وہ دونوں بے جوڑ تھے، خاوند انتہائی خوبصورت تھا، لمباقد، گورا رنگ، گھنگھریالے بال اور اعلیٰ تعلیم یا فتہ۔ وہ مال دولت اور سماجی رتبے میں بھی بلند تھا۔ اس نے بیس سال پہلے چھوٹے پلا ٹس خرید کر گھر بناناشروع کیے تھے، یہ کاروبار چل پڑا اور یہ آہستہ آہستہ کروڑپتی ہوگیا، اس کے پاس شہر میں ہزار گز کا گھر تھا، اس کے پاس دو نئی مرسڈیز کاریں بھی تھیں، اور یہ اچھا خاصا سوشل اور ہنس مکھ بھی تھا۔ لیکن اس کی بیوی اس کے بر عکس تھی۔ یہ چھوٹے قد کی خاتون تھی، اس کا رنگ کالا تھا،اس کی تعلیم بھی واجبی تھی، اور یہ زیادہ سوشل بھی نہیں تھی لیکن اس کے باجود دونوں میں بلا کی رفاقت تھی۔ یہ دونوں سلوک محبت اور احساس کا شاندار مرکب تھے۔ یہ ایک مثالی جوڑا تھا اور خاندان کے لوگ ان کی مثال دیتے تھے۔ ان کی شادی کو ۲۵ سال ہوچکے تھے۔ ان ۲۵ برسوں میں ان کی کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ خاوند ملک کے اندر اور ملک کے باہر لے کر جاتاتھا، اور اس کے ساتھ شاپنگ بھی کرتاتھا۔ وہ دوستوں اور رشتے داروں کی تقریبات میں بھی اسے ساتھ لے کر جاتاتھا، یہ دونوں ریستورانوں میں کھانا بھی کھاتے تھے، اور صبح اکٹھے واک بھی کرتے تھے، ان کے تین بچے تھے اور یہ تینوں بھی لائق سلجھے ہوئے اور مہذب تھے۔ غرض یہ ایک مثالی گھرانہ تھا۔
ہم اگر دنیاداری کے نظریے سے دیکھیں تو اس گھرانے کو آئیڈیل نہیں ہونا چائیے کیونکہ خاوند اور بیوی کی ظاہری شخصیت میں زمین اور آسمان کا فرق تھا۔ ہم سب لوگ زندگی میں ’’گڈمیچ‘‘کی تلاش میں رہتے ہیں، بیوی کا قد ،رنگ، روپ، تعلیم اور گھرانہ مرد سے اچھا ہونا چاہیے، اگر اچھا نہیں تو کم از کم اس کے برا بر ہونا چائیے، سماج میں شاید ہی کوئی مرد ہوگا جو کم تر شخصیت کی حامل خواتین کو اپنا رفیق زندگی بنائے۔ سب کو گورا رنگ، لمباقد، دبلاپتلاجسم، لمبے بال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین چاہئیں، ہم اور ہمارے گھرکی خواتین بھی جب رشتے کی تلاش میں نکلتی ہیں تو یہ بھی حوروں جیسی لڑکیاں تلاش کرتی ہیں، ہماری کوشش ہوتی ہے ہم ایسی خاتون کے ساتھ شادیاں کریں جس کا چہرہ لوڈشیڈنگ میں چاندنی کی طرح چمکے اور لوگ اس کے حسن اور خوبصورتی سے جل جائیں لیکن یہ گھراور یہ صاحب اس سے بالکل مختلف تھے، ان کی پرسنیلیٹی اور ان کی بیوی کی پرسنیلیٹی میں زمین اور آسمان کا فرق تھا اور یہ اس کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے اور مجھے جب یہ معلوم ہوا کہ یہ محبت کی شادی تھی تو میری حیرت، پریشانی کو چھونے لگی۔ میں ایک دن ان کے گھر چلاگیا اور ان سے عرض کیا’’آپ اگر برا نہ مانیں تو میں آپ سے ایک سوال پوچھ لوں‘‘ انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا، قہقہ لگایا، اپنی بیگم کوآواز دی، ان کو بلایا اور سامنے بٹھاکر بولے ’’مجھے معلوم ہے آپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں‘‘ بیگم نے بھی مسکرانا شروع کردیا، میں شرمندہ ہوگیا، وہ دونوں بڑی دیر تک ہنستے رہے اور اس کے بعد وہ صاحب بولے ’’آپ دکانوں سے ہمیشہ ریپر اور کور دیکھ کر اشیاء خریدتے ہیں، آپ ٹیلی ویــژن، ریڈیو اور اخبارات کے اشتہارات پڑھ کر، بل بورڈاور سائن بورڈ دیکھ کر اشیاء خریدتے ہیں، لیکن ان مصنوعات کا اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب ان کا ریپر، ان کا کوریا ان کا ڈبہ اتر جاتاہے اور ہم انہیں ڈائننگ ٹیبل پر رکھ لیتے ہیں، انہیں منہ میں ڈالتے ہیں یا پھر انہیں اپنے استعمال میں لے آتے ہیں۔ ہمارے استمعال کے بعد کوالٹی کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے، اگر چیز کی کوالٹی اچھی ہوگی تو ہم اسے بار بار خریدیں گے، ہم اسے بار بار استعمال کریں گے ورنہ ہم اسے تبدیل کردیںگے یا پھر اسے اٹھا کر باہر پھینک دیںگے۔ ہماری شخصیت ہمارا رنگ، روپ، شکل، قد اور کپڑے بھی ایک ایسا ہی ریپر ہوتے ہیں، یہ ایک اشتہار ایک اعلان اور ایک کور ہوتے ہیں، ہم ایک دوسرے کا کور دیکھ کر ایک دوسرے کی شخصیت کا اعلان اور اشتہار دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، ہم ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں لیکن ہم جونہی ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں توہمارا ریپر اترجاتاہے اور ہماری کوالٹی کا امتحان شروع ہوجاتاہے، اس کے بعد ہماری عادتیں ہماری شخصیت بن جاتی ہیں، ہم کتنے مہذب ہیں، ہم کس قدر صاف ستھرے ہیں، ہم میں کس قدر برداشت ہے، ہمرے اعصاب کتنے مضبوط ہیں، ہم دوسرے کو کتنی اسپیس دیتے ہیں، ہم دوسرے کے جذبات کا کتنا خیال کرتے ہیں، ہم دوسرے کے آرام اور سکون کا کتنا خیال رکھتے ہیں، ہم کس قدر بے غرض، مخلص اور ایماندارہیں، ہم کتنے سچے ہیں، ہم دوسرے کے لیے کتنی قربانی دیتے ہیں، ہم کس قدر سمجھدار ہیں، ہم کس قدر کفایت شعار ہیں اور ہمارے اندر کتنی انتظامی صلاحیتیں ہیں، وغیرہ وغیرہ، پرسنیلیٹی کا ریپر اترنے کے بعد یہ ساری عادتیں اہم ہوجاتی ہیں‘‘۔
میں ان کی بات سنتا رہا، وہ بولے ’’انسان دوسرے انسان کے رنگ روپ اور کاٹھ کے ساتھ زندگی نہیں گزارتا، اس کی عادتوں اور اچھائیوں کے ساتھ گزارتاہے۔ آپ دنیا کے خوبصورت ترین مرد اور دلفریب ترین عورت ہی کیوں نہ ہوں لیکن آپ اگر چھوٹے ہیں، آپ لالچی، بے ایمان، فراڈیے اور ظالم ہیں، آپ کپ میں تھوک دیتے ہیں یا آپ واش روم کے بعد ہاتھ نہیں دھوتے تو آپ کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوجائے گا۔ میں نے زندگی میں بڑے بڑے آئیڈیل کپلز کی طلاق ہوتے بھی دیکھی ہے اور ایک دوسرے کو کورٹ اور کچہریوں میں گھسیٹتے ہوئے بھی دیکھا ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ خوبصورت اور پڑھے لکھے تھے لیکن ان کی عادتیں اچھی نہیں تھیں چنانچہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکے‘ ‘ ۔ وہ رکے، انہوں نے اپنی بیگم کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے ’’میری بیوی کی عادتیں بہت اچھی ہیں، اس نے میرے ساتھ آج تک جھوٹ نہیں بولا، اس نے کبھی فرمائش نہیں کی، ہماری شادی ہوئی تو میری آمدنی پانچ ہزار روپے تھی، اس نے اس میں بھی گزارا کرلیا اور یہ آج بھی سکھی زندگی گزار رہی ہے، اس نے مجھے کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا، مجھے غصہ آجائے تو یہ پورے اطمینان سے میری بات سنتی ہے اور کبھی اس بات کو طول نہیں دیتی، آپ کو پورے گھر میں کسی جگہ مٹی اور گردکا نشان نہیں ملے گا، آپ کو کسی جگہ بو نہیں آئے گی اور کسی جگہ کاغذ کا ٹکڑا دکھائی نہیں دے گا،پچھلے پچیس سال میں کبھی ایسا نہیں ہوا مجھے کپڑے استری کیے نہ ملے ہوں، میرے جوتے، جرابیں اور بنیانیں گندی ہوں یا مجھے صاف تولیہ نہ ملا ہو۔ مجھے ان ۲۵ برسوں میں کبھی کھانا ٹھنڈا نہیں ملا، میں نے کبھی اس کی اونچی آواز نہیں سنی، اس نے میرے تینوں بچوں کو مہذب ترین بچے بنایا، یہ انہیں اسکول بھی جھوڑکر آتی تھی اور واپس بھی لاتی تھی اور انہیں ہوم ورک بھی کراتی تھی، ان ۲۵ برسوں میں اس نے کوئی فضول خرچی نہیں کی اور اس نے جان بوجھ کر کوئی نقصان نہیں کیا۔ میں نے ان ۲۵ برسوں میں اسے کبھی پسینے میں نہیں دیکھا، اسے کبھی گندا نہیں پایا اور کبھی ایسا نہیں ہواکہ میں نے ریموٹ کنٹرول کے لیے سائیڈٹیبل پر ہاتھ مارا ہو اور مجھے وہاں ریموٹ کنٹرول نہ ملا ہو اور میں کبھی باتھ روم میں گیا ہوں اور وہاں پانی نہ ہو یا ہماری سنک کی ٹونٹی لیک کررہی ہو یا میں شام کو گھرآئوں اور گلی میں کھڑے ہوکر ہارن دیتا رہوں یا گھنٹی بجتا رہوں اور کوئی دروازہ نہ کھولے یا مجھے گھرمیں کوئی دستاویز یا کاغذ تلاش کرنا پڑے یا مجھے وقت پر پینسل نہ ملے ۔ آپ یقین کیجیے اس عورت کی وجہ سے میری زندگی میں سکون ہی سکون، آرام ہی آرام اور آسائش ہی آسائش ہے چناچہ میں اس سے خوش ہوں، یہ مجھ سے خوش ہے اور ہماری زندگی کی گاڑی اطمینان سے چل رہی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا ’’کیا آپ کی کبھی لڑائی نہیں ہوئی‘‘ انہوں نے قہقہ لگا کر جواب دیا‘‘ ۔وہ رکے اور بولے انسان دوسرے انسانوں کی عادتوں کی وجہ سے ان کے قریب ہوتا ہے، ہماری اگر عادتیں اچھی ہوں گی تو ہم طویل عرصے تک ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہیں گے اور اگر ہم اچھی عادتوں کے مالک نہیں ہیں تو ہم خواہ کتنے ہی وجیہہ اور خوبصورت کیوں نہ ہوں ہم دوسروں کے ساتھ نہیں چل سکیں گے لیکن ہم اس حقیقت کو بھلا کر ایک دوسرے کے ریپر کو پر سنیلٹی سمجھ بیٹھتے ہیں اور جب رنگ روپ کا ریپر اتر جاتا ہے تو ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں‘‘۔
——