لباس اور پردے سے متعلق احکام

عربی سے ترجمہ: ساجدہ فلاحی

(۱)…ایک مسلم عورت کے لیے شریعت کس طرح کا لباس متعین کرتی ہے؟
شریعت کی نگاہ میں ایک مسلم عورت کا لباس درج ذیل صفات سے متصف ہونا چاہیے:
(۱) لباس اتنا مکمل ہو کہ نامحرم مردوں سے اس کے پورے جسم کو چھپادے۔ مزید یہ کہ عورت اپنے محرم مردوں کے سامنے بھی صرف ان حصوں کو کھول سکتی ہے جن کو عادتاً کھولنا ضروری ہے یعنی چہرہ، ہتھیلی اور قدم۔
(۲) ضروری ہے کہ لباس اندرون کو مکمل طور سے ڈھانکنے والا ہو، اس قدر باریک نہ ہو کہ اس کے نیچے سے عورت کی جلد کا رنگ یا کپڑے نظر آئیں۔
(۳) اور یہ کہ لباس اس قدر تنگ نہ ہو کہ اعضاء کی ساخت کو واضح کردے۔ حدیث مبارک میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
’’اہل جہنم کی دو قسمیں ہیں جن کو میںنے ابھی دیکھا نہیں ہے، کچھ افراد جن کے پاس بیل کی دم کے مانند کوڑے ہوں گے جس سے وہ لوگوں کو مار رہے ہوں گے ، ان میں وہ عورتیں بھی ہوں گی جو کپڑے پہن کر بھی عریاں ہوئی ہیں، دووسروں کو رچھاتی ہیں اور خود دوسروں پر ریچھتی ہیں۔ ان کے سر ناز سے بخشی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ٹیڑھے ہوں گے۔ یہ عورتیں نہ جنت میں جائیں گی اور نہ جنت کی خوشبو پائیں گی دراںحالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے آتی ہے۔‘‘
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ مجموع الفتاویٰ ۲۲/۱۴۶ میں ’’کاسیات عاریات‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ ایسے کپڑے پہنتی ہیں جو ان کی سترپوشی نہیں کرتے لہٰذا وہ فی الحقیقت عریاں ہوتی ہیں۔‘‘
یعنی وہ خواتین جو اس قدر باریک کپڑے پہنیں جس سے ان کی جلد ظاہر ہوتی ہو یا اس قدر تنگ اور چست کپڑے پہنیں جس سے ان کے جسم کی خلقت عیاں ہوتی ہو، تو ان کا شمار ’’کاسیات عاریات‘‘ میں ہوگا۔
لہٰذا عورت کے لیے شریعت کا مطلوب ایسا لباس ہے جو اس کے جسم اور اعضاء کے جسم کو ظاہر نہ ہونے دی اور مکمل طور سے عورت کی ستر پوشی کرتا ہو۔
(۴) عورت اپنے لباس میں مردوں کی مشابہت اختیار نہ کرے، نبی کریم ﷺ نے ان خواتین پر لعنت فرمائی ہے جب لباس میں مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور جسمانی طور پر مردوں جیسی بننے کی کوشش کرتی ہیں اور عورت کا مردوں کے لباس میں مشابہت اختیار کرنا یہ ہے کہ وہ ایسے کپڑے پہنے جو اپنی قسم اور صفت کے اعتبار سے سوسائٹی میں مردوں ہی کے لیے معروف ہوں۔
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مجموع الفتاویٰ میں لکھا ہے:
’’مردوں اور عورتوں کے لباس میں فرق کرنے والی چیز یہ ہے کہ لباس ان کی جسمانی ساخت کے مطابق ہو اور مرد و خواتین کو جس قدر ستر پوشی کا حکم دیا گیا ہے اس کی تکمیل کرتا ہو۔‘‘ اس لیے کہ خواتین کو مردوں کے سامنے سج دھج اور اظہارِ زینت کا نہیں بلکہ سترپوشی اور پردوں کا حکم دیا گیا ہے اسی لیے اسلام نے خواتین کو اذان کی آواز بلند کرنے اور بلند آواز سے تلبیہ کہنے جیسے امور سے مستثنیٰ رکھا ہے، حتی کہ حج کے موقع پر بھی خواتین کو اس طرح مجرد احرام پہننے کا حکم نہیں دیا گیا جس طرح مردوں کو احرام پہننے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح مرد حضرات کو حالتِ احرام میں سر کھلا رکھنے کا حکم دیا گیا اور سلے ہوئے کپڑے پہننے سے منع فرمایا گیالیکن خواتین کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے اور انھیں حسبِ سابق جملہ کپڑوں کو پہننے کی اجازت دے دی گئی، اس لیے کہ اسے پردے اور ستر پوشی پر مامور کیا گیا ہے۔ پس اس کے خلاف اس کے لیے مشروع نہیں ہے۔ البتہ یہ کہ اسے طواف کے وقت نقاب ڈالنے اور دستانے پہننے سے منع کیا گیا ہے اس لیے کہ یہ چیزیں بوقت ضرورت پردے کے لیے ہیں اور اس وقت عورت کو اس کی حاجت نہیں ہوتی۔
آگے علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ عورت ان چیزوں کے علاوہ میں اپنے چہرے پر مردوں کی موجودگی میں نقاب ڈالے گی۔ اس تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ مردوں اور خواتین کے لباس میں ایسا فرق ہونا چاہیے جس کے ذریعے دونوں میں تفاوت ہو اور یہ کہ عورتوں کے لباس میں پردہ اور ستر پوشی ہو جو کہ اس کا مقصود و مطلوب ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جب لباس ستر پوشی کے مقصد کو پورا نہ کرتا ہو یا مردوں کے مشابہ ہو تو اسے ممنوع قرار دیا جائے۔
(۵) عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلتے وقت اپنے لباس میں ایسی زینت اختیار کرے جو نگاہوں کو متوجہ کردے اور وہ ’’ولاتبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولیٰ‘‘ کے مصداق بن جائے۔
(۲) حجاب کا مفہوم کیا ہے؟
حجاب کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے پورح جسم کو نامحرم مردوں سے پوشیدہ رکھے۔ فر مان باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:’’(مومن عورتوں سے کہہ دیجیے) اپنا بناؤ سنگار نہ دکھائیں، بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں، وہ اپنا بناؤ سنگار نہ ظاہر کریں مگر صرف شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹوں کے سامنے۔‘‘(النور:۳۱)
دوسری جگہ فرمایا:
’’او رجب نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔‘‘ (الاحزا ب:۵۳)
آیت اگرچہ امہات المؤمنین کے لیے نازل ہوئی ہے لیکن اس کا حکم تمام مومن ومسلم عورتوں کے لیے عام ہے، اس لیے کہ اللہ رب العزت نے اس کے مقصد کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے۔
’’یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔‘‘
ایک اور جگہ اللہ کا فرمان ہے:
’’اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادر کے پلو لٹکا لیا کریں۔‘‘ (الاحزاب:۵۹)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے جلباب کے معنی الملأۃ دوہری چادر بیان کیے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود وغیرہم نے اس کے معنی الرداء چادر کے لیے ہیں، عام زبان میںاس سے مراد ایسا لباس ہے جو عورت کے پورے بدن و سر کو ڈھانک لے، ابوعبیدہ وغیرہ نے حجاب کی وضاحت میں کہا ہے کہ عورت اس کو اپنے سر سے اس طرح لٹکائے کہ صرف اس کی آنکھیں ظاہر ہوں، اور نقاب اسی کی ایک قسم ہے۔
جہاں تک چہرے کے پردے کا مسئلہ ہے، عورت کے اس کے نامحرم مردوں سے چھپانے کے وجوب کو حضرت عائشہؓ کی یہ حدیث ثابت کرتی ہے:
’’سوار ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتے، پس جب وہ ہمارے سامنے سے گزرتے تو ہم عورتیں اپنی چادر سر سے اپنے چہرے پر لٹکالیتیں، پس جب وہ آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنا چہرہ کھول لیتیں۔‘‘ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ)
پس مسلم بہنوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علماء میں سے وہ لوگ جنھوں نے چہرہ کھلا رکھنے کو مباح کہا ہے (باوجود اس کے کہ ان کا یہ قول مرجوح ہے) تاہم انھوں نے بھی اس میں فتنہ سے محفوظ ہونے کی قید لگائی ہے اور فی الحقیقت فتنہ سے مامون ہونا غیر یقینی ہے۔ خصوصاً اس زمانہ میں جبکہ مردوں اور عورتوں کو اللہ تعالیٰ کے محارم سے باز رکھنے والے حکام کی قلت ہے اور بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہے، نیز فتنہ پیدا کرنے والوں کی کثرت ہوگئی ہے، خواتین سج دھج اور زیب و زینت کے وہ تمام ذرائع و اقسام اختیار کررہی ہیں جو فتنہ کو دعوت دیتی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مسلم بہنیں ایسی چیزوں سے اجتناب کریں اور فتنہ سے بچانے والے حجاب کو باذن اللہ اپنے اوپر لازم کرلیں۔
معتبر مسلم علماء میں سے کوئی عالم اور نہ ہی کوئی حدیث ان فتنہ پیدا کرنے والی چیزوں کو مباح کرتی ہے جس میں آج کی خواتین مبتلا ہوتی جارہی ہیں بلکہ حدتو یہ ہے کہ کچھ مسلم خواتین حجاب میں نفاق کا طرز عمل اختیا رکررہی ہیں جب وہ ایسی سوسائٹی میں ہوتی ہیں جہاں پردے کا التزام ہے تو وہ پردہ کرلیتی ہیں اور جب وہ ایسی سوسائٹی میں ہوں جو پردے کا التزام نہیں کرتی تو وہ پردہ نہیں کرتی ہیں۔ کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو عام جگہوں پر تو پردے کا اہتمام کرتی ہیں اور جب وہ کسی مارکیٹ میں ہوتی ہیں یا ہسپتال میں ہوتی ہیں یا کسی سنار سے بات کررہی ہوتی ہیں یا ٹیلر کے پاس ہوتی ہیں تو اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کھول دیتی ہیں گویا کہ وہ اپنے شوہر یا کسی محرم رشتہ دار کے پاس ہوں۔ پس ایسی خواتین کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور حدود کو توڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
مسلم بہنوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ حجاب حیوان صفت انسانوں اور دل کے مریضوں کی مسموم نگاہوں سے حفاظت کرتا ہے اور انھیں لالچ میںمبتلا کرنے والی برائی سے دور رکھتا ہے پس خواتین کو چاہیے کہ اس کو لازم رکھیں، اور کتاب اللہ کے حکم کو مضبوطی سے تھامے رہیں اور ان خالی خولی نعروں کی طرف التفات نہ کریں جو حجاب کی مخالفت و محاربت میں پیش کیے جاتے ہیں، جس سے ان مخالفین ِاسلام کا مقصد حجاب کی شان و شوکت کو کم کرنا ہے اور اس کے ذریعہ مسلم خواتین کے لیے خیر کا نہیں بلکہ شر کا ارادہ کیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
’’جو لوگ خود اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ۔‘‘ (النساء: ۲۷)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146