لاوارث کے وارث

محمد طارق

ایک چار سال کا بچہ جس کے ماں باپ سنامی کی دیوقامت بپھری ہوئی لہروں میں غرق ہوکر مرگئے تھے اور جس کا جھونپڑے نما گھر سمندری قہر نے ایسا تباہ کیا تھا جیسے تھا ہی نہیں۔

… وہ تنہا بچ گیا تھا … یتیم، لاوارث بچہ، جس کے لبوں پر سسکیاں تھیں اور آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب موجیں مار رہا تھا …

اس کے آنسو پونچھنے بہت سارے لوگ آئے تھے … وہ لوگ ہر اُس بچے کو گود لینے کے لیے آمادہ تھے جو یتیم اور لاوارث ہوچکے تھے۔

… بچہ دیکھ رہا تھا، ان لوگوں میں کوئی بھی اس کا شناسا نہیں تھا اور نہ رشتہ دار … مگر ہر آدمی اُن لاوارث بچوں سے اپنے رشتہ ناطے جوڑنے میں سرگرم تھا…

… کچھ لوگوں نے بھی اس سے اپنی رشتہ داری کا دعویٰ کیا تھا اور وہ ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا تھا۔ وہ لوگ ایسے لوگ تھے، جو اس جیسے غریب بچوں کو سیدھی آنکھ سے دیکھنا بھی پسند نہ کرتے تھے… اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ لوگ اسے اپنا رشتہ دار بتانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ وہ راحت کیمپ کے افسران سے ان لوگوں کے بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کرچکا تھا، اس لیے اب کسی کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ کوئی اسے گود لینے کی خواہش ظاہر کرتا۔

ایک شخص خاموش اسے دیکھ رہا تھا، اس نے کسی بچے کو گود لینے کی فرمائش نہیں کی تھی اور نہ کسی لاوارث سے اپنی رشتہ داری کا دعویٰ پیش کیا تھا۔

… وہ شخص اس کے قریب آیا اور بولا ’’دیکھو منّے! میں نہ تمہارا رشتہ دار ہوں نہ شناسا، تم میرے لیے اجنبی ہو اور میں تمہارے لیے اجنبی، میں تمہیں صرف انسانیت کی خاطر، صرف نیکی کی غرض سے گودلینا چاہتا ہوں، کیا تم راضی ہو…، لو چاکلیٹ کھاؤ …!‘‘ اس شخص نے مسکرا کر کوٹ کی جیب سے چاکلیٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دی۔

لڑکے نے چاکلیٹ لیا اور اس شخص کی طرف دیکھنے لگا… جو کچھ لمحات کے لیے اسے اپنا باپ لگ رہا تھا … بے اختیار وہ اس شخص سے لپٹ گیا۔

’’میں تمہاری پرورش کروں گا…، اپنے بیٹے کی طرح، چلو میرے ساتھ!‘‘ وہ بچے کو سینے سے لپٹائے درد بھرے لہجے میں التجا کرنے لگا۔

… بچہ کا دل پگھل گیا، وہ راضی ہوگیا… اور پھر اس شخص نے ریلیف کیمپ کے افسران سے ملاقات کی، بچے اس کی انگلی پکڑے ساتھ ہی تھا۔

افسران نے بچہ کی خواہش جاننی چاہی، ’’کیا تم ان کے ساتھ جانا چاہتے ہو؟‘‘

’’ہاں … ‘‘ بچے نے اثبات میں سرہلادیا۔ وہ بے انتہا خوش ہوگیا … جیسے اسے دنیا جہاں کی دولت مل گئی ہو۔ فوراً وہ اپنا نام، پتہ اور ضروری معلومات ریلیف کیمپ کے رجسٹر میں درج کروا کر معلومات کے خانے میں دستخط کرکے بچے کو اپنے گھر لے آیا۔

… جھونپڑے میں رہنے والا بچہ خوبصورت گھر دیکھ کر خوش ہوگیا۔ ایک لمحہ کے لیے اسے خیال آیا، ’’سنامی کے قہر نے مجھے ایک اچھا گھر تو دے دیا، کیا مجھے ماں باپ کا پیار بھی مل پائے گا؟‘‘

اسی وقت گھر کے کمرے سے ایک عورت باہر نکلی، اس عورت کو دیکھ کر اسے اپنی ماں یاد آگئی … وہ شخص عورت سے مخاطب ہوا:’’لو…! اچھی طرح دیکھ بھال کرنا۔سنامی نے اسے یتیم، لاوارث بنادیا لیکن یہ ہمیں لکھ پتی ضرور بنا دے گا۔ سرکار نے طوفان سے متاثرہ لوگوں کو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔‘‘

’’پھر ایک بچہ کیوں لائے …،دو تین اٹھا کر لے آتے۔ لکھ پتی بننے کا اس سے بہتر موقع جانے کب ملے؟‘‘

… بچہ ہکا بکا ان دونوں کی طرف دیکھنے لگا اور پھر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں…

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146