ہندوستان میں مسلم تنظیموں کا ارتقاء قومی و ملی مسائل کے ساتھ ہوا ہے۔ تقریباً ہر ملی ایشو کے ساتھ ایک نئی مسلم تنظیم وجود میں آئی ہے۔ نصابِ تعلیم پر خطرہ ہوا تو دینی تعلیمی کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ فسادات ہوئے تو اسلامک ریلیف تنظیمیں اور مسلم مجلس مشاورت وجود میں آئیں۔ اسلامی شناخت کا خطرہ درپیش ہوا تو مدارس کی شکل میں اسلام کے قلعے تعمیر ہوئے۔
علمائے دیوبند کی تنظیمیں ہوں یا اہل حدیث حضرات کی، جماعت اسلامی ہند سے وابستہ گروپ ہوں یا پھر سیکولر مسلم طبقوں کی شروع کی ہوئی تحریکیں۔ ان سب کا بنیادی مزاج ملت کی حفاظت اور اس کا دفاع ہی تھا۔ اس حکمت عملی کا جہاں فائدہ ہوا وہیں اس کا نقصان یہ ہوا کہ یہ سبھی تحریکیں ہمیشہ جواب اور صفائی دینے اور دفاع کی کارروائی میں مصروف رہی ہیں۔ اگر چند مفکرین نے بطور خاص سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اقدامی قسم کی تحریریں نہ پیش کی ہوتیں تو شائد اس بات کا تذکرہ بھی نہ ہوتا کہ اسلام ہر قسم کے سماجی مسائل کا حل بھی ہے۔
پچھلے ساٹھ سالوں میں ملی اداروں نے ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کرکے عظیم الشان عمارتیں تیار کی ہیں۔ شاندار مساجد کی تعمیر کے لیے اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ درجنوں مدارس ایسے ہیں جن کا سالانہ بجٹ پانچ کروڑ روپے سے بھی ز ائد ہے۔ قومی سطح کی متعدد مسلم تنظیموں کا بجٹ کروڑوں میں ہے۔ یہ بجٹ اتنا زیادہ ہے کہ ہندوستان کے خفیہ ادارے نے ایک مسلم ادارے کے ۹ کروڑ روپے ایک مشت حاصل کرنے پر پوچھ تاچھ بھی کی تھی۔ اس وجہ سے یہ فخر کرنے کا حق بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ جو کام حکومت نہیں انجام دے سکی وہ اکیلے یہ ملت اسلامیہ بحسن و خوبی انجام دے رہی ہے۔ تصویر کا ایک اور رخ ہے جس پر ہر عام مسلم فرد کو ضرور سوچنا چاہیے۔
ایک بڑے اسلامی مدرسے کی یہ خبر شائع ہوئی ہے ۔ خبر کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
’’…یہ فیصلہ کیا کہ طالبات فکری و عملی طور پر معیار مطلوب پر نہیں اتر رہی ہیں۔ لہٰذا اس جانب خصوصی توجہ دی جائے، ہاسٹل اور تعلیم گاہ کے نظام کو ترجیحی بنیاد پر منضبط کیا جائے اس کے علاوہ ہاسٹل کی مسجد کے نچلے حصے میں ایک دارالمطالعہ /لائبریری قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘‘
ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کروڑہا روپے خرچ کرنے کے بعد یہ احساس سامنے آیا کہ مسلم طالبات کے لیے لائبریری بھی ضروری ہے۔ ایک ایسی ملت جس کو پچھلے سو سالوں سے ایک ہی سوال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کہ ’’مسلم عورتیں پسماندہ ہوتی ہیں، چہار دیواری میں قید رہتی ہیں، انہیں آزادی نہیں ہے، مردوں کے مقابلے میںانہیں کم تر مخلوق تصور کیا جاتا ہے وغیرہ۔‘‘ ان سوالوں کے جواب میں ہمارے علماء اور تحریکوں نے ہمیشہ ضخیم ضخیم کتابیں لکھ کر اور تقریروں سے یہ صفائی دی ہے کہ اسلام عورتوں کو بے مثال حقوق دیتا ہے اور اسلام پر لکھی گئی ۹۰ فیصد کتابیں اسی الزام کی صفائی میں لکھی گئی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ بیشتر کتابیں مردحضرات نے لکھی ہیں جس سے کم سے کم اتنی بات تو ثابت ہے کہ فی الحال ایسی خواتین کا فقدان اس ملت میں ہے جو ایسی کتابیں تیار کرسکتیں اور الزامات کا جواب دے سکتیں۔
پچھلے پچاس سالوں میں مدارس اسلامیہ کی کوششوں سے ہزارہا علمائے دین تیار ہوئے ہیں اور ملت کی حسبِ استطاعت آبیاری میں مصروف ہیں لیکن ان ہزارہا علماء میں خواتین کا فیصد بے حد معمولی ہے۔ اور اس پر مزید یہ کہ ان فارغات جامعات میں ایسی خواتین کی تعداد تقریباً صفر کے برابر ہے جنھوں نے قومی اور ریاستی سطح پر خواتین کو منظم کرنے اور ان کی تحریک چلانے میں کوئی کردار ادا کیا ہو۔
دراصل یہ خلا اس ذہنی اور فکری ساخت کا ہے جو سبھی مسلم تنظیموں اور تحریکوں میں موجود رہی ہے۔ خواتین کے مسائل پر آج دوسری نظریاتی تحریکوں کے پاس درجنوں خواتین ترجمان ہیں۔ سیکولر اور جدید تعلیم یافتہ اداروں سے نکلی مسلم خواتین بھی ان سے وابستہ ہوکر قومی سیاست کا حصہ بن رہی ہیں لیکن مسلم تنظیموں اور تحریکوں کا حصہ بننے کے لیے ان کے پاس کوئی دعوت، کوئی ایجنڈہ اور کوئی بنیاد سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ خواتین کے سلسلے میں مسلم تنظیموں کا رویہ دراصل اس تاریخی فکر کا نتیجہ ہے جس سے یہ تحریکیں اور تنظیمیں گزر کر حال میںداخل ہوئی ہیں۔
جہاں تک اسلامی تعلیمات کی بات ہے اس سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ یہ حضرت محمد ﷺ کا لایا ہوا دین تمام انسانوں کے لیے آیا ہے۔ انسانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آیا ہے۔ اجتماعی اور انفرادی مسائل کو حل کرنے کے لیے آیا ہے۔ فکری، عملی، نظریاتی اور تہذیبی سوالوں کا جواب دینے کے لیے آیا ہے۔ لیکن ہندوستان کی مسلم تنظیموں کا رویہ بتاتا ہے کہ یہ دین صرف اور صرف مسلمانوں کو بچانے کے لیے، اردو زبان کے تحفظ کے لیے، مسجدوں اور مدارس کی شاندار تعمیرات کے لیے، بے اثر اور بے بنیاد خطیبانہ مقابلہ آرائی کے لیے، بزرگوں کے کارناموں پر حلقۂ عقیدت بنانے کے لیے اور پدرم سلطان بود کا نعرہ بلند رکھنے کے لیے آیا ہے۔ جب بھی ہم پر کوئی الزام آتا ہے تو ہم اپنے بے عملی پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور سامنے والے کو یہ بتا کر خاموش کردیتے ہیں کہ اسلام نے یہ بات بہت پہلے ہی بتادی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلم نوجوانوں، اور تعلیم یافتہ افراد کو اسلامی تحریکوں کی طرف سے یہی کام دیا جارہا ہے کہ تم بھی صفائی دیتے رہو۔
کسی سماج میں زندہ رہنے کے لیے صرف سانس لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ صحت مند معاشرے کا قیام بھی لازمی ہے۔ لیکن صحت مند معاشرے کی تعمیر صرف شاندار عمارتوں، خطیبانہ جدوجہد اور بھیڑ کو مسحور کرنے والی مجلسوں سے نہیں ہوتی۔ حال ہی میں ایک ورکشاپ اس بات پر ہوئی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب کیا ہو، جس میں ساری بحث ہوئی لیکن یہ بحث کسی پہلو سے نہیں ہوئی کہ ملک ہندوستان کو ایک صحت مند معاشرے میں بدلنے کے لیے اس کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی اصولوں کو خدائی مرضی کے مطابق بنانے کے لیے یہ نصاب کیا سکھائے گا۔ جن کو پڑھانے کے بعد طلبہ کو معلوم ہوسکے کہ ہمارے ملک کے مسائل کا صحیح حل کہاں ہے اور وہ متبادل اصول،پالیسیاں اور نظام کیا ہے، جو اس ملک کو استعماری قوتوں کی غلامی سے آزاد کراکر خالق کائنات کو خوش کرنے والی اور بندگانِ خدا کی ہمہ جہت ترقی کے لیے راستہ ہموار کرے۔ دراصل یہ ہے وہ اقدامی فکر جس کی ہمیں ضرورت ہے اور جس کی تعلیم لے کر آخری پیغمبر ﷺکو بھیجا گیا تھا اور اسی مشن کو پورا کرنے کی ذمہ داری ہر مسلم فرد اور اسلامی جماعت کو دی گئی تھی۔ لیکن دفاعی گروہ بن کر ہم نے اپنے مستقبل کی فکری تو کی ہے، اپنے معاشرے کی فکر کی ہے، اپنی عورتوں کو حجاب کا پابند بنانے کے لیے تحریک چلائی ہے، اپنے معاشرے میں عائلی نظام کو متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ اپنے پرسنل لا کو بچانے کی جدوجہد کی ہے۔ اپنے اداروں کو محفوظ رکھنے کے لیے فکر مند ہوئے ہیں اور باقی پورے ملک کی ذمہ داری سے خود کو الگ کرلیا ہے۔ جبکہ ملت اسلامیہ اس ملک کے خیر وشر میں برابر کی حصہ دار ہے۔ اور اس ملت کا خیروشر اس ملک سے الگ کرکے طے کرنا ناممکن ہے۔
اس ملک میں ڈومیسٹک وائلنس ایکٹ بناکر خواتین کی ترقی کے لیے مغربی ماڈل کو من و عن نافذ کردیا گیا اور مسلم تنظیمیں خاموش رہیں۔ تعلیمی شعبہ میں انسانیت سوز پالیسیاں داخل ہوتی رہیں اور یہ ملت کا موضوع فکر نہیں بن سکا۔ اس ملک کی خارجہ پالیسی خود مختار پالیسی سے clientپالیسی میں بدلتی رہی اور ہمارے ادارے خاموش رہے۔ عورتوں پر مظالم ہوتے رہے اور ہمارے نسواں ادارے چپ رہے۔ اس ملک سے اور اس کے عام شہریوں سے جڑا ہوا کوئی مسئلہ ان مدارس، تنظیموں اور اداروں کے ایجنڈے میں نہ آسکا۔ البتہ جلسہ عید میلاد النبی کی تقریبات اور جلسہ تقسیم اسناد کبھی نہ رکے۔
انجام کار یہ کہ ہم ایک ایسی ملت بن کر رہ گئے ہیں جو حالات کے دوش پر آگے بڑھ رہی ہے۔ حالانکہ اس کامقام یہ تھا کہ وہ خود حالات کو رخ دینے والی بنتی۔ اسلامی تحریکوں کا یہ رویہ مایوس کرنے والا ہی ہے کہ وہ آج کے سوشل اشوز، ایجوکیشنل پالیسیز اور ترقیاتی پالیسیز پر اسلامی موقف کو پیش کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ تحریکیں اس ملک میں اسلامی نقطہ نظر اور اسلامی حلقہ فکر کی جگہ ملی حلقہ فکر بن کر رہ گئی ہیں۔
کیا بہتر ہوتا کہ یہ ادارے قومی سیاست میں اسلامی نقطہ نظر کی بھر پور نمائندگی کرتے، سماجی اور ترقیاتی بحثوں میں ان کا نقطۂ نظر سائنٹفک اور زیادہ عملی شمار کیا جاتا۔ اور اسلام سچ مچ میں ایک ایسا نظریہ بن کر ابھرتا جس کی خواہش مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم افراد کو پیدا ہوجاتی۔