ایک شخص کو تسخیرِ جن کا بہت شوق تھا اور وہ تسخیر کا عمل سیکھنا چاہتا تھا۔ بہت دنوں بعد اسے ایک عامل ملا۔ عامل نے بڑی خوشامد اور خدمت کے بعد اسے یہ عمل سکھایا۔ سنا ہے کہ عمل بہت سخت ہوتا ہے اور اکثر اس میںجان جانے کا خطرہ رہتا ہے مگر اس شخص نے شوق کی دھن میں یہ سب تکلیفیں برداشت کیں اور جن تسخیر کرکے رہا۔ جن دست بستہ حاضر ہوا اور کہنے لگا: ’’فرمائیے! کیا ارشاد ہے؟ جو حکم ہوگا، بسرو چشم بجالاؤں گا۔‘‘ عامل صاحب بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے اسے اپنی دانست میں بڑے مشکل سے مشکل کام بتائیے۔ جن نے وہ جھٹ پٹ کردیے اور مزید کام لینے کے لیے حاضر ہوگیا۔ کہتے ہیں جن کبھی نچلا نہیں بیٹھتا، اس کے لیے ہر وقت کچھ نہ کچھ کام چاہیے۔ اگر کام نہ دیا جائے تو وہ ستانا شروع کردیتا ہے۔ اور شرارتیں کرنے لگتا ہے، لہٰذا عامل صاحب اسے کچھ نہ کچھ کام دیتے رہے مگر اس قدر کام کہاں سے لاتے؟ وہ تو ہر وقت ہل من مزید کی صدا دیتا تھا۔ اب جن نے انھیں ستانا شروع کردیا۔ وہ بہت پریشان ہوئے لیکن آدمی تھے ذہین۔ انھیں تدبیر بہت خوب سوجھی۔ انھوں نے جن سے کہا کہ ہمارے صحن میں جو املی کا درخت ہے اس پر چڑھو اور اترو، اترو اور چڑھو۔ پھر چڑھو اور اترو۔ اترو اور چڑھو۔ جب تک ہم حکم نہ دیں، برابر چڑھتے اترتے رہو۔ کچھ دن تو جن چڑھتا اترتا رہا لیکن کب تک؟ آخر اس قدر عاجز ہوا کہ چیخ اٹھا، عامل صاحب کی دہائی دینے لگا کہ مجھے اس عذاب سے بچائیے۔ آپ جو کہیں گے، وہی کروں گا۔ عامل صاحب نے حکم دیا کہ اچھا چڑھنا اترنا بند کردو۔ جب ہم کسی اہم کام کا حکم دیں تو اسے کرو ورنہ چپ چاپ بیٹھے رہو۔ جن نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ بے کار بیٹھے بیٹھے وہ اکتا جاتا تو اسے شرارت تو سوجھتی مگر معاً املی کے درخت کا خیال آتا اور وہ وہیں دبک کر بیٹھ جاتا۔ اب بے کاری کی وجہ سے جن صاحب کا یہ حال تھا کہ کونے میں بیٹھے اونگھا کرتے اور منہ پر مکھیاں بھنکتی رہتیں۔
یہ قصہ فرضی سہی لیکن نہایت سبق آموز ہے۔ اول یہ کہ کام کی یک رنگی اور یکسانی ایسی بلائے بدہے کہ جن جیسی ہستی جس میں توانائی اور مستعدی کوٹ کوٹ کر بھری ہے، وہ بھی عاجز آجاتی ہے۔ دوسرے، بے کاری انسان کے قوا مضمحل اور بے کار کردیتی ہے، شوق اور امنگ کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ توانائی آدمی کو نچلا نہیں بیٹھنے دیتی۔ اس کا اقتضا ہے کہ کچھ نہ کچھ کیا جائے۔ اب یہ انسان کے تمیز اور شعور پر ہے کہ کون سا ایسا کام کرے جو ممد حیات ہو۔ اگر وہ املی کے پیڑ پر چرھتا اترتا رہا تو سمجھو، کھوگیا۔
——