عن ابی ایوب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ لا یحل لمسلم ان یہجر اخاہ فوق ثلاث لیال یلتقان۔ قیعرض ہذا ویعرض ہذا۔ و خیرہما الذی یبدا بالسلام۔
’’حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے جس سے ملتا جلتا رہا ہو تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ اس طرح کہ وہ اسے دیکھ کر بچ نکلتا ہو اور وہ اسے دیکھ کر۔ اور ان میںبہتر وہ ہے جو سلام سے پہل کرے۔‘‘
ایسا اس وجہ سے ہے کہ اسلام ایسا معاشرہ بنانا چاہتا ہے جس کے لوگ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور ایک دوسرے کی غم گساری و مدد کرنے والے ہوں۔ مستقل طور پر قطع تعلق اسلام کی اس اسپرٹ کے بھی خلاف ہے اور ایک صحت مند معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ۔
ایسا ہوسکتا ہے کہ دو مومن بھائی، بہنیں کسی وجہ سے ایک دوسرے سے ناراض ہوجائیں اور بات چیت بند کردیں، مگر اس کا سلسلہ تین روز سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور پھر دونوں میں بہترین آدمی وہ ہے جو اس قطع تعلق کی حالت میں اپنے دوسرے ساتھی بھائی یا بہن سے گفتگو میں پہل کرے اور سلام سے اس کی ابتدا کرے۔ جو شخص ناراضگی کے باوجود اسلام میں پہل کرتا ہے وہ واقعی قابلِ تعریف ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے بہترین آدمی قرار دیا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو اپنے ملنے جلنے والوں یا رشتہ داروں سے ایسا قطع تعلق کرلیتے ہیں کہ آمنا سامنا ہوجانے پر دونوں ایک دوسرے سے کترا کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رہے، جس نے ایسا کیا اور وہ اسی حالت میں مرگیا تو وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘
دوسری جگہ آپ نے خوش خبری دی: سلام پھیلاؤ، غریبوں کو کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو، اگر تم ایسا کروگے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔