يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْہُ۰ۭ …. وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۲۸۲ (البقرۃ2:282)
ترجمہ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم باہم کسی متعینہ مدت کے لیے قرض کا لین دین کرو، تو لکھ لیا کرو۔۔۔ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘
آپ اس پوری آیت پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قرض کے لین دین یا مالی معاملات سے متعلق بہت تفصیل سے ہدایات دی ہیں۔ مثلاً: جو معاملہ طے ہو صاف صاف لکھ لیا کرو۔لکھنے والے کو چاہئے کہ و ہ عدل کے ساتھ لکھے۔ جو لکھنا نہیں جانتا وہ اپنے طرف سے کاتب کو لکھنے کا کہے اور کاتب صحیح صحیح لکھے ۔ لکھنے یا لکھوانے کا حق اسکو ہے جو قرض لے رہا ہو۔ وقت مقررہ دن ، تاریخ اس تحریر میں لکھوانا ضروری ہے ، ادا کرنے کا طریقہ کب دیا جائیے گا اور کس طرح دیا جائیے گا صحیح صحیح لکھا ہوا ہو تاکہ بعد میں لڑائی جھگڑے کی نوبت نہ آئے۔ اس آیت میں دو گواہوں کو رکھنے کی ہدایت بھی دی گئی تاکہ معاملات میں کوئی ایک بھی اپنے وعدے سے نہ مکرسکے۔ ان دو گواہوں میں دومرد یا ایک مرد کی غیر موجودگی میں دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایات آئی ہیں اور آخر میں آیت کا اختتام اس حقیقت پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر بات کا جاننے والا ہے۔
کیا ہم اس بات پر غور وفکرکریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے قرض کے لین کے سلسلے میں اتنی تفصیلی ہدایات کیوں دی ہیں؟ دراصل اسلام معاملات میں اپنے ماننے والوں کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتا ہے اور انسانوں کے اخلاق و کردار کا تحفظ کرتا ہے۔ اگر ہم قرض کے لین دین میں شرائط اور تفصیلات کو نہ لکھیں تو اس بات کا امکان ہے کہ فریقین میں سے کوئی ایک بھی متعینہ شرائط میں سے کچھ بھول سکتا ہے۔ ایسے میں دوسرا فریق اس کی دیانت و ایمانداری پر شک میں پڑسکتا ہے۔ اس لیے جملہ تفصیلات کو لکھ لینے اور اس پر گواہی قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس آیت میں لکھنے والے اور گواہوں کو بھی ہدایات دی گئیں ہیں کہ ضرورت پڑنے پر گواہوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ آکر گواہی دیں، اس طرح ہم ایک صاف ستھرے اور اعتماد باہمی پر قائم سماج کی تشکیل کرسکتے ہیں۔