انوار: (انصار سے) تم تو شادی کے سخت خلاف تھے پھر یہ شادی کیسے کرلی؟
انصار: دراصل مجھے اپنی ہم خیال لڑکی مل گئی۔
انوار: کیا مطلب؟
انصار: وہ بھی تو شادی کے خلاف تھی۔
٭٭٭
مالک: (ملازم سے) تم نے اس دفتر میں کتنے دن کام کیا؟
ملازم: ۵۰ سال۔
مالک: تمہاری عمر کیا ہے؟
ملازم : جی ۳۰ سال۔
مالک: جب تمہاری عمر ۳۰ سال ہے تو آخر ۵۰ سال کام کیسے کرلیا؟
ملازم : اس میں اوور ٹائم بھی تو شامل ہے۔
٭٭٭
فیکٹری کا مالک: (امیدوار سے) تم کس کس کام میں مہارت رکھتے ہو؟
امیدوار: باورچی خانہ، ڈرائنگ روم اور تجوری صاف کرنے میں۔
٭٭٭
ایک بھکاری (دوسرے سے): اگر تم اندھے ہوتے تو زیادہ بھیک ملتی۔
دوسرا بھکاری: میں کھوٹے سکوں سے تنگ آکر ہی لنگڑا بنا ہوں، ورنہ میں بھی پہلے اندھا ہی تھا۔
٭٭٭
مریض: (نرس سے) میری پریشانی کا سبب وہ خواب ہے جس میں ایک بڑا ساتربوز کھاتے ہوئے میں نے خود کو دیکھا ہے۔
نرس: اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟
مریض: پریشانی بس یہی ہے کہ خواب دیکھنے کے بعد میرا تکیہ نہیں مل رہا ہے۔
٭٭٭
ایک چور کسی کے گھر میں چوری کے ارادے سے داخل ہوا۔ تبھی مالک مکان کی نیند کھل گئی۔ چور ذرا بھی نہ گھبرایا۔ اس نے پاس پڑا ہوا ڈنڈا اٹھا لیا۔ مالک مکان نے جب یہ صورتِ حال دیکھی تو اس نے چور سے کہا کہ وہ جو بھی جی چاہے لے جاسکتا ہے، مگر اسے نہ مارے۔ چورنے اپنا ارادہ ترک نہیں کیا اور بولا: مار تو تمہیں کھانی پڑے گی کیونکہ ہم محنت کی کمائی کھاتے ہیں۔
٭٭٭
کرایہ دار (مکان مالک سے): آپ کا مکان اتنا خستہ اور کمزور ہے کہ اس کی دیواریں ہمیشہ رکوع کی حالت میں رہتی ہیں۔
مکان مالک: یہ تو اچھی بات ہے کہ میرے گھر کی دیواریں بھی عبادت گزار ہیں۔
کرایہ دار: دراصل مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں وہ سجدے میں نہ چلی جائیں۔
٭٭٭
کرایہ دار: برسات کے موسم میں آپ کے مکان کی چھت اتنی ٹپکتی ہے کہ باہر نکلنے کی نوبت نہیں آتی۔ میں ہر بارش میں بھیگ بھیگ جاتا ہوں۔
مکان مالک: یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ مفت میں غسل کا لطف بھی لے لیتے ہیں۔
کرایہ دار: (معصومیت سے) دراصل پریشانی مجھے نہیں بلکہ میری مرغیوں کو ہے جو بھیگ جاتی ہیں۔
مکان مالک: تو آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ بطخیں پال لیں۔ یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔
٭٭٭
سلیز مین نے دروازے کی گھنٹی بجائی۔ خاتون خانہ نے دروازہ کھولا۔
سیلزمین : میڈم ہماری کمپنی سوئی سے لے کر فریج تک تمام گھریلو سامان سپلائی کرتی ہے۔ صابن، تولیہ، اگربتی، نمکین، بسکٹ، باورچی خانہ کا سامان، سجاوٹ کی اشیاء…
خاتون خانہ: (بات کاٹتے ہوئے) میں سیلز مین سے کوئی سامان نہیں خریدتی اس لیے یہاں سے تشریف لے جائیے۔
سیلزمین: پھر تو یہ تختی آپ کے لیے خاص کار آمد ہوسکتی ہے جس پر لکھا ہے : ’’سیلز مین حضرت دروازے کی گھنٹی نہ بجائیں۔ ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ اس کی قیمت صرف ۲۰ روپئے ہے۔
٭٭٭
گوالے نے نیا اسکوٹر دیکھ کر اپنے پڑوسی ساجد صاحب سے کہا: ’’مٹھائی کھلائیے۔ آپ نے نیا اسکوٹر خریدا ہے۔‘‘
’’جب تم نے نئی گائے خریدی تھی تو مٹھائی کھلائی تھی۔‘‘ ساجد صاحب نے الٹا اسی سے سوال کردیا۔
’’جی! مجھے گائے کی سواری تھوڑے ہی کرنی تھی۔‘‘ گوالا بولا۔
’’مجھے بھی کہاں اپنے اسکوٹر سے دودھ نکالنا ہے۔‘‘ ساجد صاحب نے اطمینان سے جواب دیا۔
٭٭٭
ایک شخص نے نئی نئی دوکان کھولی اور اس کا بیمہ کروایا۔ اتفاق کی بات اسی شام دکان میں آگ لگ گئی۔ دکان میں موجود سارا سامان جل کر خاک ہوگیا۔ بیمہ کمپنی کو شک ہوا لیکن ثبوت نہ ملنے کے سبب وہ کوئی کارروائی نہ کرسکی۔ چند دنوں کے بعد دکان کے مالک کوکمپنی کی جانب سے ایک خط ملا جس میں تحریر تھا: ’’آپ نے منگل کی صبح دکان کا بیمہ کروایا اور اسی دن شام کو دکان میں آگ لگ گئی، براہ کرم اس تاخیر کا سبب بتلائیں؟‘‘
٭٭٭
بیوی کے ہاتھ میں ہاضمولہ اور چورن دیکھ کر خاوند کو حیرانی ہوئی۔
خاوند: یہ چورن اور ہاضمولہ کی گولیاں کس لیے ہیں؟
بیوی: دراصل میں کھانا ہضم کرنے کے لیے ان کااستعمال کررہی ہوں۔
خاوند: تم سے کوئی بات توہضم ہوتی نہیں ہے پھر کھانا ہضم کرنے کے لیے چورن کھانے کی کیا ضرورت ہے؟
٭٭٭