قیام اسرائیل اور پس پردہ

شیخ عبدالمجید

اہل مغرب نے جو زیادہ تر عیسائیت سے تعلق رکھتے ہیں اپنے مذہبی نظریاتی اختلاف سے کہیں بڑھ کر اسلام کے خلاف نظریاتی جنگ کا رخ عمداً معاشرہ کی طرف موڑ دیا ہے۔ اور اس طرح وہ مغربی اور مشرقی کلچر اور تہذیبوں کے اختلاف کو ابھارتے ہیں۔ اور اسلام کے کلچر کو مسلمانوں کے ایک قلیل طبقہ کے مروجہ جہادی اور دہشت گردی کو اسلام کا کلچر ظاہر کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی دانست میں مغربی قوموں کو اسلام سے دور رکھنے کی حتی المقدور کوشش کررہے ہیں۔

مغربی قوموں کی اسلام سے گہری دشمنی ہے یہ اپنے مذہبی اختلاف کو ظاہر نہیں کرتے لیکن اپنے میڈیا اور اخبارات کے ذریعہ مسلسل نظریاتی اختلاف کو ابھار کر پس پردہ اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے ہیں لیکن یہ اپنی ڈپلومیسی کے ذریعہ اپنے مذہبی اختلاف کو دنیا پر ظاہر ہونے نہیں دیتے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی عرب اور عثمانی حکمرانوں اور مسلمانوں سے مذہبی رقابتیں تھیں ان مذہبی رقابتوں اور اسلام اور یہود سے گہری دشمنیاں صلیبی جنگوں کی صورت میں مذہبی بنیاد پر ظاہر ہوتی ہیں۔ صلیب جو کہ عیسائیت کا مذہبی نشان ہے انھوں نے مذہبی بنیادی پر صلیبی جنگوں کا آغاز کیا اور عرصہ دوسو سال کی صلیبی جنگوں کے دوران مسلسل مسلمانوں اور یہودیوں کو مذہبی تشدد کا نشانہ بنائے رکھا اور انہیں کسی قدر فتوحات بھی حاصل ہوئیں اور اس دوران یہ شکست سے بھی دوچار ہوتے رہے۔ صلیبی جنگوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کے عروج کی بھی تاریخ ہے۔ صلیبی جنگوں کا اور سلطنت عثمانیہ کے عروج کے زمانے میں جس طرح بار بار ان یورپین طاقتوں کو زک پہنچی ہے اس کی وجہ سے یہ لوگ مجبور ہوئے کہ اسلام کو اپنے لیے خطرہ سمجھیں اور ان کے نفسیاتی پس منظر میں ہمیشہ یہ بات پردے کے پیچھے لہراتی رہتی ہے کہ جس طرح پہلے ایک دفعہ مسلمان ہماری جارحانہ کارروائیوں کو، وہ جارحانہ تو نہیں کہتے لیکن واقعتا یہی تھیں، بڑی شدت سے رد کرتے رہے ہیں، آئندہ ان کو کبھی یہ موقع نہ دیا جائے کہ اس طرح اپنے مفادات کی ہمارے خلاف حفاظت کرسکیں۔

یہ جو صلیبی جنگیں ۱۰۹۵ء میں فرانس سے شروع ہوئیں اور فرانس کے ایک بڑے لارڈ گوڈفرے نے اس کا آغاز کیا۔ جب انھوں نے اپنی مہم شروع کی اور فرانس کے دوسرے بادشاہوں نے مل کر پہلی صلیبی جنگ کا انتظام کیا تو انھوں نے کہا کہ اتنے عظیم مقصد کے لیے کوئی صدقہ بھی تو دینا چاہیے چنانچہ اسے یہ خیال آیا کہ سب سے اچھا صدقہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتقام لیا جائے اور تمام یہودیوں کو تہہ تیغ کردیا جائے۔ پس جس طرح مسلمانوں میں قربا نی کا رواج ہے کہ بڑی بڑی مصیبتوں کے وقت یا کسی مہم میںپیش قدمی کرتے ہوئے پہلے کچھ صدقہ دیتے ہیں اس طرح اس عظیم مہم پر جانے سے پہلے انھوں نے نہ صرف سوچا بلکہ واقعتا فرانس میں یہود کا اس طرح ظالمانہ قتل عام کروایا کہ تاریخ میں کم ہی اس طرحکسی نہتی قوم پر ایسا ظلم ہوا ہوگا اور یہ صلیبی جنگ کا صدقہ تھا۔ اس کے بعد سے یہ رواج بن گیا اور دو سو سال تک کے صلیبی جنگوں کے عرصہ میں ہر جنگ میں جانے سے پہلے یہودی بطور صدقہ قتل کیے جاتے تھے۔ پھر ردِّ بلا کے طور پر صدقہ دیا جاتا ہے اس میں بھی یہود کو ہی صدقہ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے بلیک ڈیتھ کا نام سنا ہوگا جو ۱۳۴۷ سے ۱۳۵۲ تک یعنی چودھویں صدی کے وسط میں پھیلی تھی۔ یہ ایک نہایت خوفناک طاعون کی وبا تھی۔ جو چین سے آئی اور رفتہ رفتہ مشرقی یورپ سے ہوتی ہوئی یہاں تک پہنچی۔ اس وبا میں ردِّبلا کے طور پر انھوں نے یہود کا صدقہ شروع کیا اور بہت سی جھوٹی کہانیاں بھی ان کے خلاف گھڑی گئیں کہ یہ ان کی نحوست ہے اور ساری بلا جو ہم پر وارد ہورہی ہے یہ یہود کی خباثت اور نحوست کی وجہ سے ہے اس لیے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے اگر ہم اس نحوست کو تباہ کریں تو اس سے ہماری بلا ٹل جائے گی۔ چنانچہ آپ حیراں ہوں گے یہ سن کر کہ ایسے یہودیوں کی جنہیں قتل کیا گیا تعداد بیان نہیں کی جاسکتی۔ اعدادو شمار نہیں کہ کتنی تعداد میں یہود کو قتل کیا گیا یا ان کو گھروں میں زندہ جلادیا گیا۔ جو موٹے اعدادوشمار ہیں وہ یہ ہیں کہ ساٹھ بڑی بستیوں سے اور کوئی چالیس چھوٹی بستیوں سے یہود کا مکمل خاتمہ کردیا گیا۔ یہ دوسرا انتقام ہے یہود سے عیسائی دنیا کا۔ لیکن تیسرا بڑاانتقام نازی جرمنی میں ان سے لیاگیا جس کے متعلق اگرچہ اعدادوشمار کو سب محقق قبول نہیں کرتے لیکن یہود کا یہی اصرار ہے کہ چھ ملین (۶۰ لاکھ) یہود گیس چمبرز میں مار دئے گئے یا اور مظالم کا شکار ہوئے۔ جرمنی میں کئی سال کے عرصہ میں ایسا ہوا۔ مغربی دنیا جس نے تہذیب کا لبادہ پہن رکھا ہے، جو مسلمانوں کو غیر مہذب اور دہشت گرد قرار دیتے ہیں انھوں نے خود یہود کے خلاف دہشت گردی کی انتہا کردی۔ ان مغربی دہشت گردوں نے یہود پر ایسے ایسے دردناک اور ایسے ایسے ہولناک مظالم کیے کہ دنیا کی تاریخ میں کم ہی قوموں کی مثال ملتی ہوگی جن کو ہزار سال سے زائد عرصہ تک اس طرح مظالم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہو۔ عیسائیت کے نام پر انھوں نے یہودیوں اور صلیبی جنگوں میں مسلمانوں سے جو ظلم اور دہشت گردی روا رکھی ہے اس پر بھی یہ عیسائیت کو دنیا کے سامنے اسلام کے بالمقابل پیار محبت، سلامتی، امن اور آشتی کا مذہب قرار دیتے ہیں اور اسلام کی تعلیم جو حقیقت میں امن و سلامتی کی ضامن ہے، دہشت گردی اور جبر کا مذہب بنا کر دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔

اس قوم کی منافقت اور سیاسی دجالیت کا کمال یہ ہے کہ یہودیوں پر اتنے خوفناک مظالم کی یاد کو ان کے دلوں سے بھلانے کے لیے فلسطین کو جو ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصہ سے مسلمانوں کا وطن ہے اب وہاں یہودیوں کی مملکت بنا دینا چاہتے ہیں۔ فلسطین میں ان کو بسانے کی سازش کے پیچھے جو مقصد کارفرما تھا وہ یہ تھا کہ یہودیوں کے شر سے یورپ کو بچا کر مستقل طور پر فلسطین میں بسایا جائے بعد میں ان کو وہاں کا حکمراں بنا کر ہمیشہ کے لیے عربوں کو ان کا غلام بنادیا جائے اور جب وہ ان کی حکومت کو تسلیم نہ کریں تو فلسطینی باشندے اسرائیل کی حکومت کے ظلم کا نشانہ بنتے رہیں۔ مغربی قوموں کی یہ دجالی ڈپلومیسی ہے کہ انھوں نے اپنے مظالم کی یاد کو بھلانے کے لیے یہودیوں کے انتقام کا رخ اپنی طرف سے ہٹا کر مسلمانوں اور فلسطینیوں کی طرف پھیر دیا ہے۔ مغرب کی بیان کردہ ڈپلومیسی کی تاریخ سے بظاہر یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کا قیام مغرب کی سازش کے نتیجہ میں اور یہود کی چالاکیوں کے نتیجے میں ہوا ہے، یہ اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر خدا کی تقدیر نہ چاہتی تو ایسا بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ مغربی قوموں نے صلیبی جنگوں کی اپنی پے در پے شکستوں کا بدلہ لینے کے لیے یہ ڈپلومیسی اس لیے اختیار کی کہ مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے اور ان کو دبانے کے لیے وہ یہود کو ہمیشہ استعمال کرتے رہیں اس طرح یہود کا غصہ جو ہمارے خلاف ہے وہ مسلمانوں پر اترتا رہے گا۔ ان تاریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی دنیا درحقیقت اسلام سے سے گہری دشمنی رکھتی ہے اور اس دشمنی کے پس منظر میں صلیبی جنگوں کی تاریخی رقابتیں بھی ہیں اور اس دشمنی کے وجہ ایک وہ خوف بھی ہے جو نادان مسلمان اسلام کے متعلق مغربی اور دوسری دنیا کے دلوں میں پیدا کررہے ہیں۔ وہ اپنی جہالت سے اسلام کا ایسا تصور پیش کرتے ہیں جس سے دنیا خوف کھاتی ہے کہ اگر یہ لوگ طاقت پائیں گے تو ہم پر تشدد کریں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ذہن میں ہے کہ اس سے بہتر اور کیا سودا ہوگا کہ یہودیوں کو مسلمانوں کے گلے ڈال دو یہ ہمارے ظلم جو ہم نے یہودیوں پر کیے ہیں وہ اس کا انتقام مسلمانوں سے لیں تاکہ ایک ہی تیر سے دونوں مارے جائیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی یہ بات بھول رہے ہیں کہ یہودی ظلم کو بھولنے والی قوم نہیں ہے۔ یہ ان کی سرشت کے خلاف ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ مغرب سے اپنے مظالم کا بدلہ نہ لیں۔ وقت کی بات ہے آج یہ مسلمانوں کا خون چوس کر طاقت حاصل کریں گے اور کل یہ دوسری اقوام پر ٹوٹ پڑیں گے۔ اب ان کی طاقت بھی خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ ان کے جرنیل ایک زمانے میں کھلم کھلا کہہ رہے تھے کہ ہم سوویت یونین سے ٹکر لے کر اس کو بھی شکست دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ جنگی ہتھیار بنانے سے متعلق بہت سی شاخوں میں ٹیکنکل اعتبار سے یہ امریکہ سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ایٹم بم اور دوسرے مہلک ہتھیار بنا چکے ہیں۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے، کیوں یہ طاقت بڑھتی چلی جارہی ہے؟ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بڑی ہی جہالت ہوگی اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے حملوں سے ڈرکر اسرائیل ایسا کررہا ہے۔

یہ بہت بڑی بے وقوفی ہے۔ مسلمانوں کے حملوں سے ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ جب بھی مسلمان، بے چاروں نے ٹکر لی اس نے ان کی طاقت کو تہس نہس کردیا۔ اور پھر حملہ آوروں کو ایسی ظالمانہ شکست دی کہ سارے عالمِ اسلام کی گردن شرم سے جھک جاتی رہی ہے۔ ان کو مسلمانوں سے کیا خوف ہوسکتا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ان کے دماغوں میں فتح کے منصوبے ہیں۔ پہلے تیل کی طاقت پر قبضہ کیا جائے گا ہر قدم کے بعد جب اس قدم کی یادداشت پھیکی پڑجائے گی پھر اگلا قدم اٹھے گا، پھر اس کے بعد اگلا قدم اٹھے گا پھر اگلا قدم اٹھے گا۔ اس لیے ان کی فتوحاتی منصوبہ بندی کے پیش نظر اگر مدینہ کو بھی خطرہ ہے اور توحید کو بھی خطرہ ہے تو اس میں کوئی مشکل بات نہیں ہے انہیں بالآخر تیل کے چشموں پر قابض ہونا ہے۔ (یعنی نیت ان کی یہ ہے آگے خدا کی تقدیر اور رنگ دکھائے اور عالم اسلام کے مسلمانوں کی بارگاہے الٰہی میں دعائیں قبول ہوں تو اور بات ہے۔) اس کے بعد یہ مغرب سے اپنے ایسے بدلے لیں گے کہ وہ ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ جنگ کا بگل بجانے والی قوم ہے اور جنگ کا بگل ڈیوڈ بین جیورین بجا چکے ہیں۔ تقریباً چار ہزار سال پہلے کی آواز ان کے کانوں میں گونج رہی ہے کہ ’’جنگ، اور جنگ، اور جنگ اور اس کے سوا تمہارے قیام کا فلسطین میں کوئی مقصد نہیں ہے۔‘‘ پس اگر امریکہ اور اس کے اتحادی اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ یہودیوں کو بھی پاگل بنا رہے ہیں اور مسلمانوں کو بھی پاگل بنا رہے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں