رسول مقبول ﷺ نے قربِ قیامت کے بارے میں جو پیشین گوئیاں فرمائی ہیں اب وہ ظاہر ہونے لگی ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب قیامت قریب ہوگی تو دنیا معصیت سے بھر جائے گی اور روئے زمین پر اس قدر ظلم اور فساد برپا ہوں گے کہ انسان ز ندگی سے بیزار ہوجائے گا، چنانچہ اس بارے میں صحیح حدیث ہے ۔
ابی ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! دنیا کے ختم ہونے سے قبل ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی قبر کے پاس سے گزرے گا اور قبر کو حسرت سے دیکھ کر کہے گا کہ کاش میں اس شخص کی جگہ ہوتا جو قبر میں ہے۔‘‘ (مسلم)
یعنی انسان ظلم و زیادتی اور فتنہ و فساد سے اس قدر تنگ آجائے گا کہ مرنے کی تمنا کرنے لگے گا ، اسی طرح ایک دوسری حدیث میں گناہ اور معصیت کو قربِ قیامت کی علامت فرمایا گیا ہے۔
اب آپ ذرا دنیا میں پھیلے قتل خون اور دہشت گردی و بم دھماکوں پر نظر ڈالیے، سیکڑوں بے گناہ جانیں روزانہ ضائع ہورہی ہیں۔ بعض خطوں میں تو انسان نہ گھر میں محفوظ ہے اور نہ گھر کے باہر۔ اب ایسے میں انسان یہ نہ سوچے کہ اس بے یقینی اور مظلومیت کی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ تو پھر اور کیا ہوگا۔
’’انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ قیامت کی علامتیں یہ ہیں کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت زیادہ ہوگی، زنا کثرت سے ہوگا، شراب بہت پی جائے گی۔‘‘
یہ علامت بھی اب دنیا کے ہر سماج میں بکثرت نظر آتی ہے۔ کہنے کو تو یہ دورعلم و ہنر کا دور ہے، مگر حقیقت میں جہالت کے گھپ اندھیرے انسانوں کے ذہن و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ اس کا علم ہی اس کے لیے تباہیوں کا سامان کررہا ہے۔ ایٹم بم کی ایجاد، نئی نئی ایجادات اور بے شمار چیزوں نے پوری انسانی زندگی کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں۔ ہوا میں زہر، پانی میں زہر، جسے لوگ پولیوشن کا نام دیتے ہیں۔ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہی تو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس تمام علم و ہنر کے باوجود انسان سے انسانیت اور علم کے ذریعے حاصل ہونے والے اخلاق و کردار اور اقدار کا دور دور تک نام نہیں۔ جی ہاں سائنس و ٹکنالوجی تو ہے مگر وہ علم شاید اٹھ گیا ہے جو انسانوں کو انسانیت سے آگاہ کرتا ہے۔
حضورﷺ نے چودہ سو برس قبل جو پیشین گوئی فرمائی ہے وہ حرف حرف آج ہمارے سامنے ہے دنیا سے علم دین اٹھ چکا ہے اور یہ زمانہ جسے تہذیب کہا جاتا ہے وہ سراپا جہالت اور نفس پرستی پر مبنی ہے، زنا کاری کو مہذب سوسائٹی میں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا، شراب نوشی جزوِ زندگی بن چکی ہے۔ گویا حضورﷺ نے آج سے چودہ سو برس قبل جو کچھ فرمایا تھا وہ اس وقت ہمارے سر پرتلی کھڑی ہے کوئی تعجب نہیں کہ زمانہ حاضرہ کی ایٹمک ایجادیں ہمارے لیے قیامت بن جائیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس حدیث سے عبرت حاصل کریں اورلوگوں کو بتائیں کہ وہ جس طرزِ فکر، طرزِ زندگی اور نظامِ زندگی کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں ترقی او رکامیابی کی طرف نہیں بلکہ تباہی و بربادی کی ایک مہیب کھائی کی طرف لے جانے والا ہے جس میں گرفتار افراد اور اقوام جیتے جی موت کی تمنا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ——