قطع تعلق… گناہِ کبیرہ

فلزہ ایمان

قطع تعلق اور پھر ناراضی کو بہت سے لوگ مشکلات و مسائل کا حل بلکہ آسان ترین حل سمجھتے ہیں۔ بالخصوص خواتین حقائق سے فرار کے لیے قطع تعلق اور ناراضی کو اپنا مؤثر ہتھیار سمجھتی ہیں۔ اپنی نادانی سے وہ اسے اپنا حامی و مددگار جانتی ہیں، حالانکہ ناراضی سب سے زیادہ نقصان دہ چیز ہے۔ ساس، بہو، نند، بھاوج اور کہیں پڑوسن… یہ وہ رشتے ہیں جہاں اکثر مخاصمت اور ناراضی دیکھنے میں آتی ہے، جس کے نتیجے میں ان رشتوں کے درمیان قطع تعلق ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ کئی عورتیں اپنے ماں باپ سے بھی تعلقات ختم کرلیتی ہیں۔ جب ان عورتوں سے ان کا سبب پوچھا جاتا ہے تو وہ جواب دیتی ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ نہیں فرمایا: ’’اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ۔‘‘ (مزمل:۱۰)
کیا یہ سارے عزیز واقارب، رشتہ دار اور پڑوسی کافر ہیں؟ کیوں کہ اس آیت میں تو کافروں سے الگ ہوجانے کا حکم ہے، اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ تو صلۂ رحمی کی تاکید کی گئی ہے۔جب ان خواتین سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ سارے لوگ کافر ہیں؟ تو ان کا جواب نفی میں ہوتا ہے۔ جب آپ بھی مسلمان ہیں، یہ بھی مسلمان ہیں تو پھر ان سے قطع تعلق کیوں؟ جبکہ اسلام ہمیں رشتوں کو جوڑنے کی تعلیم دیتا ہے۔ نکاح جو اسلام میں رشتوں کی بنیاد ہے اسی کی تذکیر سے مکمل ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ ’’لوگو! اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس سے تم رشتوں کا واسطہ دے کر اپنے حقوق طلب کرتے ہو۔‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے رشتوں کو جوڑنے کی تلقین کی۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا: ’’جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں۔‘‘ ایک اور جگہ آپ نے لوگوں کو بتایا: ’’جوڑنے والا وہ نہیں کہ لوگ (رشتہ دار) اس سے جڑیں تو وہ بھی ان سے جڑ جائے۔ بلکہ رشتوں کو جوڑنے والا تو اصل میں وہ ہے جس سے لوگ رشتے ناطے توڑیں اور وہ پھر بھی ان سے رشتے ناطے جوڑے رہے۔‘‘
یہ حقیقت ہر مسلمان پر واضح ہے کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے قطع تعلق کرلیتا ہے، چاہے وہ رشتے کے اعتبار سے اس سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، تو اس کا کوئی عمل بھی آسمان کی بلندیوں کی طرف نہیں جانے پاتا جب تک کہ تعلقات بحال نہ ہوں، ناراضی ختم نہ ہوجائے۔
جھگڑا ایک ایسا تیر ہے، جس کا ہدف کوئی دشمن نہیں ہوتا بلکہ ہم خود ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے نیک اعمال قبول نہ ہوں تو ایسی عبادت کا کیا فائدہ؟ کچھ خواتین کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ وہ ناراضی اور قطع تعلق کے ذریعے امن و امان میں آجاتی ہیں، مشکلات سے بچ جاتی ہیں، ان کا کسی سے تصادم ہوتا ہے نہ جھگڑا۔ یہ مؤقف سراسر غلط ہے، اس لیے کہ ہم اپنے قریبی رشتہ داروں کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟ لڑنا جھگڑنا، قطع تعلق اور ناراضی تو مسلم سماج کے لیے انتہائی ضرر رساں ہے۔ اس سے محبتیں ختم ہوجاتی ہیں،چاہتیںباقی نہیں رہتیں، الفت ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ حقائق سے نظریں چرا کر بدبختی کو خوش بختی، شقاوت کو سعادت اور حرماں نصیبی اور محرومی کو کامرانی خیال کرتے ہیں۔
حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں: ’’ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے، ہم نے دیکھا کہ آپؐ یکایک ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپؐ کے سامنے کے دانت نظر آنے لگے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے آپ سے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ پر میرے ماں باپ قربان، آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ میری امت کے دو آدمی رب العزت کے سامنے دو زانو بیٹھے ہیں، ان میں سے ایک نے کہا: میرے رب میرے بھائی سے میرا حق دلوائیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم اپنے بھائی کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو؟ اس کے پاس تو اب کوئی نیکی باقی نہیں بچی۔ وہ شخص بولا: میرے رب! اگر اس کے پاس کوئی نیکی نہیں رہی تو وہ میرے گناہوں کا بوجھ اٹھائے( یہ کہتے ہوئے) رسول اللہ ﷺ رونے لگے اور آپؐ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے، اور فرمایا: وہ دن بڑا ہی سخت ہوگا، لوگ اس کے بھی محتاج ہوں گے کہ کسی طرح ان کے گناہ ہٹالیے جائیں۔
پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مانگنے والے سے کہا: ذرا اپنی نگاہ اوپر اٹھاؤ، اور دیکھو۔ اس نے اوپر دیکھا تو بولا: سونے کے شہر اور سونے کے محل ہیں، موتیوں سے مرصع ہیں، یہ کس نبی کے لیے ہیں؟ کس صدیق کے لیے ہیں؟ کس شہید کے لیے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو اس کی قیمت ادا کرے (اس کے لیے)وہ بولا: میرے رب! اس کی قیمت بھلا کون ادا کرسکتا ہے؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو دے سکتا ہے۔اس نے پوچھا: کیسے؟فرمایا: اپنے بھائی کو معاف کرکے۔وہ بولا: میرے رب! میں نے اس کو معاف کردیا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ لے اور اسے جنت میں لے جا۔ پھر اس موقع پر آپﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو، اپنے درمیان صلح صفائی رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے۔
دنیاوی زندگی رشتوں ناطوں اور تعلقات کو کاٹنا آسان اور جوڑنا اور جوڑے رکھنا دشوار اور مشکل ہے۔ یہاں انسانوں کے درمیان اعتماد کی فضا بنانے اور رشتوں کو مضبوط کرنے میں عمر لگ جاتی ہے، جبکہ توڑنے کے لیے ایک تلخ جملہ یا ایک زخمی کردینے والا لفظ کافی ہوتا ہے۔ اور یہ کسی کی بھی جانب سے ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ایک فریق محض ایک تلخ جملے یا ایک قاتل لفظ کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے کٹ جائے مگر اہلِ ایمان کو اس بات کی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عفو و درگزر سے کام لیں اوررشتوں کو توڑنے سے گریز کریں۔ اور یہ کام انتہائی صبر و تحمل اور اخلاص و للہیت کا جذبہ چاہتا ہے اور ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام وسیع القلب اور اللہ سے ڈرنے والے ہی کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ کے رسولﷺ نے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’سلام کو عام اور (مسکینوں کو) کھانا کھلاؤ، ایسے وقت میں نماز کا اہتمام کرو جب لوگ سوتے ہوں اور رشتوں کو جوڑو۔ (اگر تم ایسا کرو گے تو) جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤگے۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں