پھاٹک پر ایک جیپ تیزی سے آکر رکی۔ چند طویل قامت پولیس والے اترے اور گلی میں ادھر ادھر غائب ہو گئے۔ ان کے بوٹوں کی چاپ کانوں میں دیر تک سنائی دیتی رہی۔ چند لڑکے پھاٹک کھول کر باہر آئے اور گلی میں دونوں طرف دیکھنے لگے کچھ نے کھڑکی کھول کر باہر جھانکا اور آس پاس نظر دوڑائی۔ ایک نے دوسرے سے کہا ابھی ابھی تو ایک جلوس سڑک سے گزراہے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا اب کیا ہوا؟
ایک سپاہی اچانک پتلی سی گلی سے نمودار ہوا اور دوڑ کر ایک لڑکے کو پھاٹک کے بالکل دروازے پر سے بھاگتے ہوئے پیچھے سے کالر پکڑ کر کھینچ لیا۔ باقی لڑکے بدحواسی کے عالم میں گرتے پڑتے اندر بھاگ گئے۔ لڑکے نے کرتا پاجامہ اور ٹوپی پہن رکھی تھی اور خشخشی سی داڑھی اس کے چہرے پر بکھری ہوئی تھی۔ سپاہی نے لڑکے پر ڈنڈا برساتے ہوئے غصے میں کہا:’’ابے بلوائی حرام الدہر ادھر آ! تم لوگوں نے ہم سب کا جینا حرام کر رکھا ہے۔‘‘
لڑکا انتہائی بے بسی اور گھبراہٹ کے عالم میں سر کھجاتے ہوئے بولا: صاحب میں بلوائی نہیں ہوں میں تو ایک غریب مفلوک الحال ’ملا‘ کا بیٹا ہوں، مدرسے میں پڑھتا ہوں۔
سپاہی نے نوجوان لڑکے کا گریبان زور سے پکڑتے ہوئے اپنی طرف گھسیٹا اور جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔ یہ’ملا‘ کیا ہوتا ہے؟ میں روز روز ملا ملا سن کر حیران ہوتا ہوں اور تنگ آ گیا ہوں، کیا سارے مسلمان ’ملے‘ ہوتے ہیں؟
نوجوان نے ہکلاتے ہوئے کہا: نہیں صاحب! یہ ملا وہ ہوتا ہے جو داڑھی رکھتا ہے سر پر ٹوپی اور کرتے پاجامے میں رہتاہے مسجدوں میں پانچ وقت اذان دیتا ہے، نماز پڑھاتا ہے اور جمعہ کے دن مسجد میں بنے ایک چبوترے پر چڑھ کر وعظ و نصیحت کرتا ہے۔
سپاہی اتنے میں اپنے غصہ پر قابو پا چکا تھا۔ اس کی گرفت ذرا ڈھیلی پڑی۔ اسے یاد آیا کہ اس کے باپ کی بھی دوستی کبھی ایسے داڑھی ٹوپی والے کسی ملا سے رہی تھی۔ ایک دو بار تو وہ اس کے گھر بھی آیا تھا۔ سپاہی بے حس و حرکت چند لمحے کو یونہی کھڑا رہا اور سوچنے لگا : لیکن میرا باپ تو اس ملے کی بڑی تعریف کیا کرتا تھا۔ پھر خود سے کہنے لگا:’’ چہرے اور حلیہ سے تو یہ لڑکا بھی نیک اور شریف معلوم پڑتا ہے ۔‘‘
تبھی نعرہ تکبیر کی صدا بلند ہوئی اور ایک غول لاٹھی ڈنڈے کے ساتھ دور گلی سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ نوجوان نے سپاہی کو ایک جھٹکے میں پھاٹک کے اندر کھینچ لیا اور آہنی دروازہ زور سے بند کر دیا۔ سپاہی گھبرا گیا نوجوان اپنا حواس مجتمع کرتے ہوئے سپاہی سے مخاطب ہوا۔ میں یہیں رہتا ہوں صاحب !اندر کافی لوگ رہتے ہیں آپ ابھی اندر آ جائیں اس وقت آپ کی جان کو خطرہ ہے۔
گھبرائیے نہیں آپ کو کچھ نہیں ہوگا ۔آپ حکومت کی جانب سے اپنی ڈیوٹی پر ہیں ، آپ کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ سپاہی نوجوان کے دلچسپ لب و لہجہ اور پر لطف بات چیت سے کافی متاثر ہوا اور اسے اس نوجوان سے یک گونہ محبت سی محسوس ہوئی۔
غول نزدیک آ چکا تھا نعرہ تکبیر کی آواز ایک شورش میں بدل گئی آن کی آن میں مسجد کے گرد و پیش آگ کے ببولے دہک اٹھے۔ گلی میں ادھر ادھر بکھرے پولیس والے جلدی جلدی سیٹی بجاتے ہوئے وائرلیس پر پیغام منتقل کر کے گاڑی میں بیٹھ گئے انہوں نے سپاہی کو ادھر ادھر بہت تلاش کیا آوازیں بھی دیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہ تھا، گاڑی آگے جا چکی تھی۔ تھوڑے سے وقفے اور سکون کے بعد سپاہی نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے ہمت جٹا کر لڑکے سے کہا مجھے اب جانا چاہیے۔
تبھی چوراہے کے آس پاس مسجد سے ملحق گلی میں جئے شری رام کا فلک شگاف نعرہ بلند ہوا۔ جواب میں نعرہ تکبیر کی بلند آواز فضا میں گونجی۔ تھوڑے سے وقفے سے مسجد کے ارد گرد کا علاقہ بے ہنگم اور پر تشدد شور سے گونج رہا تھا۔ تلوار اور ترشول ہوا میں لہرا رہے تھے۔ نوجوان نے محبت سے سپاہی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’جب آنکھوں پر تعصب اور تشدد کی پٹیاں بندھ جاتی ہیں تب کچھ دکھائی نہیں دیتا صاحب۔‘‘ کیا دنیا اب ان سب پاگلوں کے رحم و کرم پر زندہ رہیگی؟ سپاہی نے تاسف سے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور خاموش ہو رہا. بھیڑ اب پھاٹک تک پہنچ گئی تھی سپاہی کی جان حلق تک آ گئی۔
اطمینان رکھیں صاحب یہاں آپ کی جان کوئی نہیں لے گا۔ سپاہی کو نوجوان کی بات کا یقین ہو چلا تھا اور اس سے قدرے ہمدردی بھی۔ دونوں وسیع و عریض کوٹھی کی بالائی منزل پر چلے گئے تھوڑی دیر بعد لڑکے نے کھڑکی کا پٹ کھول کر باہر جھانکا بھیڑ دوسری طرف کو جا چکی تھی۔ لڑکا سپاہی سے مخاطب ہوا، ان سب میں پڑھا لکھا کوئی نہیں ہے صاحب پڑھے لکھے تو سب اپنے اپنے گھروں میں محصور ہیں۔ وہ کیوں گلی کوچوں اور چوراہوں پر ہنگامہ برپا کر کے اپنی زندگی خراب کرنے لگیں؟ یہ سب کے سب اس مہذب سماج کے ناسور ہیں۔
برآمدے سے متصل کمرے میں ایک افغانی کرائے پر رہتا تھا۔ خاکی جرسی میں ملبوس پولیس والے کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر بولا:’’ ہم اس کافر کے بچہ کو ٹھیک کر دے گا۔‘‘ نوجوان نے پٹھان کو ایک گندی سی گالی دی۔ پٹھان کا نشہ فوراً ہرن ہو گیا اور وہ اندر چلا گیا۔ سپاہی گھبرا گیا۔ چند لمحوں کے بعد پٹھان باہر آیا اور کھانستے ہوئے پوچھا؟ کیا بھارت میں بھی افیم کی کھیتی ہوتی ہے؟ مجھے تو سب کے سب افیمچی نظر آتے ہیں! یک لخت سپاہی کی رعونت واپس آئی لیکن اس نے کچھ سوچ کر اطمینان کی سانس لی اور دل ہی دل میں کہا:’’یہ کوئی مخبوط الحواس انسان معلوم پڑتا ہے۔‘‘
بوڑھی مکان مالکن نے سرخ ریش پٹھان کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھا اور کہا’’آپ بہت حیران و پریشان روح معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ سرخ داڑھی والے بوڑھے پٹھان نے ذرا تحمل سے جواب دیا :’’ہمارے باپ دادا کی’روح‘ اس ملک میں در و دیوار کے ذرے ذرے پر چسپاں ہے۔ ہم نے اس ملک پر کئی سو برس حکومت کی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کبھی ایسا ہندو مسلم نہیں لڑا جیسا ہم یہاں اکثر لڑتے دیکھتا ہے۔‘‘ پٹھان پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا۔ بڑی بی نے پہلی بار پٹھان کو احترام کی نگاہوں سے دیکھا اور برجستگی سے کہا۔
جن باتوں کو آپ سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس کے بارے میں خاموشی بہتر ہے۔ کیا تمہارے یہاں شیعہ سنی سے اور سنی شیعہ سے جھگڑا نہیں کرتے؟ پختون پنجابیوں سے نفرت نہیں کرتے؟ سب ایک دوسرے کو مارتے ہیں کاٹتے ہیں۔ مضبوط کمزور کو مارتا ہی ہے؟ جب سے دنیا بنی ہے مارنے مرنے کا یہ کھیل جاری ہے۔ پٹھان نے یہ سنکر ذرا مبہم سا سر ہلایا۔
العجب! پٹھان کے پیشانی پر تفکر کی شکنیں ابھریں اور وہ خاموش ہو گیا۔ اندر ایک ہیبت ناک سناٹا طاری تھا۔ احاطے کے چہار جانب موت جیسی خاموشی تھی۔ اس اوہام پرست ملک میں افیم آج بھی اتنی ہی مقبول ہے! کہتے ہوئے پٹھان نے نسوار کی ڈبیہ نکالی اور چٹکی بھر نسوار منھ میں دبا کر انتہائی آزردگی سے بولا:’’قرون وسطیٰ میں بھی شاید اتنا ظلم اور اندھیرا نہیں رہا ہوگا؟‘‘
اسے ہندو مسلم بلوؤں نے بے حد بددل کر دیا تھا چند سالوں میں یہ دوسری مرتبہ ہوا تھا۔ کیا ہندوستان کی سر زمین کبھی امن کا گہوارہ بھی رہی ہے؟ پٹھان نے سنجیدگی سے غور کیا؟ کیا اس ملک کا ایک شہری دوسرے شہری کو صرف اس لیے ماردیتا ہے کہ وہ دوسرے مذہب کا ماننے والا ہے؟ کیا یہ عقیدے کی لڑائی ہے؟ کیا یہ بالا دستی کی جنگ نہیں ہے؟ یہ ایک مریضانہ نفسیات ہے؟
نصف النہار کے آفتاب نے زمین پر تیز شعائیں انڈیل دی تھیں اب قدرے سکون تھا۔ ہنگامہ کچھ حد تک تھم گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد چرخ چوں کرتی ہوئی ایک پرانی گاڑی پھاٹک کے دروازے پر ایک جھٹکے سے آکر رک گئی۔ لال ساڑی میں ملبوس ایک سانولی خاتون اور ایک بوڑھے میاں گاڑی سے اترے خوف سے جن کا چہرہ زرد تھا۔ ساتھ میں ایک پریشان حال عورت بچہ گود میں لیے ہوئے تھی اور تینوں ایک تنگ سی گلی میں کہیں غائب ہو گئے۔
پولیس والا ڈیوڑھی کی کچی سیڑھیوں سے لپک کر نیچے پہنچا اور گاڑی میں بیٹھ گیا نوجوان بھی ساتھ تھا۔ تبھی جئے شری رام کی ایک اور چیخ فضا میں بلند ہوئی ساتھ ساتھ نعرہ تکبیر کی گونج بھی سنائی دی۔ مسجد پر سرخ جھنڈے لہرانے لگے تھے سپاہی نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا جیسے اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ ہو۔ کئی لڑکے مسجد کی مینار پر چڑھے نظر آئے۔ کئی دکانوں میں توڑ پھوڑ جاری تھی پاس ہی کچھ مکانوں سے دھواں اٹھ رہا تھا، مندر کے پاس کچھ مورتیاں ٹوٹی پڑی تھیں۔ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر کچھ دوری تک خاموشی سے راستہ طے کرتے رہے۔
تھوڑی دور چلنے کے بعد سپاہی نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا دونوں چوراہے پر اتر گئے۔ پھر ملیں گے صاحب کہتا ہوا نوجوان ایک کشادہ گلی میں داخل ہو گیا۔ تھوڑے وقفے کے بعد ایک کشیدہ قامت شخص خاکی پتلون میں ملبوس گلی کے نکڑ سے وارد ہوا۔اس کے ساتھ ایک اور پولیس والا بھی تھا۔ دونوں مل کر نوجوان کو زدوکوب کرتے ہوئے پکڑ کر جیپ میں بیٹھا رہے تھے۔ اچانک سپاہی کی نظر نوجوان پر پڑی وہ چیخا:’’وہ لڑکا وہ لڑکا‘‘ سپاہی گاڑی کے پیچھے دوڑا، جیپ آگے بڑھ چکی تھی۔ سپاہی بھونچکا سا آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا رہ گیا۔
ایک پولیس والا سپاہی کے قریب آیا اور بولا تمہارے متعلق اطلاع تھی کہ مارے گئے کہاں رہ گئے تھے؟ وہ گم سم سر پکڑ کر یونہی بیٹھا رہا۔ چند لمحے تامل کے بعد سپاہی گویا ہوا:’’ابھی ابھی جس لڑکے کو پکڑ کر لے گئے ہیں‘‘ دوسرے پولیس والے نے بات کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے بیچ میں کہا، ہاں وہ مسجد کی چھت سے کئی بار پتھر بازی کر چکا ہے بڑی مشکل سے پکڑ میں آیا ہے ہم صبح سے اس کی تلاش میں تھے۔ سپاہی نے آنکھیں ملی اور کانوں پر ہاتھ پھیرا پھر افسردگی کے عالم میں بڑبڑایا۔’’بھیس بھوسا سے انسان پنڈت ملا اور سپاہی بن جاتا ہے لیکن انسانیت کب کی مر چکی ہوتی ہے۔‘‘ سپاہی نے ذو معنی جملہ ادا کیا:’’جب کسی بھی مذہب کا نشہ طاری ہو جائے تو یہی سب ہوتا ہے۔‘‘ سپاہی کا لہجہ ذرا تلخ تھا۔ پولیس انسپیکٹر نے مبہوت و مسحور ہو کر سپاہی کو دیکھا اور کہا تم تو ایک کامیاب سیاسی مبصر معلوم ہوتے ہو؟ اس سچائی کا اس سے بڑا دلآویز نمائندہ اور گواہ تمہارے سوا بھلا اور کون ہوگا؟
فجر کی سفید روشنی آسمان پر پھیل رہی تھی۔ کچھ لوگ چہ مگوئیاں کرتے ہوئے آگے کو نکل رہے تھے۔ سپاہی رات بھر غیر متوقع کاروائیاں دیکھتا رہا۔ وہ رات کی ڈیوٹی انجام دیکر تھک گیا تھا۔ اس کی آنکھ رہ رہ کر بند ہو رہی تھی۔ وہ دیوار سے لگ کر دست بستہ کھڑا تھا۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے اب تک گلی کوچوں سے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ سپاہی نے پہلو بدل کر سگریٹ سلگاتے ہوئے سوچا :’’رام اور رحیم کے متوالوں کو اب تک نعرہ سے افاقہ نہیں ہوا۔ اب تو یہ عارضہ لاعلاج معلوم ہوتا ہے۔‘‘
سپاہی کھڑے کھڑے اس کے برے نتائج پر گھنٹوں گہرائی سے سوچتا رہا۔ وہ کافی تھک چکا تھا، نڈھال ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ حزن و ملال اس کے چہرے سے ٹپک رہا تھا۔ اس نے سوچا تعصب اگر ذہن میں جگہ بنا لے تو پھر وہ طبیعت کا حصہ بن جاتا ہے اور دماغ کے خلیات تک میں سرایت کر جاتا ہے۔ ہم سب اسی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اسی پیچیدہ مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کرتے کرتے سپاہی کی آنکھ لگ گئی وہ کرسی پر بیٹھا بیٹھا دیوار سے سر ٹکا کر سو گیا۔ اس کی سگریٹ کا اور ادھ جلے گھروں سے نکلتا ہوا دھواں فضا میں رقص کر رہا تھا۔