نہ دی مگر اس نے اپنا مکان رہن کر دیا تھا کہ میرا اور گاؤں والوں کا قرض موت کے پہلے اتار دے۔ مجھے لگا کہ وہ اپنی داستان حیات سناتے ہوئے مجھ سے کہہ رہا ہے:’’میں بیٹی پیدا کرنے کا گنہگار تھا۔ اس قرض کو میں نے کئی بار چکایا۔ تمہیں کچھ پتہ بھی ہے کہ عالیہ کئی بار سسرال سے واپس آئی مار کھانا گالی سننا تکلیف سہنا جہیز اور غربت کے طعنے سننا ہی اس کی سوغات تھے۔ بڑا کم ظرف داماد ملا، پھر اس کی ماں اور بہنیں؟ میں ہر بار گھر کا کوئی نہ کوئی اثاثہ بیچ کر اور منت سماجت کر کے بیٹی کو اس کے گھر چھوڑ آتا، لیکن اس بار اس کا شوہر یہ کہتے ہوئے اسے میرے گھر چھوڑ گیا کہ اب وہ یہیں رہے گی۔ میں نے گھر میں بہت تلاش کیا مگر بیچنے لائق کوئی سامان بچا ہی نہیں تھا، جسے فروخت کر کے دوبارہ میں اسے اس کے گھر بھیج دیتا۔ رہن سے ملا ہوا تھوڑا پیسہ میری بیماری پر خرچ ہو گیا، کچھ شدید تقاضہ کرنے والوں کے قرض بھی چکائے جو روز ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے۔ میری بیٹی کا گھر اجڑ گیا، ساتھ ساتھ میرا آشیانہ بھی بک گیا بس یہی سوچتے سوچتے سانس اکھڑ گئی۔ سب اپنا اپنا قرض بروز حشر مجھ سے وصول کریں گے لیکن تم تو مالدار ہو مجھے جیتے جی معاف کر دینا زکوۃ کی رقم سمجھ کر ہی سہی، کیوں کہ میں اس کا سب سے زیادہ حقدار تھا تاکہ میری میت کا بوجھ کچھ کم ہو جائے۔ تم نے لوگوں کی گفتگو سنی ہی ہوگی؟
وہ ایک ساعت ہزار ساعتوں کی مانند تھی جب میری آنکھ کھلی۔ لوگ مجھے قبر کے اندر سے اوپر کو کھینچ رہے تھے میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ اچانک یہ سب کیا ہوا میں نے اپنا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا رکو رکو اور سنو۔ میت واقعی بھاری تھی، قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی بھاری بھرکم لاش کی مانند؟ میں اسے سنبھال نہیں پایا۔ اپنے سینے پر روکے ہوئے رو پڑا اور قبر میں کھڑے کھڑے اعلان کیا چندو نے جس کسی سے قرض لیا ہے میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ بعد تدفین میرے گھر آکر ایمانداری سے اپنا پیسہ وصول کر لینا اور ہاں رہن میں رکھے ہوئے چندو کے گھر کا پیسہ بھی مجھ سے لے لینا۔ عالیہ کو کوئی اس کے باپ کے گھر سے نہ نکالے۔
اتنا کہتے ہی لاش اچانک ہلکی ہو گئی۔ میں نے آگے پیچھے کفن کا کپڑا کمر کے نیچے لگائے ہوئے دونوں لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا ذرا ڈھیلا چھوڑو۔ ان میں سے ایک بوڑھے شخص نے مجھے حیرت سے دیکھا اور کہا ابھی ابھی چند ساعت قبل تم پر بے ہوشی کا غلبہ سا طاری ہو گیا تھا۔ ہم سب ایک لمحے کو انتہائی پریشان ہو گئے، اب خوش ہیں کہ تم چندو کا قرض ادا کروگے۔ خدا تمہیں خوش رکھے۔
میرے ایک دوست نے قبر کی لکڑی کا ایک تختہ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا: میں نے قبر میں اترتے وقت ہی تم سے کہا تھا کہ میت بھاری ہے اور تم اکہرے بدن کے آدمی ہو لیکن تم زبردستی قبر میں اتر آئے۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں کہا: ’’ہم سب اکہرے بدن کے لوگ کمزوروں کی مدد نہ کر کے اور اس پر مزید بوجھ ڈال کر اسے دہرا بنا ڈالتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں قبر سے نکل آیا۔ چندو اپنے قرض کا بوجھ دنیا میں ہی اتار کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہو چکا تھا۔