آصف نے ارشد سے کہا: ’’میرے دادا شکار کے شوقین ہیں۔‘‘
’’ایک دن جنگل میں ان کا سامنا ایک شیر سے ہوگیا۔ انھوں نے اپنی بندوق شیر کے سامنے تانی اور شیر بھاگ گیا۔‘‘
ارشد نے کہا: ’’یہ تو کچھ بھی نہیں…!‘‘
’’میرے دادا نے تو شیر کو صرف بندوق کا لائسنس دکھایا اور شیر بھاگ کھڑا ہوا۔‘‘
٭٭٭
بیٹا (باپ سے) ’’ابا جان! میرے دوست کی شادی ہے میں کیا تحفہ دوں؟‘‘
باپ: ’’بیٹا انگوٹھی دے دو۔‘‘
بیٹا: ’’ابا جان انگوٹھی تو اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ نظر بھی نہیں آئے گی۔‘‘
باپ: ’’تو پھر سائیکل کا پہیا دے دو۔‘‘
٭٭٭
ایک شخص نے دوسرے سے شرط لگائی کہ مجھ سے جلدی کوئی نہیں نہا سکتا۔ کیونکہ میں صابن نہیں لگاتا۔
دوسرا بولا: میں تم سے بھی جلدی نہاسکتا ہوں، کیونکہ میں پانی نہیں لگاتا۔
٭٭٭
مالک نوکر سے: ’’نہ تو اچھی طرح صفائی کرتے ہو اور نہ تمہیں سودا سلف خریدنا آتا ہے۔ آخر تمہیں آتا کیا ہے۔‘‘
نوکر: ’’جناب صرف پسینہ آتا ہے۔‘‘
٭٭٭
استاد (شاگرد سے): اگر قالین پر دودھ گرجائے تو کیا کرنا چاہیے۔
شاگرد: قالین پر بلی چھوڑ دینی چاہیے۔
٭٭٭
دو پہلوانوں کی کسی بات پر تکرار ہوئی۔
پہلا پہلوان: ’’میں تمہیں اتنے زور سے تھپڑ ماروں گا کہ امریکہ پہنچ جاؤگے۔‘‘
دوسرا پہلوان: ’’میں تمہیں اتنے زور سے تھپڑ ماروں گا کہ تم جاپان پہنچ جاؤگے۔‘‘
ایک راہ گیر جو قریب سے گزر رہا تھا کہ وہ ان کے پاس آیا اور کہنے لگا۔
’’جناب پہلوان صاحب۔ ایک ہلکا سا تھپڑ مجھے بھی مار دیجیے مجھے الہ آباد جانا ہے ۔ میرے پاس کرایہ نہیں ہے۔‘‘
٭٭٭
بچہ (نانا سے): ’’نانا ابو یہ سڑک کہاں جاتی ہے۔‘‘
نانا: ’’بیٹا! یہ سڑک اسپتال جاتی ہے۔‘‘
بچہ (معصومیت سے): ’’نانا یہ سڑک کیا بیمار ہے جو اسپتال جاتی ہے۔‘‘
٭٭٭
امریکہ کے ماہرین آثار قدیمہ کو ایک پرانا کتّے کا مجسمہ ملا، لیکن انہیں اس کی قدامت کے بارے میں کچھ پتہ نہ چل سکا۔ چنانچہ انھوں نے اعلان کیا کہ جو کوئی اس کی صحیح قدامت بتائے گا اسے انعام دیا جائے گا۔ ایک پولیس انسپکٹر نے کہا کہ وہ بتاسکتا ہے، چنانچہ مجسمہ اس کے حوالے کردیا گیا۔ چند روز بعد اس پولیس انسپکٹر نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ ’’مجسمہ چار سو بیس سال قبل مسیح کاہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ ایک اخبار نویس نے پوچھا۔
پولیس انسپکٹر فخر سے بولا: ’’ہم نے جب اس کتّے کے مجسمے کو ’’بجلی کی کرسی‘‘ پر بٹھایا تو اس نے خود اپنی زبان سے بتایا کہ وہ اتنا قدیم ہے۔‘‘
٭٭٭
مالک (نوکر سے) ’’میں نے تم سے کہا تھا کہ چاول، چوزے کو کھلانا تم بلی کو کھلارہے ہو۔‘‘
نوکر: ’’جناب بلی کو اس لیے چاول کھلا رہا ہو کہ چوزہ بلی کے پیٹ میں چلا گیا ہے۔‘‘
٭٭٭
’’میری امی ابو میرے لیے ایک چھوٹی سی بہن لائے ہیں۔‘‘ ایک بچے نے اپنی کلاس ٹیچر کو بتایا۔ ’’کیا وہ آپ کو اچھی لگتی ہے؟‘‘ ٹیچر نے پوچھا: ’’ہاں اچھی تو لگتی ہے۔‘‘ بچہ بولا: ’’لیکن اگر وہ لڑکا ہوتا تو زیادہ مزہ آتا اور پھر میں اس کے ساتھ خوب کھیلتا۔‘‘ ’’توآپ اپنی امی ابو سے کہیں کہ وہ آپ کی بہن کو بدل کر آپ کے لیے بھائی لے آئیں۔‘‘ ٹیچر نے کہا: ’’اب بدلا نہیں جاسکتا۔‘‘ بچے نے افسردگی سے کہا: ’’اب تو ہم اسے چار دن استعمال کرچکے ہیں۔‘‘