علم اور قلم کا رشتہ جسم اور روح کا رشتہ ہے۔ اللہ نے قلم کے ذریعہ ہی علم سکھایا۔
علم الانسان بالقلم۔
امتحان میں تو قلم کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہر طالب علم چاہتا ہے جہاں اس کی تیاری خوب سے خوب تر ہو وہیں اس کے پاس ایک اچھا اور معقول قلم بھی ہو تاکہ وہ امتحان کی کاپی پر اپنی قابلیت کے کما حقہ جوہر دکھاسکے۔ ایسے میں اگر اس کو ایک اچھا سا قلم مل جائے تو حوصلہ اور بڑھ جاتا ہے۔ اور گیارہ مارچ کو ایسا ہی ہوا۔ ہم نے سوچا کہ کل انٹر ہائی اسکول کے امتحان شروع ہورہے ہیں کیوں نہ اپنے طلبہ وطالبات کو قلم کا تحفہ دیا جائے … اور پھر ایسا ہی کیا۔ ایک جگہ پہنچے تو بچی اپنی ماں سے ضد کررہی تھی۔ کل میرا پہلا پرچہ ہے اور میرے پاس بس ایسا ہی قلم ہے۔ ماں کہہ رہی تھی: بیٹی! اس میں نیا سکّہ (ریفل) ڈلوالے۔ اتنے میں ہم نے بچی کی طرف قلم بڑھادیا۔ اس وقت ماں بیٹی کی حیرت کس عروج پر پائی، بیاں سے باہر ہے۔ دو یتیم بہنیں (انٹر کلاس) قلم لے کر بس چپ رہ گئیں۔ کچھ نہیں بولیں۔ ایک دم ہمیں آنکھوں میں نمی کا احساس ہوگیا۔ انھیں یقینا اپنے ابّا یاد آگئے ہوں گے۔ کہ وہ ہمیں قلم لاکر دیتے۔
ایک بچی جو اپنی ماں کے ساتھ خالی وقت میں چارپائی کرسی بنوانے میں لگی رہتی ہے، قلم ہاتھ میں لے کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ اتنی بڑی عنایت، اتنی بڑی مہربانی۔ دو بچیوں کی ماں نے اپنی بچیوں کے ہاتھ میں قلم کا تحفہ دیکھ کر اس قدر خوش ہوئی گویا اس کی بچیوں نے کامیابی کا پروانہ حاصل کرلیا ہے۔ ایک باپ نے اپنے بیٹے کا قلم خود لیا (بیٹا اس وقت گھر پر نہیں تھا) قلم لے کر وہ حیرت سے منہ تک رہا تھا، کیا ہمارا معاشرہ الحمدللہ اتنا نرم ہوگیا ہے کہ ایک دوسرے کا بھلا چاہنے لگا؟ ایک صاحب جو کبھی ہم سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے تھے، ہمیشہ اکھڑے اکھڑے رہتے تھے، وہ تو نرم ہوئے ہی ان کی بچی مارے خوشی کے اچھل پڑی۔ بہت خوشی ہوئی جیسے پاس ہونے کی خبر مل گئی ہو۔
یہ تھیں اک ’’قلم‘‘ کی کرشمہ سازیاں، لیکن یہ سب میرے رسول ؐ کا کرم اور آپ کی تعلیم و تاکید ہی ہے۔ آپ نے کتنا اچھا فرمایا ہے:
’’آپس میں تحفے دیا کرو۔، اس سے محبت بڑھتی ہے۔‘‘
م