اکثر ہمارے کانوں میں لوگوں کا یہ جملہ پڑتاہے کہ بھائی ہم نے تو بہت نصیحت کی لیکن فلاں صاحب باز نہیں آتے۔ یا پتہ نہیں کیوں ان پر ہماری نصیحت اثر نہیں کرتی۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مقام فکر یہ ہے کہ لوگ نیک نیتی سے کی گئی نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے؟ اس کا جواب بہت آسان ہے انسان کو نصیحت کرنے سے پہلے خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے کہ آیا وہ خود اپنی نصیحت پر عمل کررہا ہے یا نہیں بقول شاعر:
کہا اس کا ہرگز نہ مانے گی دنیا
جو اپنی نصیحت پہ عامل نہ ہوگا
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی کی نصیحت پر عمل کیا ہی نہ جاتا ہو۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے آج بھی ایسے انسان موجود ہیں جن کی نصیحتوں کا لوگوں پر خاطر خواہ اثر ہوتا ہے اور یہ اثر ان کے اپنے اعمال کی پاکیزگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ان کے قول وعمل میں تضاد نہیں ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ خود احتسابی کی کیفیت میں ہوتے ہیں ، وہ خالص اللہ کی رضا کے لیے ہر کام کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بخود ان کی زبان میں تاثیر پیدا کردیتا ہے۔
ہم اپنے گھروں میں ہی اس کا مشاہدہ بخوبی کرسکتے ہیں مثلاً ایک ماں اپنی اولاد کو نصیحت کرتی ہے کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے، لڑائی جھگڑا کرنا بری بات ہے، لیکن خود ہی گھر میں اپنے شوہر سے پیسوں کے معاملوں میں جھوٹ بولتی ہے یا چھوٹی چھوٹی باتوں پر شوہر سے جھگڑنے لگتی ہے تو سوچئے ان باتوں کا بچوں پر کیا اثر ہوگا؟ وہ اپنی ماں کی شخصیت کا مذاق بنالیں گے اور کہیں گے خود تو جھوٹ بولتی ہیں اور ہمیں نصیحت کرتی ہیں۔ یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اپنے ایمان کو بیچ دیتے ہیں اور دھڑلے سے نصیحت کرتے ہیں اس وقت ہم یہ بالکل نہیں سوچتے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں اس کا ہماری اپنی زندگی سے کتنا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو خاص طور پر اس جانب متوجہ کیا ہے ۔ ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم کہو اور کرو نہیں۔‘‘
قول و عمل کا یہ تضاد نصیحت کی تاثیر کو ختم کردیتا ہے۔ اس کا اندازہ حقیقت اور بزرگوں کی نصیحت میں پڑھ کر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت اپنے بچے کو لے کر امام ابوحنیفہؒ کے پاس آئی اور کہا کہ امام صاحب میرا یہ بیٹا گڑ بہت زیادہ کھاتا ہے ، اس سے اس کے دانت خراب ہوگئے ہیں۔ بہت منع کرتی ہوں لیکن یہ میری بات نہیں مانتا۔ براہِ کرم آپ اسے نصیحت کریں کہ یہ گڑ کھانا چھوڑ دے۔ امام صاحب نے فرمایا جاؤ ایک ہفتہ بعد آنا۔ اس عورت کو حیرت ہوئی مگر وہ ایک ہفتہ کے بعد پھر آئی اور اپنے بیٹے کو نصیحت کرنے کی درخواست کی۔ امام صاحب نے اس کے بیٹے کو مخاطب کرکے گڑ نہ کھانے کی ہدایت کی۔ اور حیرت انگیز طور پر اس نے آپ کی بات مان لی۔ وہعورت امام صاحب کے پاس آئی اور بتایا کہ میرے بیٹے نے گڑ کھانا چھوڑ دیا ہے۔ پھر اس نے امام صاحب سے پوچھا کہ آخر انھوں نے ایک ہفتہ بعد کیوں بلا یا تھا جبکہ اگر آپ چاہتے تو اسی وقت وہ بات کہہ سکتے تھے جو ایک ہفتہ بعد کہی؟ آپ نے فرمایا: پہلے میں خود گڑ کھاتا تھا۔ اس وقت اگر میں بچہ کو نصیحت گڑ نہ کھانے کی کرتا تو اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ اس دوران میں نے خود گڑ کھانا چھوڑ دیا اور پھر بچے کو گڑ نہ کھانے کی نصیحت کی۔
انسان کو ہمیشہ اپنا احتساب کرتے رہنا چاہیے اور اپنے عیبوں پر نظر کرتے ہوئے دوسروں کو کچھ کہنا چاہیے۔ ناصح کو چند چیزوں کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے:
٭ وہ اپنے عیبوں کو پہلے جانچ اور دیکھ لے اور قول و عمل کے تضاد سے خود کو چھڑائے۔
٭ نصیحت اس انداز سے کرے کہ سامع کو برا نہ لگے، بہ صورت دیگر ہوسکتا ہے کہ مقابل بدظن ہوکر نصیحت سننا ہی ترک کردے۔
٭ اور خود اس بات کی تسلی کرلے کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات پر کہاں تک اور کس حد تک عمل کررہا ہے۔ اس لیے کہ عمل ہی وہ معیار ہے جو سامع کو اس کی نصیحت سننے پر آمادہ کرتا اور نصیحت میں تاثیر پیدا کرتا ہے۔
بہر کیف انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت کو آئینہ کی طرح چمکالے اور اپنے وجود کو اس برتن کی طرح بنالے جسے رگڑ کر مانجھ کر چمکادیا گیا ہو اور اس میں دودھ کے پھٹنے کا اندیشہ نہ ہو۔ ——