رمضان کے روزے فرض ہیں اور بغیر کسی شرعی عذر کے ان کے چھوڑ دینے پر گناہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر شرعی عذر کی بنا پر رمضان کے روزے کوئی نہ رکھ پائے تو اللہ تعالیٰ نے قضا کی رخصت دی ہے۔
اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور اگر کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں روزوںکی گنتی پوری کرلے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۵)
خواتین کے قدرتی اسباب سے کچھ روزے ہر ماہ چھوٹ ہی جاتے ہیں۔ اور اکثر خواتین لاپرواہی میں قضا بھی نہیں کرتیں، واضح ہوکہ قضا روزے ایک قرض کی طرح ہیں اوران کی ادائیگی لازم ہے۔
قضا روزے رکھنے کے لیے اگرچہ کوئی متعین وقت نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ فرض روزوں کی قضا آئندہ رمضان سے پہلے کسی بھی وقت رکھ لی جائے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھ پر رمضان کے روزے باقی رہتے اور میں قضا روزے شعبان سے پہلے رکھنے کا موقع نہ پاتی۔ (بخاری، مسلم)
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ قضا روزے سال میں کسی بھی وقت مکمل کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم جتنی جلدی ادا کرسکیں کرلینا چاہے، تاکہ اللہ کا قرض ہمارے ذمہ نہ رہے۔
کیسے رکھیں!!
قرض روزے کی قضا متفرق طور پر اور مسلسل دونوں طرح جائز ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ قضا روزے رکھنے میں الگ الگ روزے رکھے جائیں تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ اللہ کا ارشاد ہے دوسرے دنوں میں تعداد پوری کی جائے۔ (بخاری)
میت کے قضا روزے:
مرنے والے کے قضا روزے اس کے وارث کو رکھنے چاہیے۔
حضرت عائشہؓ نے کہا کہ آپؐ نے فرمایا: جو شخص فوت ہوجائے اور اس پر فرض روزے باقی ہوں تو اس کے وارث اس کی طرف سے روزے رکھیں۔(بخاری)
لیکن اگر وارث میں بھی ہمت نہ ہو تو فدیہ دے دیا جائے۔
نفلی روزے:
نفلی روزے کی قضا دینا ضروری نہیں کیوں کہ جب ام ہانیؓ نے اپنا نفلی روزہ توڑ دیا تھا تو آپؐ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر نذر کا روزہ ہو یا قضا روزہ بھی توڑ دے تو اس کی قضا دینی ہوگی۔lll