’’دو بھائیوں نے جائداد پر قبضہ کرنے کے لیے بوڑھی ماں کو قتل کردیا۔‘‘ اور ’’بوڑھی ماں کو بیٹے اور بہو نے گھر سے نکالا۔‘‘ ’’ایک عورت نے اپنے تین بچوں کو ندی میں ڈبو کر مار ڈالا۔‘‘ یہ باتیں فرضی نہیں بلکہ اخبارات کی سرخیاں ہیں۔ ایسی لاتعداد اخباری سرخیاں آئے دن قارئین روزناموں میں پڑھتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی اخبارات میں ایسی خبریں بھی شائع ہوتی ہیں کہ مجبور ماں بڑھاپے کے عالم میں در در بھٹکنے پر مجبور ہے۔ کہیں یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ بوڑھی ماں نے اپنا گزارا بھتہ بیٹوں سے دلوانے کے لیے عدالت میں درخواست دی یا سرکاری حکام سے شکایت کی۔ جی ہاں انہی وجوہات کی بنا پر اب حکومت نے ایسا قانون بنایا ہے کہ جو لوگ بڑھاپے میں والدین یا کسی ایک کی دیکھ بھال یا خرچ دینے میں کوتاہی کریں گے انہیں جیل کی ہوا کھانی ہوگی۔ یہ قانون اپنی جگہ درست اور وقت کا تقاضا ہے جس کا ہر صاحبِ دل استقبال کرے گا۔
۱۰؍مئی ’عالمی یومِ مادران‘ یا ’مدرس ڈے‘ تھا۔ ہر سال ماہ مئی کا دوسرا اتوار ۱۹۱۴ء میں امریکہ میں سرکاری چھٹی کا دن قرار دیا گیا اور یہ خدمت امریکی صدر ووڈرو ولسن نے انجام دی۔ اسی وقت سے اس دن کو ’ماں‘ کے احترام اور اس سے محبت کے دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ ہر سال کا ایک دن اور ماں سے محبت و احترام کا جذبہ اس حیثیت سے بڑا دلکش ہے کہ ۳۶۵ دنوں میں سے ایک دن کو ’ماں‘ کے نام خاص کردیا گیا۔ مگر کیوں؟ یہ سوال اہم ہے۔ شایداس لیے کہ امریکہ میں خاص طور پر اور مغربی دنیا میں عام طور پر بڑھاپے میں والدین کی دیکھ ریکھ سے غفلت برتی جاتی رہی ہو اور اب اس دن کے ماؤں سے معنون کردینے کے بعد یہ مسئلہ حل ہوجائے گا اور لوگ ماؤں کی عزت و احترام اور محبت و خدمت کے جذبے سے بھر جائیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ امریکی معاشرے میں یہ غفلت بڑھتے بڑھتے بحران کی حد تک پہنچ گئی، یہاں تک کہ حکومت کو بوڑھے لوگوں کے انتظام اور آخری ایام زندگی گزارنے کے لیے ’’اولڈ ایج ہومس‘‘ بنانے پڑے۔ اور اب تو یہ غفلت ایک عالمی حقیقت بن گئی ہے اور ہندوستان جیسے مذہبی اور روایت پسند معاشرے میں بھی اولڈ ایج ہومس کی خاصی تعداد موجود ہے۔ تو — تو یہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کا حسین ترین لفظ ’’ماں‘‘ اپنی معنویت کھو رہا ہے۔ جی ہاں یہ لفظ احترام سے تو پہلے ہی محروم ہوگیا تھا جب مادہ پرست تہذیب نے انسانوں کے دماغ اور ان کے اوقات زندگی پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا۔ مگر اب خالی خولی تیوہاری قسم کی اشتہاری مہم نے اس کی رہی سہی معنویت بھی کھودی۔
لفظ ماں جہاں مقدس و محترم ہے وہیں پیار و محبت اور بے لوث چاہت و قربانی کی علامت بھی ہے۔ لیکن جدید تہذیب کا سایہ پڑنے کے سبب یہ لفظ جہاں اپنی معنویت کھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہیں اس کا تقدس بھی پامال ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی اور دولت کے بل پر ہر چیز خرید ڈالنے کی سوچ نے اس لفظ کے تقدس اور اس میں چھپے پیار و محبت اور بے لوث جذبۂ خدمت کے سمندر کو بھاپ بناکر اڑانا شروع کردیا ہے اور اب ’مدرس ڈے‘ جیسی چیزیں محض منانے کے لیے ایک تقریب کی صورت اختیار کرتی جارہی ہیں جہاں یا تو ایک روز مل بیٹھ کر تحفے تحائف تقسیم کرلیے جاتے ہیں یا اولڈ ایج ہومس میں سڑ رہی ماؤں کو گریٹنگ کارڈس بھیج کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس خاص دن پر ماں کو یاد کرلینے سے ان کی محبت کا حق ادا کردیا گیا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اب ماؤں کی اہمیت اولاد کی زندگی سے اور اولاد کی اہمیت ماؤں کی زندگی سے نکلتی چلی جارہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کلوننگ کے ذریعہ پیدا کیے جانے والے انسانوں کی بھیڑ کچھ سالوں بعد ’مارکیٹ‘ میں اتار دی جائے کہ ہر انسان اپنی ضرورت کے مطابق انسان خرید سکے۔ سائنس کی اس ترقی نے تو ’ماں‘ کو معنوی اور عملی دونوں اعتبار سے ’حرف غیر ضروری‘ بنادیا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
ماں کے تقدس کی پامالی اور اس کی اہمیت و بلند رتبے کو خاک میں ملا ڈالنے والی چیز ’’کرائے کی کوکھ‘‘ یا سیروگیٹ مدرس کی بڑھتی تعداد اور پھلتا پھولتا بزنس بھی ہے۔ یہاں وہ افراد آتے ہیں جنھیں اپنی اولاد حاصل کرنے کے لیے ایک خاتون کا رحم درکار ہوتا ہے، جو ان کے ڈالے ہوئے بیج کو نو ماہ کی مدت تک اپنے شکم میں رکھ کر پرورش کرسکے اور پھر پیدا کردینے کے بعد اسے اس کے مالک کے حوالے کردے۔ اس کے بدلے اسے کرایہ حاصل ہوگا اور وہ اس بچے کے اپنے شکم میں پالنے، پیدا کردینے اور جن دینے کے بعد حسب حیثیت لاکھ، دولاکھ چار لاکھ وغیرہ رقم کی حقدار ٹھہرے گی اور ماں ہونے کے باوجود اس بچے پر ماں ہونے کے دعوے اور اس کی پرورش و پرداخت کی خواہش سے دستبردار ہوجائے گی۔ جی ہاں اسے ’’ماں ہونے‘‘ (امومت) کی موت کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
ہماری سماجی و معاشرتی روایات جو ماں، والدین یا بڑوں کی عزت و احترام سے متعلق تھیں مفاد پرستی اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہیں۔ بڑھاپے کے عالم میں جب کہ زمانے کی گردش وہیں لوٹ آتی ہے جہاں سے انسانی زندگی کا سفر شروع ہوا تھا، ماں باپ اور خاص طور پر باپ کے انتقال کے بعد ماں کا بوڑھا وجود اولاد کے لیے بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے۔ مال و اسباب اور جائداد پر جلد از جلد قابض ہونے کی غلیظ خواہش دل و دماغ میں کلبلانے لگتی ہے اور کہیں وہ بہوؤں کے بے رحم ٹکڑوں پر بڑھاپے کے آخری ایام گزرانے مجبور ہوتی ہے تو کہیں بھوک سے بے حال اور ضروریات زندگی سے تنگ آکر اپنے ہی بچوں سے پیٹ بھر روٹی اور گزارے کے لیے چند روپیوں کی بھیک مانگنے کی حالت کو پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے سماج میں تو اب یہ بھی نظر آنے لگا ہے کہ بوڑھی ماں فاقوں سے تنگ آکر یا تو خود کشی کرلیتی ہے یا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی تمناکرتی رہتی ہے۔ حالانکہ یہ زندگی کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں پہنچ کر اولاد کو بوڑھی ماں کی دیکھ ریکھ اسی طرح کرنی چاہیے تھی جس طرح اس نے اپنی جوانی اور اولاد کے بچپن اس وقت کی تھی جب اولاد محض گوشت کا ایک زندہ لوتھڑا تھی۔ اب وہ شروڑ کمار نہیں ملتے جس نے اپنے کندھوں پر بٹھا کر اپنے ماں باپ کو تیرتھ یاترا کرائی تھی۔ اس کے برخلاف اب ہونے یہ لگا ہے کہ بیٹے ماں کو بہلا پھسلا کر کمبھ کے میلے لے جاتے ہیں اور لاکھوں انسانوں کی بھیڑ میں ایک جگہ بٹھا کر یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ ہم ابھی آرہے ہیں اور پھر کبھی نہیں آتے۔اور یہ بھی ہمارے ہی سماج کی تصویر ہے جس میں براندبن اور کاشی کے ’وڈوآشرم‘ ایسی بیوہ ماؤں سے بھرے ہوئے ہیں، جن کو ان کی اپنی اسی اولاد نے چھوڑ دیا ہے اور اپنے ہی بیٹوں کے بھرے ہوئے گھر میں ان کے لیے نہ کوئی عزت ہے نہ جگہ اور نہ ہی کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی۔ مغربی معاشرے کو چھوڑ یے یہ سب وہاں کی باتیں جہاں بھارت ماتا، گائے ماتا اور دھرتی ماں ہے اور اگر ماں نہیں ہے تو وہ ’ماں‘ جس نے انسانوں کو جنم دیا اور جس نے پال پوس کر بڑا کیا۔
یہ حقیقت ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے سماج کا ہر فرد اسی رویہ پر کاربند نہیں ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس سماج کا ہر فرد مدرس ڈے بھی نہیں مناتا۔ کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرے گاکہ جس طرح جس تعداد میں لوگ مدرس ڈے مناتے ہیں، اسی طرح وہ بوڑھی اور لاچار ماں کی ’’سیوا‘‘ کو مکتی اور نجات کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ سماج کا ایک سرسری سا جائزہ بتاتا ہے کہ جس طرح ویلن ٹائن ڈے مناکر اظہارِ عشق و محبت کرنے والے ناپائیدار اور وقتی محبت کو اپنی ہوس مٹانے کا ذریعہ بناتے ہیں اسی طرح مدرس ڈے کو ’سیلی بریٹ‘ کرنے والے لوگوں میں سے بہت سے اپنی اس بے وفائی اور ماں کے ساتھ احسان فراموشی کے داغوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اظہارِ محبت کے یہ انداز اگر نقلی اور مصنوعی نہ ہوتے تو آج گھر میں اور گھر کے باہر بھی ہر قسم کی خواتین کے خلاف تشدد اور ظلم کی آندھی نہ گھروں میں چلتی نہ گاوؤں، قصبوں اور شہروں میں چلتی۔ ہرانسان کسی ماں کابیٹا یا بیٹی ہے اور دیر یا سویر ہر انسان کو ماں باپ ہونے کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ اس لیے اگر ہم واقعی اس دن کو بامعنی اور ماں کی محبت اور اس سے تعلق کو پرخلوص بنانا چاہتے ہیں تو اپنے ارد گرد کی ان حقیقتوں سے نہ صرف آنکھ ملانی ہوگی بلکہ اپنے اندر اور باہر دونوں جگہ ایک مثبت تبدیلی کا عزم کرنا ہوگا۔
نبی کریم ﷺ اور آپ کی تعلیمات کا یہ احسان دنیا کو نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ نے جنت کو ماں کے قدموں تلے بتاکر ماں کو جو دائمی عزت دی اس کا مقابلہ ’مدرس ڈے‘ منانے سے ہرگز ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔ خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خاص طور پر اور تمام انسانوں کو عام طور پر یہ زبردست ہدایت ہے کہ:’’اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور ان کے ساتھ نرمی (قول کریم) کے ساتھ بات کرو۔‘‘اللہ کے رسول ﷺ نے والدین پر بڑھاپے میں ایک پیار بھری نگاہ ڈالنے کے اجر کو حجِ اکبر کے اجر کے برابر قرار دیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم سماج ماں کی اس عظمت و بلند مرتبت کو خود سمجھے اور پھر دنیا کے سامنے اس کی عملی تصویر پیش کرے۔ اگر ہم اس اللہ اور اس کے رسول کی ماں سے متعلق ان تعلیمات کو سمجھنے اور عملی زندگی میں برتنے سے گریز کرتے ہیں تو دنیا و آخرت میں ناکامی و نامرادی کے علاوہ ہمیں اور کیا مل سکتا ہے۔
——