یہ مئی ۱۹۴۲ء کا واقعہ ہے۔ دوسری جنگِ عظیم زوروں پر تھی۔ برلن کے ایک کانفرنس ہال میں اعلیٰ حکام ایک نہایت خفیہ کانفرنس میں مصروف تھے۔ میز پر کچھ تصویریں اور کاغذات رکھے تھے۔ سول اور فوجی حکام سائنسی ماہرین کے ساتھ مل کر بڑی باریک بینی سے ان کاغذات کا مطالعہ کررہے تھے۔ ایک طویل خاموشی کے بعد کانفرنس کے چیئرمین نے سامنے رکھی ہوئی فائل سے سر اٹھایا۔ حاضرین متجسس نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر ایک طویل سانس لی اور بولا:
’’معزز حضرات! میرا خیال ہے یہ کاغذات درست ہیں، ہمیں اپنی حکمتِ عملی تبدیلی کرنی ہوگی۔‘‘
یہ الفاظ ایک عظیم غلطی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے اور دوسری جنگِ عظیم کی یہ غلطی جرمن افواج کو بہت مہنگی پڑی۔ اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ ۱۹۴۲ء کے اوائل میں اتحادی افواج نے نازیوں کو شمال افریقہ سے نکال باہر کیا۔ اب اُن کی نگاہیں سسلی پر لگی تھیں۔ ان کی پیش قدمی جاری تھی اور کسی شخص کے لیے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں تھا کہ اتحادیوں کا اگلا نشانہ سسلی ہوگا۔ لیکن کچھ اتحادی جرنیل چاہتے تھے کہ کسی طرح نازی کمانڈروں کے ذہن میں یہ بات ڈالی جائے کہ اتحادی سسلی کے بجائے کسی اور طرف پیش قدمی کریں گے۔ اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے تو جرمن فوج کی توجہ سسلی سے ہٹ سکتی تھی اور اتحادی فوج نسبتاً آسانی سے ان کا دفاع کر سکتی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ایسا کیوں کر کیا جائے۔
انہی دنوں بحریہ کے ایک شعبے کی طرف سے ایک نہایت جامع منصوبہ پیش کیا گیا۔ منصوبہ بنانے والوں نے تجویز پیش کی کہ اتحادیوں کی طرف سے کچھ دستاویزات اس طرح جرمن افواج تک پہنچائی جائیں کہ انہیں کسی چال کا شبہ نہ ہو۔ ان دستاویزات کے مطالعے سے جرمن کمانڈروں پر یہ انکشاف ہو کہ اتحادی درحقیقت سسلی کے بجائے یونان اور سارڈینیا پر حملہ کرنے والے ہیں۔ اس منصوبے کو پسند کیا گیا اور چند روز کے اندر اندر اس کی تفصیلات طے کرلی گئیں۔ فیصلہ ہوا کہ ایک فوجی قاصد بذریعے طیارہ برطانیہ سے شمالی افریقہ روانہ ہوگا۔ اس کے پاس شمالی افریقہ میں برسرِ پیکار اتحادی کمانڈر کے لیے ایک پیغام ہوگا۔ دورانِ پرواز یہ طیارہ اسپینی ساحل کے قریب سمندر میں گر کر تباہ ہوجائے گا اور وہ انتہائی خفیہ دستاویزات، اسپینی حکومت کے ہاتھ آجائیں گی۔ اسپینی حکومت کا جھکاؤ چونکہ نازیوں کی طرف تھا، اس لیے اتحادی لیڈر کو پورا یقین تھا کہ یہ کاغذات برلن ضرور پہنچیں گے ویسے بھی اسپین میں بے شمار نازی ایجنٹ موجود تھے۔ اُن کے ہوتے ہوئے اتحادیوں کے کسی راز کا محفوظ رہ جانا قرینِ قیاس نہیں تھا۔ کافی غوروخوض کے بعد اتحادی لیڈر اس فیصلے پر پہنچے کہ حقیقی طور پر کسی ہوائی جہاز کو تباہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ آئے دن سمندر کے اوپر ہوائی حادثے ہوتے رہتے تھے۔ عموماً ہوائی جہازوں کے ٹکڑے بھی نہیں ملتے۔ اس خیال کے پیشِ نظر قاصد کی لاش کو ایک آبدوز کے ذریعے اسپینی ساحل تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا۔
دستاویزات تیار کرنے میں انتہائی باریک بینی اور رازداری سے کام لیا گیا تھا۔ اس وقت کے برطانوی ایڈمرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس منصوبے کو مؤثر شکل دینے کے لیے افریقی محاذ کے سپریم کمانڈر جنرل آئزن ہاور اور ایڈمرل اینڈریو کنگھم ہام سے اہم خط و کتابت کی۔ ڈرامے کے لیے اسٹیج تیار ہوچکا تھا اور اب ایک کردار کی ضرورت تھی۔ یہ ایک نہایت مشکل مرحلہ تھا۔ منصوبہ سازوں کو ایک ایسے مردہ شخص کی ضرورت تھی جسے بطور قاصد شمال افریقہ روانہ کیا جاسکے۔ طے یہ پایا کہ اس قاصد کی عمر چوبیس پچیس برس کے قریب ہوگی اور اس کی جسمانی حالت سے ظاہر ہوگا کہ وہ سمندر میں ڈوب کر مرا ہے۔ تلاشِ بسیار کے بعد فوجی جرنیل مطلوبہ شخص ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ شخص نمونیہ سے ہلاک ہوا تھا۔ اس کے والدین نے اس شرط کے ساتھ بیٹے کی لاش استعمال کرنے کی اجازت دے دی کہ مشن پورا ہونے پر مناسب طریقے سے اس کی تدفین کی جائے گی اور اس کی اصلیت کو ہمیشہ راز رکھا جائے گا۔
یہ معاملہ طے ہونے کے بعد بحریہ کی منصوبہ ساز ٹیم نے مردہ شخص کو ایک نئی شخصیت دینے کا کام شروع کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ اسے مکمل طور پر شاہی بحریہ کا رکن بنادیا جائے۔ انھوں نے اسے میجر ولیم مارٹن کا نام دیا۔ کاغذات میں اس کے کوائف درج کرتے ہوئے لکھا گیا : ’’۱۹۰۷ء میں گارڈف میں پیدا ہوا۔‘‘ اسے شناختی کارڈ نمبر ۱۴۸۲۲۸ جاری کیا گیا۔ اس بات کی وضاحت کے لیے کہ کارڈ اتنا نیا کیوں ہے، کارڈ کے اوپر ہاتھ سے یہ الفاظ لکھے گئے۔ کارڈ نمبر ۱۹۶۵۰ گم ہونے پر جاری کیا گیا۔ میجر مارٹن کے کردار میں مزید رنگ بھرنے کے لیے اس کی وردی میں کچھ چیزیں رکھی گئیں۔ جیکٹ کی جیبوں میں کچھ ریزگاری، ایک سگریٹ کی ڈبیا، ایک ماچس، ایک پنسل، بس کے دو استعمال شدہ ٹکٹ اور چابیوں کا ایک گچھا رکھا گیا۔ اس کے علاوہ ملٹری اور نیوی کلب لندن میں چھ راتوں کے قیام کی رسید اور تھیٹر کے دو ٹکٹ بھی وردی میں رکھ دیے گئے۔ میجر مارٹن کی نجی زندگی کے گوشے میں رنگ بھرنے کے لیے بحریہ میں ملازم ایک لڑکی سے مارٹن کے نام دو خطوط لکھوائے گئے۔ ان خطوط سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ لڑکی مارٹن کی منگیتر ہے۔ ان خطوط کے علاوہ لڑکی کی ایک تصویر اور منگنی کی انگوٹھی خریدنے کی ۵۳ ڈالر کی رسید بھی مردہ شخص کی جیب میں رکھی گئی۔ اس کے علاوہ نوجوان کے باپ کی طرف سے منگنی کی اطلاع ملنے پر ناراضگی کے اظہار کا ایک خط بھی جیب میں رکھا گیا۔
مردہ شخص کو میجر مارٹن کا روپ دینے کے انتظامات مکمل ہوچکے تو لاش کو سرد خانے سے باہر لایا گیا۔ اس کو وردی اور لائف جیکٹ پہنائی گئی۔ اس کی ذاتی اشیاء جیبوں کے اندر رکھ دی گئی تھیں اور سرکاری کاغذوں والا بریف کیس اس کی کلائی سے باندھ دیا گیا تھا۔ میجر مارٹن کی لاش کو برف لگے ہوئے ایک خاص صندوق میں بند کردیا گیا اور براستہ سڑک راتوں رات ’گرین آک‘ اسکاٹ لینڈ پہنچا دیا گیا۔ پروگرام کے مطابق یہاں سیرف نامی آبدوز مالٹا روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ آبدوز کے کپتان کے سوا عملے کے کسی شخص کو اصل معاملے کا علم نہیں تھا۔ صندوق کے اوپر ’بصری آلات‘ کے الفاظ لکھے تھے اور آبدوز کے عملے کو بتایا گیا تھا کہ اس میں موسمی تبدیلیاں نوٹ کرنے والے کچھ آلات بند ہیں۔ ان آلات کواسپینی حکومت کے علم میں لائے بغیر اسپین کے ساحلِ سمندر میں اتارنا ہے۔
دس دن کے مسلسل سفر کے بعد ۳۰؍اپریل کو ساڑھے چار بجے صبح آبدوز اسپین کے جنوبی ساحل کے نزدیک پہنچی۔ چاروں طرف دھند پھیلی ہوئی تھی اور سمندر پرسکون تھا۔ اس موقع پر کپتان نے عملے کے چند خاص افسروں کو صندوق کی اصلیت سے آگاہ کیا اور اُن کے تعاون سے اسے عرشے پر پہنچا یا۔ یہاں میجر مارٹن کو نکال کر اس کی لائف جیکٹ میں ہوا بھری گئی اور بڑے آرام سے اسے سمندر میں اتار دیا گیا۔ ہیولوا دریا کا دہانہ یہاں سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ فضائی حادثے کو حقیقی رنگ دینے کے لیے مارٹن کی لاش کے پیچھے پیچھے ربڑ کی ایک چھوٹی کشتی اور ایک پتوار بھی سمندر میں پھینک دیا گیا۔ تمام کام منصوبہ سازوں کی توقع کے عین مطابق ہوا۔ اسی دن اسپینی مچھیروں نے حسبِ معمول اس لاش کی اطلاع فوجی حکام کو دی۔ اسپینی بحریہ کے ارکان نے موقع پر پہنچ کر لاش اپنی تحویل میں لے لی۔ اس حادثے کی خبر فوراً ہی میڈرڈ میں برطانیہ کے سفارتخانہ کو پہنچ گئی۔ خبر کے ساتھ مارٹن کی جیب سے برآمد ہونے والی اشیا بھی تھیں۔ لیکن مارٹن کی کلائی سے بندھے ہوئے بریف کیس کا کہیں ذکر نہیں تھا۔
لندن کے حکام نے بڑے پر اضطراب انداز میں بریف کیس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ تھوڑی سی تاخیر کے بعد ۱۳؍مئی کو بریف کیس برطانوی حکام کے حوالے کردیا گیا، لیکن اس وقت تک اسپینی حکام اپنا کام دکھا چکے تھے۔ بریف کیس کے سائنسی تجزیے سے ثابت ہوا کہ اسے کھول کر لفافوں کو چاک کیا گیاہے۔ جنگ کے بعد نازیوں سے ملنے والی دستایزات سے بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ نہ صرف لفافوں کو کھولا گیا تھا بلکہ اعلیٰ ترین سطح پر کاغذات کا مطالعہ بھی کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ ہٹلر بھی اس انداز سے سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا جس انداز سے اتحادی چاہتے تھے۔ اس نے بھی اس بات کو تسلیم کرلیا تھا کہ اتحادی فوج کا اگلا نشانہ سسلی کے بجائے یونان اور سارڈینیا ہوں گے۔
جرمن ہائی کمان نے ان علاقوں کو محفوظ رکھنے کا پورا پورا انتظام کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ حملہ آور اتحادی فوج اُن کی دفاعی تیاریاں دیکھ کر حیران رہ جائے گی، لیکن اتحادیوں کو حیران کرنے کے بجائے وہ خود ششدر رہ گئے۔ اتحادیوں نے حسبِ پروگرام سسلی پر حملہ کردیا تھا۔ اس جگہ نازیوں کا دفاع نہ ہونے کے برابر تھا۔ جرمنی کی دو ڈویژن اور اٹلی کی ایک ڈویژن حیران و پریشان فوج زیادہ دیر مزاحمت نہ کرسکی۔ معمولی لڑائی کے بعد اتحادی فوج نے یہ اہم مورچہ سرکرلیا۔ ان کی ایک بہتری منصوبہ بندی نے نہ صرف ہزاروں سپاہیوں کی جانیں بچالی تھیں، بلکہ اتحادی فوج کے لیے یورپ تک کا راستہ صاف کردیا تھا۔
اس مشن کا ہیرو وہ شخص تھا جو اپنے اور اپنے مشن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جو کبھی نہیں تھا۔ اس عظیم ہیرو کے بارے میں آج بھی کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ اس کے والدین کی خواہش کے مطابق مشن کی تکمیل پر اسے نہایت خفیہ طریقے سے لیکن پورے فوجی اعزاز کے ساتھ’ ہیولوا‘ میں دفن کیا گیا۔ آج بھی ہیولوا کے کسی قبرستان میں وہ شخص ابدی نیند سورہا ہے جس نے وقت کے عظیم لیڈر ہٹلر کو زبردست عسکری جھانسا دیا تھا۔ ——