آدمی کبھی مال کی حرص اس لیے کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دولت و ثروت کا وارث بنا کر چھوڑ جائے تاکہ گردش زمانہ سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ ایک نیک اور عمدہ ارادہ ہے۔ اسلام ہر مسلم کی یہ ذمہ داری ٹھہراتا ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرے اور مفلسی و تنگ دستی سے انہیں محفوظ رکھے اور در در کی گدائی سے انہیں بچائے۔ اسلام جہاں دوسروں کے گھروں سے مفلسی کے خاتمہ کا حکم دیتا ہے وہیں اس بات کو بھی ناپسند کرتا ہے کہ تم اس آفت کو اپنے ہی گھر میں بلاؤ۔
حدیث میں ہے ’’تم اپنے ورثہ کو مال دار چھوڑ جاؤ یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم انہیں مفلس و کنگال چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘ (بخاری)
بچوں کی کفالت اور ان کے مستقبل کی ضمانت کی اہمیت مسلم ہے لیکن یہ درست کیسے ہوسکتا ہے کہ ان چیزوں کے پیچھے آدمی اپنا دین و اخلاق داؤ پر لگا دے۔ یہ تو محض حماقت ہے کہ آدمی اپنی حیثیت اپنی شرافت اور رضائے خداوندی کو اس لیے قربان کردے کہ اسے اپنی کمائی کو اپنے بچوں کے لیے محفوظ چھوڑ جانا ہے۔
اسلام بتاتا ہے کہ دوسری تمام نعمتوں کی طرح آدمی کے بچے اور اس کا مال آزمائش ہے، اگر وہ ان چیزوں میں پھنس کر اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کر دیتا ہے اور مطلوبہ قربانیاں نہیں دیتا تو یہ نعمتیں اس کے لیے وبال جان بن جاتی ہیں بلکہ اس کے دشمنوں سے زیادہ ضرر رساں اور مہلک بن جاتی ہیں۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہاری بیویاں اور تمہاری اولاد تمہارے دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غور و رحیم ہے۔ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔‘‘ (تغابن:15)
جی ہاں جو آدمی جہاد سے اس لیے رک رہے کہ اسے بیوی کی صحبت زیادہ محبوب ہے یا بذل و انفاق سے اپنے ہاتھ اس لیے سمیٹ لے کہ اپنے بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کرتا رہے تو وہ شخص اللہ کی ان تمام نعمتوں کی جو اسے میسر آگئی ہیں ناشکری کرتا ہے اور اپنی جہالت و بے وقوفی سے انہیں نعمت تصور کرتا ہے حالاں کہ وہ آزمائش ہیں۔
خولہ بنت حکیمؓ کہتی ہیں کہ رسول اکرمﷺ ایک دن اپنے ایک نواسے کو گود میں لیے ہوئے نکلے اور آپؐ فرما رہے تھے ’’تم لوگ (یعنی بچے) کنجوسی، بزدلی اور جہالت و حماقت کا ذریعہ بنتے ہو اور تم اللہ کی خوشبو بھی ہو۔‘‘ (ترمذی)اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے اپنے بچے کی وجہ سے بخیل بزدل اور احمق بننا پسند کیا وہ نقصان میں رہا اور جس نے اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کیے تو وہ کامیاب رہا۔
عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’اللہ نے دو طرح کے بندوں کو کثیر مال و دولت اور اولاد سے نوازا چناں چہ ان میں سے ایک گروپ کے بندوں سے وہ پوچھے گا ’’اے فلاں بن فلاں‘‘ وہ جواب دے گا: ہم حاضر ہیں اے ہمارے رب ہم حاضر ہیں۔ وہ پوچھے گا: کیا میں نے تمہیں مال و اولاد کی بہتات نہیں کی تھی؟ وہ کہے گا کیوں نہیں اے ہمارے رب! وہ پوچھے گا میں نے تمہیں جس مال و دولت سے نوازا تھا اسے تم نے کیا کیا؟ بندہ جواب دے گا اسے میں نے اپنے لڑکوں کے لیے چھوڑ دیا کہ مجھے ان کی محتاجی کا اندیشہ تھا۔ رب کہے گا، اگر تجھ کو حقیقت کا علم ہوجائے تو ہنسی کم آئے گی اور رونا زیادہ آئے گا تجھے جس چیز کا اندیشہ تھا میں نے ان پر وہ مصیبت نازل کردی۔
دوسرے کو پکارے گا اے فلاں بن فلاں، وہ جواب دے گا، حاضر ہوں اے میرے رب میں حاضر ہوں۔ وہ پوچھے گا کیا میں نے تمہیں کثیر مال و اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ وہ جواب دے گا، کیوں نہیں اے میرے رب! پوچھے گا، تونے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ جواب دے گا، میں نے اسے تیری اطاعت کی راہ میں خرچ کیا اور اپنے بچوں کو تیرے رحم و کرم اور بخشش کے سہارے چھوڑ دیا۔ خدا کہے گا سنو، اگر تجھے حقیقت کا علم ہوجائے تو خوب ہنسے گا اور رونا کم آئے گا، تونے جس چیز پر بھروسی کیا اس سے میں نے ان کو ہمکنار کر دیا۔‘‘ (طبرانی)
اسلام وصیت کرتا ہے کہ آدمی پہلے اپنے آپ کے ساتھ کرم کا معاملہ کرے پھر اپنے گھر والوں کے ساتھ اور پھر رشتہ داروں اور تمام انسانوں کے ساتھ۔
آدمی کا اپنے نفس کے ساتھ کرم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی جائز اور حلال ضرورتوں کو حلال طریقہ سے پورا کرے اور حرام طریقوں سے باز رہے، فقر و فاقہ کے مظاہر سے اپنے کو بچائے کہ اس سے معاشرہ میں آدمی کا وقار گر جاتا ہے اور ایک مسلمان کی عزت کا واجبی معیار برقرار نہیں رہ پاتا، لیکن یہ ساری چیزیں بخل اور فضول خرچی کے بین بین انجام پانی چاہیں مسلمانوں کو اس بات کی رخصت ہے کہ وہ اپنے پاس اس قدر مال کا ذخیرہ رکھیں جو ان کے مقاصد کو رو بہ کار لاسکیں اگر اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں تو وہ فقیر و محتاج ہے۔
ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک بدحال آدمی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور آپؐ اس وقت لوگوں کو صدقہ کرنے کا حکم دے رہے تھے۔ لوگوں نے صدقہ جمع کیا تو آپؐ نے اس شکستہ حال شخص کو دو کپڑے عنایت کیے، آپؐ نے دوبارہ صدقہ کرنے کی تلقین کی تو اس شخص نے اپنا ایک کپڑا پھینک دیا، نبیؐ نے غصہ میں کہا: ’’دیکھ رہے ہو اس بدحال شخص کو، میں نے اسے دو کپڑے لیے تھے۔ پھر مزید صدقہ کرنے کی لوگوں سے تلقین کی تو اس نے ایک کپڑا پھینک دیا؟ اور اسے خوب ڈانٹا۔ (ابوداؤد)
رسول اکرمؐ معاشرے سے فقر و فاقہ بدحالی اور عریانیت کے مناظر کو کھرچ دینا چاہتے تھے جب کہ کچھ لوگوں کو اس کی قطعی پروا نہیں ہوتی کہ وہ ننگے بدن اور ننگے پاؤں پھر رہے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اگر اپنی اس ہیئت کو اس کی تعلیمات کا مظہر قرار دیں تو یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ اسلام ہر شخص پر واجب قرار دیتا کہ ہے وہ اس قدر متاع حیات کے لیے جدوجہد کرے جو معاشرے میں اسے عزت و وقار سے سر اٹھانے کا اہل بنا سکے۔
جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی سونے کا ایک ڈلا لے کر حضورؐ کی خدمت میں آیا اور درخواست کی: اے اللہ کے رسول! مجھے یہ ایک کان سے ملا ہے اسے لے لیجئے، یہ صدقہ ہے۔ میرے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسے میں صدقہ کرسکوں، رسول اللہ نے اپنا چہرہ پھیر لیا تو وہ داہنے طرف سے آیا اور پھر درخواست کی۔ آپؐ نے اس بار بھی اپنا چہرہ موڑ لیا تو وہ بائیں کنارے سے آیا اور عرض پرداز ہوا لیکن اس دفعہ بھی متوجہ نہ ہوئے تو وہ پیچھے سے آیا اور وہی درخواست دہرائی تو نبیؐ نے اسے لے لیا اور پھینک کر اسے اس زور سے مارا کہ اگر وہ اسے لگ جاتا تو اس کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوتا۔
پھر آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں بعض لوگ اپنا پورا مال صدقہ کرنے کے لیے لے آتے ہیں۔ اس کے بعد لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرتے ہیں حالاں کہ بہترین صدقہ وہ ہوتا ہے جو ایک مالدار کی جانب سے آئے۔ (ابوداؤد)
آپ کی دولت کے اولین مستحق
خاندان کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کی معقول ضروریات کا پتہ لگائے اور نہایت فراخ دلی سے ان کی تکمیل کرے، دین داری یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی بیوی اور بچوں کو محتاجی و تنگی کی حالت میں چھوڑ کر اپنی دولت کو دوسرے مصارف میں خرچ کرے چاہے وہ کتنے ہی اہم ہوں۔ خاندانی رشتے توجہ کے زیادہ مستحق اور دوسروں کے مقابلہ میں ترجیح کے زیادہ حق دار ہیں۔
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’ایک دینار وہ ہوتا ہے جسے تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو اور ایک دینار وہ ہے جو تم غلام کو آزاد کرانے کے لیے خرچ کرتے ہو اور ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔ لیکن اس میں سب سے زیادہ اجر اس دینار پر ملے گا جو اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا گیا ہے۔ (مسلم)
’’اخلاص‘‘ کے بحث میں یہ حدیث ہے کہ ’’مسلمان خدا کی خوش نودی کے لیے جب اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے تو وہ بھی صدقہ میں شمار ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری)
اسلام اس واضح رہ نمائی کے ذریعہ چاہتا ہے کہ مصارف اور نفقات کا تعین معاشرے کے فوائد کے تناسب سے ہو کیوں کہ خاندان کسی بھی عظیم سوسائٹی کی بنیاد اور اس عمارت کی اولین اینٹ ہے اس لیے اس پر اولین توجہ صرف کرتا اور اس کے حقوق کی پوری ادائیگی کرنا ضروری ہے۔
آدمی کے فاضل مال سے فائدہ اٹھانے کے زیادہ حق دار اس کے اقرباء اور رشتہ دار ہیں۔ ان کا یہ حق ہے کہ سخاوت کا ہاتھ جب کبھی اٹھے پہلے ان کی طرف بڑھے، یہ چیز عقل سلیم میں بھی آتی ہے۔ اس لیے کہ اگر آدمی کے بغل میں محتاج اور ضرورت مند موجود ہوں تو انہیں نظر انداز کر کے دوسروں کی طرف بذل مال کا ہاتھ بڑھانا کہاں کی دانش مندی ہے، بلکہ اس سے محروم افراد کے دلوں میں کینہ اور حسد پرورش پاسکتا ہے اور ان کے اندر یہ احساس جاگ سکتا ہے کہ ان سے اعراض و بے نیازی انہیں تکلیف دینے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے برتی جاتی ہے۔ اگر یہ تکلیف و ایذاء دہی شعوری ہو تو صدقہ آدمی کے اوپر وبال جان بن جاتا ہے۔
حدیث میں ہے ’’اے محمدؐ کی امت! قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق لے کر بھیجا ہے اللہ ایسے آدمی کے صدقہ کو کبھی قبول نہیں کرسکتا، جس کے رشتہ دار اس کی صلہ رحمی کے محتاج ہوں اور وہ انہیں چھوڑ کر دوسروں میں اسے تقسیم کرتا پھرے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے آدمی کی طرف نگاہ نہ اٹھائے گا۔‘‘ (طبرانی)
عبد اللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینب ثقفیہؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اے گروہ خواتین! صدقہ کرو چاہے زیورات ہی بیچنے پڑیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ میں عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس آئی اور ان سے کہا آپ مفلس اور کم حیثیت کے آدمی ہیں اور ہمیں رسول اکرمؐ کے صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے تو آپ ان کے پاس جائیے اور پوچھئے۔ اگر یہ چیز صدقہ کا قائم مقام بن سکے تو ٹھیک ہے ورنہ میں آپ لوگوں کو چھوڑ کر دوسروں کو صدقہ دوں گی۔ عبد اللہ بن مسعود نے کہا جاؤ تم ہی پوچھ آؤ۔
وہ کہتی ہیں کہ میں رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں حاضری دینے نکلی تو راستے میں انصار کی ایک عورت مل گئی بالکل یہی پریشانی اسے بھی در پیش تھی۔ حضرت بلالؓ باہر نکلے تو میں نے ان سے کہا: ’’رسول اللہؐ کے پاس جائیے اور ان سے کہئے کہ دروازے پر دو عورتیں آپؐ سے پوچھ رہی ہیں کہ ان کے شوہروں کی کفالت اور ان کی گود میں یتیم بچوں کی پرورش کرنا صدقہ کی قائم مقامی کرسکتا ہے یا نہیں؟ اور آپؐ کو یہ نہ بتائیے گا کہ وہ عورتیں کون ہیں؟
وہ کہتی ہیں کہ بلالؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دریافت کیا تو آپؐ نے پوچھا وہ دونوں عورتیں کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: انصار کی ایک عورت ہے اور زینب ہیں۔ آپؐ نے دوبارہ پوچھا، کون سی زینب؟ جواب دیا: عبد اللہ بن مسعودؓ کی بیوی۔ آپؐ نے فرمایا، ان دونوں کو قرابت کا اجر بھی ملے گا اور صدقہ کا اجر بھی۔‘‘ (بخاری)
اللہ کے رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’مسکین پرخرچ کرنا صدقہ ہے اور رشتہ دار پر خرچ کرنا دوہرے صدقہ کا ثواب ہے ایک تو صدقہ ہے ہی دوسرے صلہ رحمی کا اجر۔‘‘ (ترمذی) lll