الحمد للہ، ہم مسلمان ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے ان کے وہ امتی ہیں، جو ہمیشہ بہتر سے بہترین عمل کرنے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے انفرادی رویے سے ہی ہمارے اجتماعی عمل کی داغ بیل پڑتی ہے۔
مگر آج ہمیں کچھ معاشرتی رویوں کی بنا پر یہ دیکھنے اور جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان ’’قول و فعل‘‘ میں کوئی نمایاں یا قابل گرفت تضاد تو نہیں پایا جاتا؟ ہم جو کہتے ہیں اس پر کس حد تک عمل کرتے ہیں یا دوسرے معنوں میں اپنے کہے کا کتنا پاس رکھتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے:
’’اللہ اس بات سے سخت بے زار ہے کہ ایسی بات کہو، جو کرو نہیں۔‘‘ (الصف:۳)
اسی طرح ہم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو ہمیں آپ کی زندگی کا ہر گوشہ صاف و شفاف رویوں کی اعلی مثال نظر آتا ہے۔ آپ دنیا میں ’’معلم اخلاق‘‘ بنا کر بھیجے گئے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شخصیت کے اس وصف سے مزین تھی۔ آپ کو اسی خوبی کی وجہ سے دوسرے اصلاح معاشرہ کرنے والوںپر نمایاں فوقیت حاصل ہے کہ آپ کی کی گئی نصیحت کانوں کے ذریعے سے ہی نہیں بلکہ آنکھوں کے راستے بھی دل میں گھر کر گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کیا، اس پر عمل کر کے دکھایا۔ جس بات کی نصیحت و تلقین فرمائی آپ پہلے سے ہی اس پر عمل پیرا دکھائی دیے۔ ہمیں ایسی احادیث مبارکہ بھی ملتی ہیں جو ہمیں یہ باور کراتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک لوگوں کو کوئی نصیحت نہیں کی یا کوئی کام کرنے کو نہیں کہا، جب تک کہ خود اس پر عمل کر کے نہ دکھایا۔ ایسا معاملہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے احکامات مسلمانوں پر نافذ العمل کرتے وقت پیش آیا۔ آج ہم جو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور بجا طور پر اس بات پر فخر و انبساط کا تشکر بھرا اظہار بھی کرتے ہیں تو آج ہم مسلمانوں میں سے یہ معاملاتی صفت کیوں ناپید ہوتی جا رہی ہے؟
مثل مشہور ہے کہ ’’دوسروں کو نصیحت، خود کو فضیحت‘‘ آج ہمارے معاشرے پر یہ مثل سو فی صدی صادق ہوتی نظر آرہی ہے، کیوں کہ ہم جو نصیحت دوسروں کو کرتے ہیں اس پر خود شاذ و نادر ہی عمل کرتے ہیں۔
قول و فعل کے تضاد کا سب سے بڑا اور انتہائی سریع الاثر نقصان اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں اور معماران مستقبل کے ساتھ بھی اس رویے سے نہیں چوکتے۔ بچے جو تعمیر شخصیت و تربیت کردار کے انتہائی نازک مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں، ان پر اس رویے کا اثر کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟ ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ سوچتے ہیں؟ ایسے معاشرتی ماحول و فضا میں پروان چڑھنے والے نونہالوں سے ہم کسی اسلامی یا انسانی شخصیت و کردار کی امید رکھ سکتے ہیں؟ ہمارا کل کا مستقبل ہمیں اس رویے کا بدلہ کیا دے گا؟ ہمیں اس پہلو پر ضرور سوچنا چاہیے بلکہ بحیثیت مسلمان انتہائی درد مندی اور دل سوزی سے غور و فکر کرنا چاہیے۔ قول و فعل کا یہ تضاد دراصل جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں فرما دیا کہ ’’مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔‘‘
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے دنیا میں ایک اعلیٰ اور عمدہ زندگی کا عملی نمونہ پیش کرنے تشریف لائے تھے۔زندگی کے ہر تاریک گوشے کو اپنے عمل کی روشنی سے تاب ناک بنانے آئے تھے۔ پھر ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قول و فعل کے اس تضاد کو ختم کرنا ناممکن ہے؟ اگر بات آج کے بگڑے ہوئے معاشرے پر کی جائے تو بھی ایک باعمل و باکردار مسلمان کو یہ کہنا زیب نہیں دیتا۔ خدانخواستہ، کیا ہمارا معاشرہ امت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے اکھڑ و جاہل عرب معاشرے سے بھی گیا گزرا ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ہم یہ کم علمی اور کم ہمتی والی بات کس طرح اور کیوں کر کرسکتے ہیں؟
یہ معاشرتی بیماری جو روز بروز کچھ اس رفتار سے بڑھ رہی ہے کہ اس کے ناسور بننے کے واضح آثار دکھائی دے رہے ہیں اور زندگی کا ہر گوشہ اس کی لپیٹ میں آتا جا رہا ہے۔ اس تیزی سے بڑھتی بیماری سے چھٹکارا پانا۔ ضروری و ناگزیر ہے۔ ہر فرد واحد کا ’’انفرادی عمل‘‘ ہی اس کا زود اثر علاج ہے۔ یہی انفرادی کوشش و تدبیر ان شاء اللہ ایک دن پورے معاشرے کی اجتماعی صحت یابی کا موجب بن جائے گی، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے شب و روز کا جائزہ لیتے ہوئے عملی طور پر اور شعوری کوششوں کے ساتھ اس تضاد کو ختم کرنے کے لیے سرگرداں ہوجائیں اور اس ضمن میں چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی کو بھی قابل گرفت سمجھیں بلکہ اسے اپنی کڑی اور خود احتسابی کی بھٹی سے گزار کر اس کا سد باب کرنے کی کوشش کریں۔lll