[سید عبدالسلام مرحوم نے ایمرجنسی میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جیل میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ پرانے حجاب سے یہ خطوط دوبارہ پیش کیے جارہے ہیں تاکہ اپنے گھر اور اولاد کے سلسلہ میں ایک داعی قیدی کے جذبات و احساسات کو دیکھا جاسکے۔ ایڈیٹر]
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میری پیاری عصمو—پرسوں میں سورۂ یونس کے نویں رُکوع کا مطالعہ کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچا:
فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَارَبَّنَالَاتَجْعَلْنَافِتْنَۃًلِّلقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَومِ الْکٰفِرِیْنَ۔
پس کہوکہ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنااوراپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے۔‘‘
یہ ایک دعاہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دورمیں کچھ نوجوان حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو قبول کرکے دین کی خدمت کررہے تھے توفرعون اوراُس کی حکومت کے لوگ ان پر ظلم کررہے تھے اوران کو ستارہے تھے تو یہ دعا اُنھوںنے مانگی تھی۔اس کی تشریح مولانا مودودی بڑے اچھے انداز میںکرتے ہیں۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ظالم حکمراں پوری قوت سے حق کی طاقت کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس موقع پر حق کو ماننے والوں میں تین قسم کے لوگ پیداہوجاتے ہیں ایک وہ جو حق کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے اورتکلیفیں اُٹھانے کے لیے پوری ہمت اورعزم کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں،دوسرے وہ جوحق کو تومانتے ہیں اوراس پر ایمان بھی رکھتے ہیں لیکن مصیبتیں آتے ہی ہمت ہارکر باطل طاقتوں کا ساتھ دینے لگتے ہیں اورپہلے قسم کے گروہ کو برابھلا کہنے لگتے ہیں کہ یہ بے وقوف ہیں، احمق ہیں جو اس طرح حکومت کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو حق پر ثابت کریں اوراپنے آپ کو درست کہنے کی کوشش کرتے ہیں حالاںکہ یہ حق کے ساتھ بددیانتی اوردھوکہ ہے۔تیسراگروہ عوام کا یا پبلک کا گروہ ہے جو صرف تماشادیکھتارہتاہے اوربالآخر طاقت کے آگے سرجھکادیتاہے،حق کامیاب ہواتوحق کا ساتھ دیتاہے،اگرباطل کامیاب ہوا توباطل کا ساتھ دے دیتاہے۔اس طرح ہمیشہ ہوتاآیا ہے اورآج بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ جماعت اِسلامی والے کام توا چھا کرتے ہیں باتیں بھی اچھی کہتے ہیں لیکن آج کے زمانے میں یہ سب چلنے والی نہیں۔ حکومت کے خلاف ہم کو کچھ نہیں کہنایا کرنا چاہیے۔ بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے، مصلحت کا عقل مندی اوردوراندیشی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس موقع پر خاموش رہیں اورحکومت کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ایک طرف خداپر، رسول پر،قرآن پر، قرآن کی ایک ایک تعلیم اورحکم پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی اوردوسری طرف جب موقع آئے توا س کے ساتھ دھوکہ دہی کا رویہ اختیار کرکے باطل کا ساتھ دیاجاتاہے تویہ دین کے ساتھ، خداورسول کے ساتھ، قرآن کے ساتھ سراسردھوکہ ہے۔بددیانتی ہے امانت میں خیانت ہے۔خداہمیں ان لوگوں سے بچائے۔اوران لوگوں سے بھی جو صرف تماشا دیکھتے رہتے ہیں کہ جس طرف طاقت زیادہ معلوم ہواس طرف اپنا ووٹ ڈال دیں۔یہ دونوں باتیں غلط اوربزدِلی پر مبنی ہیں اگر واقعی ہمارا ایمان یہ ہے کہ ہمیں ایک دن مرنا ہے اورخداکے حضور پیش ہوناہے، اپنے اعمال کا حساب وکتاب دینا ہے۔توہمیں لاکھ مشکلات کا سامنا کرناپڑے، ہم ہمت نہ ہاریں۔ڈٹ کر مشکلات کا مقابلہ کریں اوراللہ سے مددمانگتے رہیں۔
میں یہ باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ تم پریشان ہوگئی ہو۔اورایسامعلوم ہورہا ہے کہ روزبروز تمہاری پریشانی میںاِضافہ ہورہا ہے۔تم ایک سچی مومن خاتون کی طرح ہمت مت ہارو۔ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے مصیبتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرو۔ اپنے بچوں کو بھی بہادربنانے کے لیے بزرگوں کے قصے سنائو اوران کے اندر بھی ایمان کی چنگاری روشن کرو اوران کو بھی مومن اور مسلمان بنانے اوردین کا خادم بنانے کی کوشش کرو۔یہ ہمارا سب سے اہم اورسب سے بڑافرض ہے۔رزق کا بھیجنے والا صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہے۔ رزق جتنا ہمارے حصہ میں ہے وہ ضروردے گا۔ ہم اس سے محروم نہیں ہوںگے کسی حال میں بھی۔ اس تعلق سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔اِنشاء اللہ جو کچھ بھی نقصان ہوگا اگراللہ چاہے تواس کا دس گنایہیں مل جائے گا۔اگرہم صبر کریں تو یہاں نہ سہی آخرت میں تواس کا اجرضرورملے گاہی۔مذکورہ بالا آیت سے پہلے ایک دعا بھی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’لوگو!اگرتم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو،اگرمسلمان ہو۔‘‘
تم قرآن اُٹھاکر یہ آیات دیکھو تفہیم القرآن کا مطالعہ شروع کردو۔ امید ہے اللہ ہمیں ہمت عطاکرے گا۔ہماری مشکلات کو دورفرمادے گا۔وہی ہمارا کارساز ہے۔پروردگار ہے۔ہمیں اسی پر بھروسہ کرناچاہیے۔فقط والسلام،سید عبدالسلام
——
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے پیارے بیٹے حامدسلمہٗ،السلام علیکم!
ہسپتال میںتم سے ملاقات ہوئی۔تمہارے اس اِقرارنے کہ تم اللہ کے نیک بندے بنوگے،اسلام پر چلوگے،میرے دل کو یقین کی مسرتوں سے بھردیا۔ اللہ تعالیٰ تمھیں دین کا علم وفہم عطافرمائے۔اچھے اخلاق، نیک صفات واعلیٰ کردار پیداکرے۔آمین
تفہیم القرآن کا پابندی سے مطالعہ کرتے رہو۔خطوط لکھنا سیکھو۔گفتگو وآدابِ مجلس کا خیال رکھو۔ تمھیں یہ نظارہ دیکھ کر بہت دُکھ ہواہوگاکہ کس طرح تمہارے باپ کو ایک مجرم کی طرح جیل سے ہسپتال لایا گیا۔دودوپہرہ دار اس کے ساتھ تھے۔ہسپتال میںبھی لوگ حیرت سے دیکھتے تھے۔آخر ان معصوم لوگوں نے کیاجرم کیا ہے کہ انھیں زنداں کے حوالے کردیاگیا۔یہ منظردیکھ کر تم ہمت نہ ہارجانا۔
بیٹے!یہ ایک بڑی سعادت ہے جو تمہارے باپ کو ملی ہے۔اگرایک مومن نیک نیتی کے ساتھ ان آزمائشوں میںپوراُترنے کی کوشش کرے تواللہ کے نزدیک بہت بڑامرتبہ حاصل کرے گا۔تم دیکھتے ہوکہ لوگ چوری کرکے اور دھوکا دے کر قانون کی گرفت میںآجاتے ہیں۔کچھ لوگ قتل کے جرم میں برسوں سے جیل میںپڑے ہوئے ہیں۔ان میںبعض لوگ قانون کی گرفت میں نہیں آتے اور دنیا کے مزے لوٹتے پھرتے ہیں۔لیکن اس دُنیا میں ایسے جرم بھی ہیں جن کا مجرم صرف یہی تھا کہ وہ اللہ کو اپنا رب مانتے تھے اوراسی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے۔نیکی پھیلانے اوربرائیوں کو مٹانے میںلگے ہوئے تھے۔اس قصور کی پاداش میںاُنھیںزنداں کے حوالے کردیاگیا۔تمہاراگنہگار باپ بھی انھی لوگوں میںشامل ہے جو خدا کی راہ میں پکڑے گئے۔
تمھیں معلوم ہوناچاہیے دین کی راہ میں ایک قدم اُٹھانااللہ کی نظرمیں بہت قیمتی ہے۔یہ صعوبتیں ہم دین کی خاطر اُٹھارہے ہیں۔یہ مصیبتیں ہم اللہ کے لیے جھیل رہے ہیں۔تمہاراباپ کسی کو دھوکا دے کر،چوری کرکے،یاقتل کرکے جیل نہیں گیا ہے۔ تحریک اِسلامی کا ایک ادنیٰ خادم ہونے کی بناء پر اسے جیل میںڈالاگیا ہے۔اس پر نہ مجھے افسوس ہے نہ ہی رنج۔بلکہ میںبہت خوش ہوں کہ اللہ کے دین کے ایک حقیرخادم کی حیثیت سے اللہ نے یہ مرتبہ مجھے عطافرمایا۔
تمہاراباپ–سیدعبدالسلام
۲۶؍جون۱۹۷۶
——