فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ میں صرف ہم تین تھے۔ انجم اور معراج گذشتہ ایک ہفتہ سے سیاست اور ادب کے موضوع پرگفتگو کرتے کرتے تھک چکے تھے اور اب شطرنج کی بساط بچھائے ایک دوسرے کے مہرے پیٹ رہے تھے۔ شطرنج سے مجھے بھی دلچسپی تھی، لیکن میں پیہم اداسیوں کی وجہ سے بجھا بجھا ساتھا اور کچھ کرنے کے بجائے بس تصور جاناں میں کھویا ہوا رہنا چاہتا تھا۔یہ ایک ایسا درد تھا جس کی دوا میرے بس میںنہ تھی۔ کسی کی بے رخی اور سرد مہری نے مجھے نڈھال بنادیا تھا۔ گذشتہ دو ماہ سے اس کا کوئی خط نہیں آیا تھا۔ آخری خط کے بعد نہ جانے کس امید پر میں اس کے خط کا منتظر تھا۔ ہر وقت بس اس کا خیال اور اس کی باتیں ذہن میں گردش کرتی رہتیں۔ میں نے اپنے دوستوں سے کئی بار کہا بھی کہ مجھے کسی ماہرِ نفسیات کے پاس لے چلو جو میری نفسیاتی الجھنوں کو دور کرسکے لیکن وہ ہمیشہ مذاق سمجھ کر ٹالتے رہتے۔
’’تم بالکل نارمل ہو۔‘‘
احباب کی پیہم یقین دہانی کے باوجود اپنے دل میں ہونے والی ٹیس کی اذیت کو گذشتہ دو مہینوں سے مسلسل جھیل رہا تھا۔
’’مجھے بتاؤ،تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘
اب بھلا میں انہیں کیسے بتاتا کہ میں کس مصیبت میں مبتلا ہوں۔ بتانے کی کوئی بات بھی نہ تھی۔ میں عمر کے اس مرحلے سے گزر رہا تھا جس میں ایک انسان سے اس قسم کی باتیں منسوب نہیں کی جاسکتیں۔ عشق اور محبت تو عنفوان شباب کا روگ ہے۔ یا پھر نوجوانی میں یہ عارضہ ہوتا ہے۔ پینتیس سال کی عمر تو پختہ عمر ہوتی ہے۔ بھلا اس عمر میں کوئی اس قدر حساس ہوتا ہے؟
گذشتہ دو ماہ سے میرا یہ معمول بن گیا تھا کہ روزانہ اس کے نام طویل خط لکھتا اور چند گھنٹے بعد اس کے پرزے پرزے کردیتا۔
’’پاگل!پاگل! تم پاگل ہو!‘‘
یہ الفاظ ایک بازگشت کی طرح میرے کانوں سے ٹکراتے۔ تمہارے یہ جذباتی خطوط پڑھ کر وہ کس قدر تمسخرانہ انداز میں تمہیں پاگل قرار دے گی۔ پھر نفرت اور حقارت کے ساتھ ان اوراق کو پرزے پرزے کردے گی جن پر تم نے اپنے خونِ جگر سے جذبات کے پھول کھلائے ہیں۔
ٹرین ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر رکی۔ میرے دل میں اٹھنے والی ٹیس تیز تر ہوگئی میں نے گذشتہ چند گھنٹوں میں جو کچھ لکھا تھا اسے پڑھنا شروع کیا۔
’’تمہارا آخری خط موصول ہوئے آج دو ماہ ہوگئے۔ اس عرصہ میں کوئی دن اور کوئی ساعت ایسی نہ گزری جس میں تمہاری یاد نہ آئی ہو۔ نئے سال کی مبارکباد کا خوبصورت کارڈ بھیجنے کے لیے لفافہ پر تمہارا پتہ لکھا گیا لیکن اس خیال کے آتے ہی ہمت نہ ہوئی کہ کہیں تم میری تصویروں کی طرح اسے بھی پائے حقارت سے ٹھکرانہ دو۔‘‘
گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ کھلی تھی اور تبھی ہم سبھوں کی نظر نووارد خاتون پر پڑی۔ عجلت میں وہ شاید اس بات پر غور نہ کرسکی تھی کہ یہ فرسٹ کلاس ہے اور اب سیٹ پر بیٹھنے کے بجائے کھڑکی کے پاس دیوار کا سہارا لے کر کھڑی تھی۔ معراج اور انجم شطرنج کھیلنے میں مصروف تھے اور میں اس خاتون کو بغور دیکھنے لگا۔ جس کا چہرہ مجھے کچھ جانا پہچانا سا لگ رہا تھا۔ اس کا رنگ بالکل کالا تھا۔ اس کے ہونٹ سیاہ جامن کی طرح تھے۔ سفید ساڑی میں ملبوس وہ ایک آدیباسی عورت لگ رہی تھی، لیکن اس کے چہرے پر حسن اوربلا کی کشش تھی۔ انتہائی سنجیدہ، پروقار اور مطمئن چہرہ جس سے حسن کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ ایسا حسن جو بالعموم اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کے انگ انگ میں ہوتا ہے۔
مجھ سے نگاہیں ملتے ہی اس کے لبوں پر تبسم کی ایک ہلکی سی لہر آئی جسے اس نے نہایت ہوشیاری سے دبا دیا اور اب وہ خلا میں گھور رہی تھی جیسے ہم لوگوں کے وجود سے بالکل بے خبر ہو۔ اس کے ساتھ کوئی سامان نہ تھا۔ صرف ایک چھ سات سال کا بچہ جو بہت ہی شوخ اور چنچل تھا پورے کمپارٹمنٹ میں کھیل کود رہا تھا۔ ایک نیگرو بچے کی طرح وہ انتہائی خوبصورت اور پرکشش تھا۔ اس کی گھنگھریالے بال نہایت خوبصورت لگ رہے تھے۔ خاتون نے جو اپنے بچے کی شوخی اور چنچل پن سے خوب واقف تھی اسے کسی بات سے روکنے کے بجائے آزاد چھوڑ رکھا تھا اور بچہ بھی جیسے شرارت کی حدود کو پہچانتا تھا اور وہ اس دائرہ کے اندر ہی اچھل کود مچارہا تھا۔
’’شہ، شاہ کو بچاؤ۔‘‘
معراج نے گھوڑے کی چال چل دی تھی۔ انجم نے مدد کے لیے میری طرف دیکھا۔ میں نے اپنے لکھے ہوئے خط کے پرزے پرزے کردئیے اور انہیں کھڑکی سے باہر پھینکنا چاہا لیکن ہوا کے دباؤ سے وہ کھڑکی سے باہر جانے کے بجائے اندر ہی رہ گیا اور پرزے ادھر ادھر بکھر گئے۔ میں نے ایک نظر بساط پر ڈالی۔ بیچارہ شاہ گھر چکا تھا۔ گھوڑے کی چال بڑی خطرناک تھی۔ ایک طرف اس کی زد میں شاہ تھا تو دوسری طرف وزیر۔
’’کوئی صورت نہیں ہے۔ شہ بچانا ہے اس لیے وزیر دے دو۔‘‘
میں نے شاہ کو ایک قدم آگے بڑھادیا۔ لیکن معراج نے وزیر اٹھانے کے بجائے اپنا گھوڑا واپس لے جانا مناسب سمجھا۔ وہ میری اگلی خطرناک چال کو سمجھ گیا تھا۔ وزیر حاصل کرنے کے لالچ میں خود اسے شہ پڑجاتی اور سارے مہروں کے ہوتے ہوتے وہ بازی ہار جاتا۔
’’بھئی آپ دونوں مل کر مقابلہ کریں گے تو مشکل ہے۔‘‘ معراج نے احتجاج کیا۔
’’لو، کھیلو، میں الگ بیٹھتا ہوں۔‘‘ معراج کے لبوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی، اس نے خاتون کی طرف کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے کہا: ’’تم اسکیچنگ شروع کردو، تمہارے لیے ایک ماڈل موجود ہے۔‘‘
اس کا یہ بے ضرر جملہ تیر کی طرح سینے میں پیوست ہوگیا۔ بلاشبہ خاتون نہایت خوبصورت تھی، اس کے نقوش اور خطوط جمالیاتی حس رکھنے والے کسی بھی فنکار کو متوجہ کرسکتے تھے، اگر پوری دلجمعی کے ساتھ میں اس کا پورٹریٹ بناتاتو یقینا وہ ایک شاہکار ہوتا۔ لیکن گذشتہ دو ماہ کی مسلسل کربناکی نے مجھے اس قابل نہیں رکھا تھا کہ پنسل یا برش کو ہاتھ لگاتا۔ دونوں کو شطرنج کی بساط کے پاس چھوڑ کر میں پھر اپنی جگہ پر آگیا۔ میرا جی چاہا کہ اس شریر بچے کو پیار کروں جو میرے خط کے پرزوں کو چننے میں مصروف تھا۔ اس کی ماں کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ تھی، کہیں وہ پرزوں کو جوڑنے میں کامیاب نہ ہوجائے اور میرے وہ خیالات جنہیں میںنے اپنے دل کے زخموں کی طرح اب تک دنیاکی نظروں سے پوشیدہ رکھا ہے کسی کو معلوم نہ ہوجائیں۔ اس خیال کے آتے ہی میں پریشان ہو اٹھا۔
’’کم آن مائی ڈیر! کم ہیر پلیز!‘‘ میں نے بچے کو اپنے طرف متوجہ کیا۔ اور وہ ان پرزوں کو لے کر میرے پاس آگیا۔ میں نے اسے گلے سے لگایا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے میں اسے بہت قریب سے جانتا ہوں یا اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون میرے جسم کا حصہ ہے۔ وہ بھی مجھ سے اس قدر گھل مل گیا، جیسے وہ صدیوں سے مجھے جانتا ہے۔ میرے خط کے پرزے اب تک اس کے ہاتھ میں تھے۔ اس نے نہایت احتیاط کے ساتھ انہیں اپنی جیب میں رکھ لیا۔
’’پھینک دو انہیں، کیا کرو گے رکھ کر۔‘‘
’’نہیں‘‘ اس نے جیب پر سختی سے ہاتھ رکھ لیا۔
میرے بریف کیس میں چاکلیٹ کے دوچار پیس بچے ہوئے تھے، انہیں میں نے اپنے اس معصوم دوست کی جیب میں رکھ دیا۔ بچے نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ جیسے وہ انہیں قبول کرنے کے لیے اجازت طلب کررہا ہو۔ دونوں ایک دوسرے کی نگاہوں کی زبان سمجھتے تھے۔ ماں کی طرف سے اجازت ملتے ہی اس نے چاکلیٹ سے پیکنگ پیپر کو الگ کیا اور مزے لے لے کر کھانے لگا۔
’’اچھا ہے نا؟‘‘ میں نے اسے اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے پوچھا۔
’’بہت اچھا ہے۔‘‘
اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا، خاتون بچے کی طرف سے مطمئن ہوکر باہر کے قدرتی مناظر دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔ انجم اور معراج اپنے اپنے مہروں کو بچانے میں مصروف تھے۔ شطرنج کی بساط پر لڑی جانے والی یہ جنگ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
یہ ایک پسنجر ٹرین تھی جو ہر چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر رکتی تھی۔ ٹرین جیسے ہی رکتی بچہ نیچے اترجاتا اور ادھر ادھر دوڑ لگاتا اور پھر جیسے ہی ٹرین حرکت میں آتی وہ دوڑ کر سوار ہوجاتا۔ اس کی ماں بچے کی اس حرکت سے ذرا بھی ہراساں نہ تھی۔ جیسے وہ اس کی شوخ طبیعت سے خوب آگاہ ہو اور اس کی سمجھ بوجھ پر اعتماد ہو۔ میں بچے کی شوخی اور شرارت سے محظوظ ہوتا لیکن ساتھ ہی مجھے یہ اندیشہ لاحق رہنے لگا کہ کہیں وہ کسی اسٹیشن پر رہ نہ جائے اور ٹرین اسے لیے بغیر نہ بڑھ جائے۔ اس کی ماں جو شاید سفر کے معاملے میں کافی تجربہ کار تھی اور اس کے اعصاب مجھ سے زیادہ مضبوط تھے نہایت مطمئن نظر آرہی تھی۔
موسم بڑا ہی خوشگوار تھا اور ٹرین میں بھیڑ بھی کم تھی۔ چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر اکا دکا مسافر چڑھتے اور اترتے تھے۔ گنگا جمنی میدان کے اس علاقے میں سیدھے سادے لوگ بستے تھے جو کمپارٹمنٹ پر فرسٹ کلاس کا نشان دیکھتے ہی آگے بڑھ جاتے تھے۔ اس پر سکون ماحول میں جو چیز سب سے زیادہ قابل توجہ تھی وہ یہ بچہ تھا جو اپنی بھاگ دوڑ سے فضا میں قوس قزح کے رنگ بکھیر دیا کرتا تھا۔ ٹرین کی اسپیڈ میں جیسے ہی کمی آئی وہ میری بانہوں سے نکل کر دروازے کی سمت بھاگا۔
’’تمہیں جانا کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا
’’جنت میں۔‘‘ بچے کا معصوم جواب تھا جو شاید کسی اور سوال کے جواب کے طور پر اسے سکھایا گیا تھا اور اس وقت میرے مبہم سوال کے جواب میں اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔ اس کے جواب پر معراج اور انجم چونکے۔
’’ویری گڈ‘‘ انجم نے اس کے مناسب جواب پر داد دی۔
’’مجھے بھی اپنے ساتھ جنت لے چلو گے۔‘‘ میں نے نہایت سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ممی سے پوچھتا ہوں۔‘‘ اور وہ بھاگ کر ممی کے پاس چلا گیا۔
’’ممی ممی! یہ بھی جنت میں جانا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنی ماں کی توجہ میری طرف مبذول کرانا چاہی جس کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔
ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی اور بچہ حسب معمول نیچے اتر پڑا۔
معراج نے آہستہ سے مجھے مخاطب کیا’’شکر ہے، تمہارے اندر زندگی کی علامت تو پیداہوئی۔‘‘ میں جھینپ سا گیا۔ معراج اپنے لطائف کے ذخیرے میں سے ایک دلچسپ واقعہ سنانے لگا۔
’’نام ٹھیک سے یاد نہیں، غالباً یہ مشہور مصور پکاسو کا واقعہ ہے۔ پکاسو کی محبوبہ انتہائی کالی اور بدصورت تھی۔ بدصورت تو وہ دوسروں کی نظر میں تھی۔ پکاسو کی نظر میں تو وہ انتہائی خوبصورت تھی۔ ایک دن اس کے دوستوں نے پکاسو سے سوال کیا۔ آخر اس عورت میں تمہیں کیا خاص بات نظر آئی کہ تم اس پر مرتے ہو۔ پکاسو نے کہا کہ اس سوال کا جواب میں اپنی سال گرہ کے موقع پردوں گا۔ برتھ ڈے پارٹی میں سب کی موجودگی میں اس نے اپنی محبوبہ کو بلوایا اور اس کی ہتھیلی پر تھوک دیا۔ اس کی محبوبہ مسکرائی اور بھری محفل میں ہتھیلی پر سے تھوک چاٹ گئی۔ پکاسو کے دوستوں کو اس کا جواب مل چکا تھا۔‘‘
’’تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے جھنجھلا کر کہا۔
’’میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ تم اچھی طرح سمجھ چکے ہو۔ تمہیں بھی ایک ایسی ہی کلی کی تلاش ہے جس میں وفا کی خوشبو پائی جاتی ہو۔‘‘
بچے کو نیچے گئے دیر ہوگئی تھی۔ میں گھبرا کر نیچے اترا۔ اس کی ماں بھی نیچے اتری تھی ہم دونوں بچے کو تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ وہ ایک نل کے پاس پانی پینے میں مصروف تھا۔
’’چلو، جلدی کرو سنگل ہوچکا ہے۔‘‘ میں نے چلا کر کہا وہ اطمینان سے پانی پیتا رہا۔ پانی پیتے ہوئے اس کی رگ شرارت پھڑک اٹھی اور اس نے پانی کے چھینٹے میری طرف اور ماں کی طرف اڑانا شروع کردیے۔ کوئی اورموقع ہوتا تو ہم اس کی شرارت سے محظوظ ہوتے لیکن گاڑی حرکت میں آگئی تھی اور دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگی تھی۔ اس لیے میں نے چلا کر کہا: ’’ہری اَپ، جلدی کرو۔‘‘
ہم لوگ ٹرین کی طرف لپکے۔ میرا کمپارٹمنٹ کافی آگے تھا اور اسے پکڑنا اب مشکل تھا پھر بھی میں تیزی سے آگے بڑھنے لگا وہ دونوں میرے پیچھے پیچھے لپکے۔
’’اب ہمیں کسی بھی کمپارٹمنٹ میں چڑھ جانا چاہیے، ورنہ ٹرین چھوٹ جائے گی۔‘‘
اس خیال سے میں ایک قریبی ڈبے میں چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک ہاتھ سے میں نے ہینڈل پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے بچے کا بایاں ہاتھ تھاما اور اگلے لمحے میرا پاؤں پائیدان پر تھا۔ میں بچے کو اپنے ساتھ ساتھ چڑھانے کی کوشش میں تھا اور ٹرین اپنی رفتار کو تیز سے تیز ترکرتی جارہی تھی۔ خاتون جو پتہ نہیں کس خیال میں غرق تھی اس کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ اس نے بچے کے دائیں ہاتھ کو جھٹکا دیا۔ ذہین بچے نے ماں کے اس اشارے کو فوراً ہی سمجھ لیا تھا کہ اب ہم اگلی ٹرین سے سفر کریں گے اس نے دفعتاً میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔
ٹرین اب پوری اسپیڈ پکڑ چکی تھی۔ معصوم بچہ اپنا ہاتھ ہلا ہلا کر مجھے الوداع کہہ رہا تھا۔ اس کی ماں اپنے لبوں پر مخصوص مسکراہٹ بکھیرے سر جھکائے خراماں خراماں چل رہی تھی۔ اس نازک لمحے میں نہ تو میں ٹرین سے کود سکا اور نہ مجھے اندر کمپارٹمنٹ میں جاکر زنجیر کھینچنے کا خیال آیا۔ زنجیر تو ایسے ہم سفر کے لیے کھینچی جاتی ہے جو ساتھ چھوڑنا نہیں چاہتے۔ جو خود ہی ساتھ چھوڑ دیں ان کے لیے زنجیر کھینچنے کا کیا حاصل۔
پٹریوں کی تیز دھار پر فاصلے اپنی گردن کٹاتے رہے اور میں اگلے اسٹیشن کی آمد کا انتظار کرتا رہا۔