ہمارے محلے میں ایک لڑکی رہتی تھی اس کا نام شیما تھا۔ ایک دن وہ کسی کام سے ہمارے گھر آئی شام کا وقت تھا میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا۔ اس نے آتے ہی مجھے سلام کیا اور امی جان کے بارے میں پوچھنے لگی میں نے بتایا کہ وہ اندر کمرے میں ہیں۔ شیما ان کے پاس چلی گئی۔
شیما کے جانے کے بعد میں نے ماں سے اس کے بارے میں پوچھا وہ بولیں … تم نے نہیں پہچانا… یہ شیما تھی جب چھوٹی تھی تو ہمارے یہاں کھیلنے آیا کرتی تھی اب بڑی ہوگئی ہے اس لیے گھر سے کم نکلتی ہے۔ آج میں نے بلوایا تھا مجھ کو اپنی قمیص کی سلائی ٹھیک کرانی تھی۔
اگلے دن میں گھر آیا تو شیما صحن میں امی کے پاس بیٹھی تھی اور امی کی ایک تنگ قمیص کی سلائی کھول کر ٹھیک کر رہی تھی۔ میں نے اس کو سلام کیا۔ اس نے جواب دینے کے بجائے شرما کر سر جھکالیا۔ اگلے روز امی بیمار ہوگئیں۔ اس کے بعد شیما روز انہ ہمارے گھر آنے لگی۔ وہ امی کی تیمارداری اور مدد کے لیے آتی تھی۔
شیما کا باپ فوت ہوچکا تھا۔ یہ چار بہنیں تھیں اور بھائی ایک ہی تھا جو شیما سے بڑا تھا اور کسی دوسرے شہر میں معمولی سی ملازمت کرتا تھا۔ اس کنبے کا گزارہ اسی کی تنخواہ پر تھا۔ شیما اپنی بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔
نویں کلاس میں تھی جب اس کا باپ فوت ہوا تھا تب سے تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوچکا تھا۔ وقت گزرتا گیا۔ شیما ہمارے گھر آتی رہتی تھی۔ اس کی امی کا میری امی سے بہت دوستانہ تھا۔ اور امی کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ گھر کا تمام کام سنبھال سکیں۔ شیما ان کا ہاتھ بٹانے آتی تھی۔ امی بھی شیما کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ اس کے گھر ہر شے بھجوادیا کرتی تھیں۔ میرا ایف ایس سی کا رزلٹ آیا۔ میں نے پوزیشن لی تھی۔ تمام محلے میں امی جان نے مٹھائی بانٹی میں نے شیما کو بھی اصرار کرکے مٹھائی کھلائی۔ بس اسی روز سے محبت دلوں میں پروان چڑھنے لگی۔ میرے بڑے عزائم تھے، سخت محنت کے بعد اتنے نمبر حاصل کرچکا تھا کہ جس کالج میں چاہتا داخلہ لے سکتا تھا لیکن انہی دنوں امی جان نے مجھے شیما سے محبت کی باتیں کرتے دیکھ لیا۔ انھوں نے مجھے اور شیما دونوں کو ڈانٹا اور شیما کو گھر آنے سے روک دیا۔ بلکہ اس کی بے عزتی بھی کی۔
اس واقعہ کا میرے دل و ذہن پر ایسا اثر ہوا کہ میں بجھ کر رہ گیا۔ مجھے امی جان سے یہ امید نہ تھی کہ وہ اس قدر سختی سے کام لیں گی میں مایوس ہوگیا۔ تعلیم میں دل لگانے کے بجائے شیما کی جدائی پر آنسو بہانے لگا دن رات اسی کا خیال رہتا، اسی کے خواب دیکھنے لگا۔ میں نے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لینے کے بجائے آورہ گردی شروع کردی، سگریٹ پیتا، المیہ گانے سنتا اور شیما کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں گلی میں اس کے گھر کی کھڑکی کے نیچے کھڑا رہتا۔
انہی دنوں جب کہ میں جذباتی طور پر پریشان تھا اور ٹوٹا ہوا دل لیے پھر رہا تھا۔ میری ملاقات ایک آوارہ نوجوان شیرو سے ہوگئی۔ اس کا پورا نام شیر محمد تھا۔ اس نے مجھ سے ہمدردی جتائی۔ میں نے اس کو اپنا راز کہہ سنایا۔ تو پھر وہ میرا پکا دوست بن گیا۔ میں نے شیرو کے ساتھ ہر وقت اٹھنا بیٹھنا شروع کردیا۔ میرے اخراجات وہی اٹھانے لگا۔ ان دنو ںابا جان روزگار کے سلسلے میں سعودیہ میں تھے اور باقی بہن بھائی چھوٹے تھے مجھے کسی کا ڈر نہ تھا۔ میں رات کو دیر سے گھر آنے لگا۔ رات گئے تک میں شیرو کے ساتھ گھومتا رہتا۔
امی جان پر میرے اس ردِّ عمل کا شدید اثر ہوا۔ وہ بیمار ہوگئیں اور انھوں نے تمام حالات ابا جان کو لکھ دئے۔ والد صاحب پردیس سے سب کام چھوڑ کر بھاگے۔ مجھے بہت سمجھایا مگر شیرو نے مجھ پر ایسا جادو کردیا تھا کہ اب میں اس کے بغیر خوش رہنے کا تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ میں نے اس کی دوستی ترک نہ کی۔ والد صاحب نے سختی کی، مارکٹائی تک نوبت پہنچی اور میں والد صاحب کے ڈر سے گھر چھوڑ کر شیرو کی پناہ گاہ میں آگیا۔
والد صاحب روزگار کی وجہ سے مجبور تھے وہ چند دن رہ کر واپس لوٹ گئے لیکن میرے گھر واپس لوٹنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا میں پوری طرح شیرو کے چنگل میں پھنس چکا تھا۔ میں ایک لفظ بھی شیرو کے خلاف نہیں سن سکتا تھا۔ جو کوئی اس کو برا بھلا کہتا میں لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتااور اس کو کھری کھری سنادیتا۔
شیرو کے ساتھ رہ کر اب میں نے ہر وہ کام کرنا شروع کردیا تھا جس سے میرے گھر والوں کی عزت خاک میں مل سکتی تھی۔ شیرو چرس بھرے سگریٹ پیتا تھا اس نے مجھ کو بھی یہ سگریٹ پلانے شروع کردئیے اور میں پینے لگا۔ والد صاحب نے جب سے مجھے مارا تھا میں گھر چھوڑ کر شیرو کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ لیکن جب رقم کی بہت ضرورت ہوتی، گھر جاتاتھا، ماں سے رقم مل جاتی تو ٹھیک، نہ ملتی تو گھر کی کوئی نہ کوئی چیز اٹھالاتا اور بازار میں اونے پونے بیچ کر رقم کھری کرلیتا تھا۔
شیرو ایک سیٹھ کی کار پر ڈرائیور تھا۔ میری بربادی کے دن اب شروع ہوچکے تھے کیونکہ شیرو کا مالک منشیات کا دھندہ کرتا تھا یہ لوگ مجھ سے ناجائز کام کراتے۔ میں شیرو کی ہر بات مانتا تھا۔ شیرو کی وجہ سے ہر ایک نے مجھے چھوڑ دیا۔ میرے دوست پہلے تو مجھے سمجھاتے رہے کہ تم شیرو کا ساتھ چھوڑ دو۔ مگر جب میں نے شیرو کی دوستی نہ چھوڑی تو سارے دوست مجھے چھوڑ گئے لیکن مجھے کسی کی پروا نہ تھی۔
شیرو کواس بات کا علم تھا کہ شیما کی وجہ سے میری اپنی والدہ سے دوری ہوگئی تھی اور پھر میں نے اپنی تعلیم، اچھا مستقبل اور گھر بار چھوڑ دیا۔ وہ مجھے اکثر کہتا تھا جس لڑکی کی وجہ سے تو نے سب کو چھوڑا ہے اب اس لڑکی کو تم کو ہر حال میں حاصل کرنا چاہیے۔ میں نے شیرو سے کہا کہ جب تک میرا کوئی باعزت روزگار نہ ہوگا میں شیما کو کس طرح حاصل کرسکتا ہوں اس نے مجھے کچھ رقم اپنے سیٹھ سے لے کر دی اور میں نے ایک دکان کھول لی تاکہ میں شیما کا رشتہ حاصل کرسکوں۔
شیرو اکثر آکر دکان پر بیٹھتا تھا۔ وہ مجھ سے شیما کے بارے میں باتیں کرتاتھا اور اکساتا تھا کہ مجھے شیما سے دوبارہ میل ملاقات بڑھانی چاہیے تاکہ لڑکی ہاتھ میں رہے اور رشتہ نہ ملنے کی صورت میں ہم اس کو اس کے گھر سے اٹھالائیں۔
شیرو کی بتائی ہوئی ترکیبوں سے میں شیما سے رابطہ رکھنے میں کامیاب ہوگیا اور ہم گھر سے باہر باغوں اور پارکوں میں ملنے لگے۔
شیما سے ملاقاتیں ہونے لگیں تو میں ایک طرح سے دوبارہ سکون میں آتا گیا۔ اب میرا جی چاہتا کہ ہر برائی چھوڑ دوں حتی کہ شیرو کا ساتھ بھی چھوڑ دوں اور پھر سے تعلیم شروع کردوں۔ مجھے مستقبل کی فکر ستانے لگی میںاب شیرو پر کم توجہ دیتا تھا اور اگر وہ کوئی غلط کام کرنے کو کہتا تو میں حیلے بہانے کرنے لگتا۔
شیرو سمجھ گیا شیما کی محبت نے مجھے بدل دیا ہے وہ یہ کسی طرح نہ چاہتا تھا کہ میں اس کی گرفت سے آزاد زندگی گزاروں۔ اس نے مجھے شیما سے دور کرنے کی کوشش کی اور یہ ناممکن تھا۔ اب اس نے ایک نئی چال چلی۔ اب اس نے کہا … جو رقم میں نے تم کو سیٹھ سے لے کر دکان کے لیے دی تھی وہ اس کو واپس کرنی ہے ہر صورت میں سیٹھ رقم کا مطالبہ کررہا ہے۔ اگر ہم نے رقم نہ دی تو وہ دکان پر قبضہ کرلے گا اور ہم کو گرفتار بھی کرادے گا۔
اس بات سے میں سخت پریشان ہوگیا انہی دنوں میرے والد سعودیہ سے آگئے انھوں نے مجھ کو پیار سے گھر واپس لے جانے کی کوشش کی اور کہا اگر تم شیرو کا ساتھ چھوڑ دو تو میں تم کو کافی رقم دو ںگا تاکہ تم صدر بازار میں ایک بڑی دکان کرسکو۔
میں فوراً راضی ہوگیا میں نے سوچا کہ اس رقم میں سے وہ رقم میں نکال کر شیرو کو دے دوں گا جو اس نے مجھے دکان کے لیے اپنے سیٹھ سے لے کر دی تھی یا پھر دکان ہی اس کو دے دوں گا۔ جب میرے والد صاحب مجھے کاروبار کے لیے رقم دے رہے ہیں تو پھر مجھے اس کی دکان کی کیا ضرورت ہے۔
اب میں نے شیرو ںے صاف کہہ دیا کہ تم کو رقم مل جائے گی۔ لیکن میں تمہارا ساتھ چھوڑ کر گھر لوٹ جاؤں گا۔ والد صاحب مجھ کو اسی شرط پر رقم دے رہے ہیں۔ شیرو یہ بات سن کر خاموش ہوگیا۔
وہ جاکر شیما کے بھائی سے ملا اور اس کو میری اور شیما کی ملاقاتوں کے بارے میں سب کچھ بتادیا۔ شیما کے بھائی کو اس نے اس قدر بھڑکایا اور غصہ دلایا کہ وہ میری جان کا دشمن ہوگیا۔ شیرو نے کہا اگر تم چاہو تو میں تم کو اپنی آنکھوں سے تمہاری بہن اور سہیل کی ملاقات دکھا سکتا ہوں۔
مجھے کچھ پتہ نہ تھا کہ شیرو میری اور شیما کی رپورٹ شیما کہ بھائی کو پہنچا رہا ہے۔ میں اب بھی اس پر بھروسہ کرتا تھا۔ اور شیما اور اپنی ملاقات کا حال اس کو بتا دیا کرتا تھا۔ جس روز مجھے شیما سے باغ میں ملنا تھا شیرو کو علم تھا وہ اس دن شیما کے بھائی کو موٹر سائیکل پر لے آیا اور اس کو دور سے دکھا دیا میں اور شیما دنیا ومافیہا سے بے خبر باتیں کررہے تھے اس وقت تو شیرو شیما کے بھائی کو لے گیا بعد میں دونوں نے طے کیا کہ مجھے ختم کردینا چاہیے۔
شیما کا بھائی سراج کافی بزدل تھا وہ مجھے خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے کا حوصلہ نہ رکھتا تھا اس نے شیرو سے کہا اگر تم یہ کام کردو تو میں تم کو بیس ہزار روپے دوں گا۔ شیرو نے مجھے ختم کرنے کی ہامی بھرلی۔ وہ تو ویسے ہی مجھے ختم کرنا چاہتا تھا، یہ بیس ہزار روپے تو اس کو مفت میں مل رہے تھے پھر قتل کا ازام بھی شیما کے بھائی کے سر جارہا تھا۔
اب وہ دن میں کئی دفعہ میرے پاس آتا ایک دن میں نے پوچھا شیرو کیا بات ہے۔ اب تم کام پر نہیں جاتے بولا یار کسی چیز میں دل نہیں لگتا تو تمہارے پاس آجاتا ہوں۔
ایک دن وہ آیا اور کہنے لگا یار آج دربار پیر شاہ غازی دمڑی والی سرکار کو سلام کرنا ہے۔ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ واپسی میں سرائے عالم گیر کے رستے گھر آجائیں گے میں نے کہا چلو۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ میرے مارنے کا منصوبہ بناکر آیا ہے۔
آج اس کی موٹر سائیکل پر کیرئر نہیں تھا۔ کہنے لگا نیا لگوانا ہے۔ پرانا اتاردیا ہے خیر اس نے مجھے ہیروئین سے بھرا ہوا سگریٹ دیا۔ میں نے پینا شروع کردیا اس کے بعد ایک اور دیا میں نے وہ بھی لے لیا راستے میں اس نے ایک جگہ موٹر سائیکل کھڑی کردی اور سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ گیا وہ سگریٹ پر سگریٹ پی رہا تھا۔ مجھے بھی دیتا جاتا تھا جب اس کو پورا یقین ہوگیا کہ میں نشے میں ہوں تو اس نے مجھے موٹر سائیکل پر بٹھا لیا آگے جاکے ریل کے پٹری آتی ہے لیکن راستے پر ریل نہیں آتی کیونکہ یہ پٹری اب ختم ہوچکی ہے۔ وہاں ایک کھمبا لگا ہوا تھا اس کے قریب پہنچتے پہنچتے شیرو نے موٹر سائیکل کو اس قدر تیز کردیا اور اتنی زور سے میرے پیٹ میں کہنی ماری کہ میں موٹر سائیکل سے نیچے گرگیا۔ کھمبا میرے سر میں لگا جس سے میرے سر پر بہت زخم آئے اور ساتھ ہی میری ٹانگ اور بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
جب مجھے ہوش آیاتو میں اسپتال میں تھا میرے پاس میرے والد اور چھوٹے بھائی بھی موجود تھے۔ والدہ بھی تھیں، وہ سب میرا حال دیکھ کر رو رہے تھے اب مجھے احساس ہوا کہ اپنے پھر اپنے ہوتے ہیں۔ میں نے شیرو جیسے برے انسان کی خاطر ان کا دل دکھایا اور اپنا مستقبل تباہ کرلیا تھا۔ آج ماں کی دعاؤں سے مجھے دوبارہ زندگی ملی تھی ورنہ تو شیرو مجھے ختم کرگیا تھا۔ جب میں اچھا ہوکر گھر آگیا تو والد صاحب نے مجھ سے اصل مسئلہ پوچھا کہ آخر بات کیا ہوئی جو میں ایک دم برے راستوں کا مسافر ہوگیا تھا۔
میں نے انھیں ہمیت کرکے سچ سچ بتادیا کہ امی جان نے شیما کی بے عزتی کردی تھی اس کو گھر آنے سے منع کردیا تھا شیما کی جدائی مجھے شاق گزری تھی۔ میں سمجھتا تھا آپ لوگ میری شادی اس سے نہ ہونے دیں گے اسی سبب میں مایوس ہوکر اس تنزلی کا شکار ہوا۔ والد صاحب میرا مسئلہ سمجھ گئے۔ انھوں نے مجھے تسلی دی والدہ صاحبہ کو ڈانٹا کہ تمہاری کم عقلی سے میرا اتنا ذہین بچہ تباہ ہوا بہر حال انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ ہر قیمت پر شیما کو بہو بناکر لائیں گے۔
والد صاحب نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ انھوں نے شیما کی ماں سے بات کی اس کے بھائی کوسمجھا بجھا لیا وہ لوگ تو خود اس کے رشتے کے لیے پریشان تھے، غلط فہمیاں دور ہوگئیں میرا رشتہ شیما سے طے ہوگیا۔ آج شیما میری بیوی ہے میرے دو بچوں کی ماں ہے۔ ہم ایک خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ شیما کی خاطر میں نے نشہ اور دوسری برائیوں سے توبہ کرلی ہے۔ ہماری زندگی میں کوئی کمی نہیں ہے۔ بس افسوس یہ ہے کہ اگر میں راہ سے نہ بھٹکتا تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیتا جو میں حاصل نہ کرسکا۔
اپنا کاروبار ہے روپے پیسے کی کمی نہیں۔ آج گزرے ہوئے دنوں کو سوچتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے۔ شیرو جیسے گھاگ شکاری ہم جیسے معصوم لڑکوں کا اس طرح شکار کرتے ہیں کہ زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔ شکر ہے کہ میں تباہ ہونے سے بچ گیا، مگر وہ نہیں بچتے جو ایک بار شیرو جیسے آدمی کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔