ممّا کا روم میرے لیے، بابا کے لیے اور فہد کے لیے ایک ایسی جگہ ہے جہاں آکر ہم کچھ دیر کے لیے بھول جاتے ہیں کہ مما کو ہم سے بچھڑے ۱۶ ماہ ہوچکے ہیں۔ مما کی الماری کھولتے ہوئے جنت نے سوچا اور اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو اپنے اندر اتارنے لگی۔ رشتوں کی صحیح قدر و منزلت ان کے دور جانے کے بعد ہی ہوتی ہے، اور رشتہ بھی کیسا۔۔۔
مما ہمیں بہت جلدی چھوڑ کر چلی گئیں جنت کے ذہن میں پھر وہی خیال ابھرا جسے وہ پچھلے چھ ماہ میں ہزار مرتبہ بابا اور فہد سے کہہ چکی تھی۔ اس نے الماری میں مما کے تہہ شدہ کپڑوں کو نگاہ بھر کر دیکھا، ساتھ ہی ایک ایک کپڑے کو چھوکر شاید وہ ماں کا لمس محسوس کر رہی تھی۔ تبھی اس کی نظر اس ڈائری پر پڑی جو بہت حفاظت سے تہہ شدہ کپڑوں کے نیچے رکھی تھی اور قدرے بوسیدہ تھی۔ جنت نے تجسس سے اسے اٹھا لیا۔ ڈائری میں سے چند ایک سرخ گلاب کی پتیاں گر گئیں لیکن اسے خیال نہ رہا
بابا اور فہد کاروباری میٹنگ کے سلسلے میں باہر گئے ہوئے تھے اور اب دیر رات ہی انھیں آنا تھا۔ جنت نے جلدی جلدی اپنے سارے کام ختم کیے۔ کافی کا مگ تیار کیا اور پھر ڈائری کھولی۔
پہلے ہی صفحہ کے آخری سرے پر مما کا نام جگمگا رہا تھا ’’مائدہ افتخار علی‘‘ جنت نے صفحے پلٹائے۔۔۔
۲؍ جولائی ۱۹۶۴ء (بروز منگل)
آہ ۔۔۔ یہ خوب صورت اور سہانے ومزیدار سے دن ختم ہوئے۔ اب کل سے کالج شروع ہونے والے ہیں۔ میں بہت زیادہ ایکسائیڈیڈ ہوں۔۔۔۔ ویسے میں نے اپنی چھٹیوں کو دل کھول کر انجوائے کیا۔ ڈھیر ساری موویز (فلمیں) اور بہت سارے ڈائجسٹ۔ سچ میں ہندوستانی فلموں کا جواب نہیں۔ کتنی بار تو ایسی دل کو چھولینے والی ایکٹنگ ہوتی ہے کہ آنکھیں تم ہوجاتی ہے۔ اس ماہ کے ڈائجسٹ کو ایک ہی نشست میں ہضم کرنے پر امی کی خوب ساری ڈانٹ ملی۔ خیر اب کل سے کالج جانے کی خوشی میں مجھے کسی چیز کا احساس نہٰں ہوا۔ اب سوجاتی ہوں کل جلدی اٹھنا ہے نا!!
۳؍ جولائی ۱۹۶۴ء (بروز بدھ)
اُف خدایا۔۔۔۔ آج تو تھکن سے برا حال ہوچکا ہے۔ کالج کا پہلا دن ۔۔۔ سارے کالج میں گھوم گھوم کر دم نکلنے لگا تھا۔ خوبصورت کالج کی عمارت، کیمپس ایریا، مختلف خوشبوؤں میں بسی فضاء ۔۔۔ سچ کہوں ۔۔۔ اگر کالج کی عمارت کو غائب کر دو تو پھر کہیں سے نہ لگے کہ یہ کوئی کالج ہے، علمی درس گاہ …! ویسے آپس کی بات ہے یہ سب کچھ بہت افسانوی لگ رہا تھا۔ بہت فلمی! اوہ خدایا … اب بس کرتی ہوں۔ ابھی تو عشاء کی نماز بھی پڑھنی ہے اور پھر میرے فیورٹ سیرئیل آنے والا ہے۔
۱۱؍ جولائی ۱۹۶۴ (بروز جمعرات)
پچھلا سارا ہفتہ بہت مصروف گزرا۔ کلاسیز اتنی پابندی سے نہیں شروع ہوئیں۔ لیکن پھر بھی سبجیکٹس کے حساب سے کتابوں کی فہرست، پریکٹیکل کی تفصیلات، لائبریری کارڈ، شناختی کارڈ بنانے اور اسی طرح بہت سے کام نپٹانے میں ہی کالج کا وقت نکل جاتا۔ خیر اب کل سے باقاعدہ کلاسیس کا آغاز ہوجائے گا۔ نصاب بہت زیادہ ہے اور شیڈول بہت ٹف۔ مجھے بہت محنت کرنی ہوگی۔ اب بہت نیند آرہی ہے… بائے مائی سویٹ ڈائری۔
۲۰؍ اگست ۱۹۶۴ء (بروز پیر)
آج ۳؍ نئے طلباء کا ایڈمیشن ہوا ہے۔ یہ لوگ پورا ایک ماہ لیٹ ہوئے۔ ان میں ایک ’یوسف سعید‘ بھی ہے۔ میں نے تو نوٹس نہیں لیا تھا لیکن یہ طوبیٰ بھی نا بہت عجیب مخلوق ہے۔ کلاس روم ہی کیا، کیمپس کے ہر اسٹوڈنٹ (خصوصی طور پر لڑکے) پر اس کی نظر ہوتی۔ اسی نے مجھے ان نئے طلباء کی طرف متوجہ کرایا تھا۔ اور جب سر نعمانی نے نئے طلباء سے تعارف لیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی یوسف سعید کا تفصیلی جائزہ ہوگیا۔ اگر اس کا نام یوسف ہے تو بالکل صحیح ہے۔ نفاست پسندی اس کے لباس سے ظاہر تھی اور لب و لہجہ اتنا شائستہ کہ سب ہی متاثر ہوگئے تھے۔ آج اسائنمنٹ کے ٹاپک بھی مل گئے ہیں اور اب میں کل سے اپنے پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کردوں گی۔
یکم ستمبر ۱۹۶۴ (بروز سنیچر)
یہ اتوار کی چھٹی بھی کیا نعمت عظمیٰ ہے۔ سارے دن کی مصروفیت کے بعد ایک دن آرام کا۔ ان دنوں میں پریشان ہوں او وجہ ہے ’یوسف سعید‘ ۔ آخر کیوں وہ ہرگزرتے دن کے ساتھ مجھ پر حاوی ہونے لگا ہے؟ شاید میں اس سے ضرورت سے زیادہ متاثر ہوں۔ اور سچ کہوں تو وہ ہے بھی متاثر کن شخصیت کا مالک … بالکل ڈائجسٹ کے ناول یا افسانے والے ہیرو کی طرح۔ یوسف سعید سچ مچ میں ویسا ہی ہے! وہ سچ مچ میں اتنا ہی اچھا ہے یا صرف مجھے ہی لگتا ہے؟؟ اف یہ امی بھی نا۔۔۔ ہر وقت آواز لگاتی رہتی ہیں۔ ابھی مجھے نماز بھی پڑھنی ہے لیکن بہت سستی آرہی ہے۔
۲۰؍ اکتوبر ۱۹۶۴ء (بروز منگل)
آخر آج میری وہ کشمکش ختم ہوگئی جس میں میں پچھلے دنوں گھری ہوئی تھی، پچھلے ایک ہفتہ سے یوسف سعید کالج نہیں آرہا تھا اور ان دنوں میں نے خود کی طبیعت خراب کر ڈالی۔ ہر وقت نگاہیں اسی کو تلاش کرتی رہتیں۔ کسی چیز میں دل نہیں لگتا، نمازیں بھی ڈھنگ سے نہیں پڑھ پا رہی تھی۔
یکم نومبر ۱۹۶۴ء (بروز سنیچر)
ایک اچھا اور ہمدرد دوست کتنی بڑی نعمت ہے نا! اب دیکھو وہ بیچاری طوبیٰ میرے لیے کتنا خوار ہو رہی ہے۔ اس نے صرف میرے لیے یوسف سعید سے دوستی کی اور آئے دن اس کے سامنے میری تعریفیں کرتی رہی اور میں … میں اِن دنوں کچھ نہیں کرتی صرف خواب بنتی ہوں! جاگتی آنکھوں سے کیا سچ مچ میں یہ دنیا اتنی ہی خوبصورت ہے؟ یہ اچانک اتنے سارے رنگ کیسے اور کہاں سے آگئے؟ اتنی خوشبو پہلے تو کبھی نہ تھی۔
کاش میں ان سب میں خوابوں کی نگری میں اس طرح کھو جاؤں کہ پھر کبھی نہ نکل سکوں۔
۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۴ء (بروز جمعرات)
’’مجھ کو باندھے رکھے اپنے ساتھ تیری یاد کا موسم‘‘
آج کل میری حالت کا مجھے خود پتہ نہیں۔ ہر افسانہ اور ناول میں میں خود اور وہ نظر آتا ہے۔ کوئی فلم دیکھنے لگوں تو بھی یہی تاثر۔۔۔۔۔۔ اور یہ سینگرز آخر انہیں ہمارے ہر حال کی خبر کیسے ہوجاتی ہے پہلے تو صرف شوقیہ گانے سنتی تھی مگر آج کل یہ کچھ اتنے حسبِ حال لگتے ہیں کہ جی چاہتا ہے سنتی رہوں۔ یہ محبت بھی اس بے دھیانی پر اکثر امی کی ڈانٹ پڑنے لگی ہے مگر میں کیا کروں؟ کچھ سجھائی نہیں دیتا، ہر خیال پر بس اس کا پہرہ ہے، ہر لمحہ بس اس کی سوچ ہے ان خیالوں میں کتنا سرور ہے، اس محبت کا اپنا ایک نشہ ہوتا ہے، جو کبھی زہر بھی ہوسکتا ہے اور امرت بھی۔ مجھے کیا ملنے والا ہے خدا جانے!!
جنت نے دیکھا کہ اب اس کے بعد بہت سارے صفحات کورے تھے اور پھر۔
۱۴؍ اپریل ۱۹۶۶ء (بروز منگل)
میرے مولا … اے مالک میری مدد کر، تیرے سوا میرا اور ہے ہی کون …!! اس وقت جب جی بھر کر اس ذات کے سامنے رو چکی ہوں تو اب اِس ڈائری کو تھاما جو میری محبت کے سفر میں میرے ساتھ تھی۔ محبت کی دنیا پہ شام آچکی ہے۔ میں مائدہ افتخار آج پہلی بار نماز میں اتنا گڑگڑا کر روئی ہوں۔ اور وجہ ہے مرتضیٰ بیگ کا رشتہ جسے گھر بھر کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور میں … میرے لیے کوئی راستہ نہیں … امی شوگر کی اور بابا ہارٹ کے مریض ہیں ان سے کیا کہوں؟ اور کس بھروسے پر کہوں؟ پچھلے کئی دنوں سے وہ فون ریسو ہی نہیں کر رہا ہے؟ نہ ہی کالج میں ملاقات ہو رہی ہے!
مرے مولا رحم کر … میں ساری عمر تیری شکر گزار رہوں گی۔
۱۸؍ جون ۱۹۶۶ء (بروز جمعہ)
ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
ہیں پاؤں بھی شل، شوقِ سفر بھی نہیں جاتا
دل کو تیری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
ہرگزرتا دن میرے لیے مشکل لا رہا ہے۔ طوبیٰ کہہ رہی تھی کہ یوسف نے انگیج منٹ کرلی ہے! نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ طوبیٰ کہہ رہی تھی یوسف نے اسے بتایا کہ اس نے ایک باعزت گھرانے کی حیاء دار لڑکی کو اپنا ہم سفر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تو … تو کیا میں باعزت گھرانے کی نہیں؟ کیا میں حیاء دار نہیں۔۔۔؟ نہیں ۔۔۔۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ یوسف ایسے کر ہی نہیں سکتا۔ میں کیسے یقین کرلوں؟ مجھے پتہ ہے امی اور بھابھی میرے مسلسل انکار پر میری دوستوں سے مدد لیں گی اور وہ لوگ مجھ سے یقینا جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ میں کیا کروں؟ یوسف سے کسی طور ربط ہو ہی نہیں رہا اور بابا کی دن بدن بگڑتی صحت مجھے کچھ کہنے نہیں دے رہی۔ کتنی مجبوری اور بے بسی ہے اس راہ میں … اب ان آنسوؤں کی دھندلاہٹ کچھ لکھنے نہیں دیتی۔
۲۰؍ جولائی ۱۹۶۶ء (بروز جمعرات)
آنسو ختم ہوچکے ہیں، دل کی بستی ویران ہوگئی… کائنات کی ہر چیز میری خواہش کے مخالف دھارے میں بہہ رہی ہے۔ شاید یہ درد کی آخری منزل ہے۔ میں کل مرتضیٰ بیگ کی زندگی میں شامل کردی جاؤںگی، کیا اس سے بڑا کوئی دکھ مجھ پر سے گزرنا ہے…
۲۵؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء (بروز منگل)
آج پورے ۲؍ ماہ بعد اپنی ڈائری کو تھاما ہے۔ جس میں محبتوں کے سفر کو تحریر کیا تھا۔ خاموشی کبھی کبھی عذاب بن جاتی ہے۔ میں اب ’مائدہ مرتضیٰ‘ ہوں ۔۔۔۔ ہاں ’’مائدہ افتخار‘‘ نے ’’مائدہ یوسف‘‘ بننے کی چاہ کی تھی اور ’’مائدہ مرتضیٰ‘‘ بنا دی گئی۔ اس رب کے آگے کتنے سجدے کیے تھے میں نے، کتنی دعائیں مانگیں مگر اس نے میری ایک نہیں سنی، پھر میں نے بھی اس کے سامنے سجدہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا چھوڑ دیا۔ جب اس نے مجھے یوسف سعید نہیں دیا تو اب مجھے بھی کچھ نہیں چاہیے آج میں منافقت کی زندگی گزار رہی ہوں۔ مجھے لگتا ہے میرا دل ایک پتھر کی چٹان ہے جس پر بس اک نام لکھ دیا گیا اور پتھروں پہ لکھے نام مٹا نہیں کرتے۔ مائدہ مرتضیٰ بنے مجھے پورے ۲؍ ماہ ہوگئے ہیں۔ سب مجھے خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ سب کہتے ہیں مرتضیٰ بہت اچھے ہیں … مگر مجھے نہیں لگتے… میں جانتی ہوں میں غلط ہوں مگر اس دل کا کیا کروں؟
۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۶ء (بروز بدھ)
جی چاہتا ہے آج سب کچھ تہس نہس کردو۔ جو محبت کا نام لیتے ہیں انھیں مار ڈالو، اور ہر اس لمحہ کو اپنی کتاب زیست سے نوچ کر پھینک ڈالو جو میں نے اس کی یاد میں اس کے لیے گنوایا۔ میں اس شخص سے بے تحاشہ نفرت کرتی ہوں، جتنی محبت کی تھی اس سے کئی گنا بڑھ کر نفرت۔۔۔میں نے آج اسے شاپنگ مال میں دیکھا۔ وہ آج بھی بالکل ویسا ہی تھا اور اس کے ساتھ یقینا اس کی بیوی تھی۔ اس منظر نے مجھے اتنا جامد نہیں کیا تھا جتنا اس کی مسکراہٹ نے، اس کی آنکھوں کی چمک نے کیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہ محرومی، وہ اداسی، وہ نمی نہیں تھی جو روزانہ آئینہ دیکھتے وقت مجھے اپنی آنکھوں میں نظر آتی ہے۔ وہ میرے قریب سے گزرا مگر بالکل اجنبیوں کی طرح، نہ شناسائی کی لہر اور نہ محرومی، ناکامی کی وہ داستان، جو ہر وقت میرے وجود سے لپٹی رہتی ہے اور پھر مجھے ایک لمحہ میں یقین آگیا کہ اس نے میرے ساتھ دھوکا کیا۔ مجھے ہر اس لفظ پر یقین آگیا جو سب اس کے متعلق کہتے تھے اور اب میں ’مائدہ مرتضیٰ‘ اس سے بے پناہ نفرت کرتی ہوں۔۔۔
۳۱؍ مارچ ۱۹۶۷ء (بروز جمعہ)
آج آخری بار میں اپنی اس ڈائری کے ساتھ بیٹھی ہوں۔ جس میں میں نے اپنی نوخیز محبت کو پروان چڑھایا، محبتوں کا ایک جہاں آباد کیا، اور پھر نفرتوں کی منزلیں طے کیں۔
مرتضیٰ اس وقت نہایت میٹھی اور پرسکون نیند کی آغوش میں ہے۔ میں اب مرتضیٰ سے منافقت نہیں کرتی محبت کرتی ہوں۔ میں سمجھتی تھی دل کی پتھر چٹان پر بس ایک ہی نام لکھا ہے جو مٹ نہیں سکتا لیکن وہ نام تو چٹان پر چھائی گرد پر لکھا تھا۔ گرد صاف کی تو نام بھی مٹ گیا اور پھر میں نے جو نام لکھا دیکھا وہ تھا مرتضیٰ بیگ کا۔ ہے نا حیرانی کی بات … یہ نکاح کے مقدس بندھن کا کمال تھا ایک پاکیزہ محبت نے اسی وقت میرا احاطہ کرلیا تھا جب میں مائدہ افتخار، سے مائدہ مرتضیٰ بنی تھی۔ بس یہ میں ہی تھی جو اس پاکیزہ محبت کی نفی کرتی رہی۔ لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ یوسف سعید کے لیے جس جذبہ کو میں نے محبت کا نام دیا تھا وہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر محبت نہیں … محبت تو وہ ہے جو میں مرتضیٰ سے کرتی ہوں۔ مجھے اپنے رب سے بہت شکوہ تھا کہ اس نے مجھے یوسف نہیں دیا۔ اور آج ہر لمحہ میں اس کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے میری اُن دعاؤں کو قبول نہیں کیا۔ اس شخص کی وجہ سے میں اللہ سے دور ہوگئی تھی اور مرتضیٰ نے مجھے میرے رب کے قریب کردیا ہے۔ اب میں بہت پرسکون ہوں، ہر صبح بہت خوبصورت اور انوکھے رنگوں سے سجی لگتی ہے۔ لیکن دل کے نہاں خانے میں آج بھی ایک ملال ہے، ایک ندامت ہے۔
لیکن میں اکیلے اسے ہی قصور وار کیسے ٹھہراؤں؟ غلطی میری بھی تو تھی … میں نے ہی اس کی حوصلہ افزائی کی… اب سوچتی ہوں تو دل لرز اٹھتا ہے میں اپنے حدود تک بھول گئی تھی مجھے حکم دیا گیا تھا ’’فلا تخضعن بالقول‘‘ (نرم آواز میں گفتگو نہ کرو) اور میں یوں بات کرتی جیسے ہر لفظ شہد میں ڈبو کر کہہ رہی ہوں۔ اب سمجھ میں آیا کہ میرا رب کیوں مجھے یہ حکم دیتا ہے ’’یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس‘‘ اللہ چاہتا ہے کہ تم سے آلودگی دور فرمادے۔ میں … میں سب بھول کر بس اس آلودگی کی جانب قدم بڑھا رہی تھی یہ تو اس کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے فضل سے بچا لیا۔ ورنہ … میں اپنی لاعلمی کو بھی قصور وار نہیں ٹھہرا سکتی کیوں کہ کہیں نہ کہیں دل میں اس چیز کے غلط ہونے کا احساس تھا لیکن وہی افسانوں کو، کرداروں کو حقیقی زندگی میں دیکھنے کی آرزو۔ لیکن پھر حقیقی زندگی میں آتے آتے بہت درد سہا، آئینہ پر جمی گرد صاف کرتے کرتے بہت وقت لگ گیا۔ مگر میں لوٹ آئی ہوں اپنے حقیقی جہاں میں۔
اس سے پہلے کہ مرتضیٰ مجھے اس طرح جاگتے دیکھ کر پریشان ہوجائیں مجھے سو جانا چاہیے۔ پرسکون نیند… ’’مائدہ مرتضیٰ‘‘
جنت نے صفحات پلٹائے لیکن اب اوراق کورے تھے۔ ڈائری کے اختتامی صفحہ نے پھر سے اس کی نظروں کو باندھ لیا اس کی مما نے ایک قرآنی آیت کو quote کیا تھا۔
’’ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بہت ناپسند ہو لیکن وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور ممکن ہے کسی چیز کو تم پسند کرو لیکن اس میں تمہارے لیے خیر نہ ہو۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)
جنت کے ہاتھ اب لرزنے لگے تھے۔ کافی کا بھاپ اڑاتا مگ کب سے ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ آج پہلی مرتبہ اسے اپنی مما کی روک ٹوک، نصیحتیں ’بے جا‘ نہیں لگ رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں بے تحاشہ نمی امڈ آئی یکایک ڈائری سے ایک تہ شدہ کاغذ گر پڑا۔ جنت نے دھندلائی آنکھوں سے اسے اٹھا کر کھولا۔ مما جان نے اس کے لیے لکھا تھا۔
’’میری پیاری بیٹی جنت
سدا خوش رہو
تم جس وقت یہ پڑھ رہی ہوگی اس وقت میں اپنے مالکِ حقیقی کے پاس رہوںگی۔ یہ ڈائری تمہارے لیے ایک فینٹاسی ہوا کرتی تھی پھر میں نے اسے حفاظت سے ایک محفوظ جگہ رکھ دیا۔ مجھے پتہ ہے کہ تم اسے ضرور ہی ڈھونڈ لوگی ایک التجا ہے کہ اس ڈائری کو اب نذرِ آتش کر دینا…!!
مجھے اپنی ’’جنت‘‘ کی تربیت ایسی ہی کرنی تھی کہ جہاں وہ خوابوں کی نگری کی مسافر ہو وہیں اس کی آنکھوں میں حقیقت کی روشنی ہو جو اُسے راہ بتائے۔ پتہ نہیں کہ میں اپنے اس مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوپائی۔
جب منزلیں سامنے ہوں اور راستے کھوجائیں تو انسان کی کیفیت بہت عجیب ہوجاتی ہے۔ تصوراتی وتخیلاتی دنیا میں بہت لذت ہوتی ہے۔ لاشعوری طور پر کتابوں میں پڑھے گئے افسانوں، فلموں کے مختلف کرداروں کو ہم اپنی عملی و حقیقی زندگی میں وقوع پذیر ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
اور پھر لڑکیاں … ازل سے معصوم ہوتی ہیں۔
نہیں!! شاید بے وقوف ہوتی ہیں … یا پھر بے وقوف بننا چاہتی ہیں۔
پتہ نہیں… لڑکیاں اس طرح کیوں ہوتی ہیں؟
بے شمار خوابوں کو پلکوں میں سجا لینا،
احساسات کو روند دیا جائے، بے قدری کی جائے تو اسے روگ حیات بنا لینا اور پھر …
شعور کی منازل طے کرتے وقت،
اگر وہ عشق و محبت کی داستانوں
جدائی، شبِ فراق اور ملن کی رتوں کے قصوں میں کھو جائے تو
آنکھوں میں سپنوں کا اک نیا جہاں آباد کر بیٹھتی ہیں جہاں…
درد کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے، اور پھر خوشیاں ہی خوشیاں
کالجس میں، راہ چلتے آئیڈیلس مل جاتے ہیں!!
بس یہیں پر یہ افسانے ختم ہوجاتے ہیں لیکن ۔۔۔
ان تمام کا حقیقی زندگی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ان افسانوں سے، خیالی تخیلات سے صرف اور صرف خواب بنے جاسکتے ہیں
خواب… جن کی قسمت میں تعبیر نہیں … جو سراب ہوتے ہیں…
سراب … جو پیاس بجھاتے نہیں بلکہ تشنگی میں اضافہ کردیتے ہیں۔
میں چاہتی ہوں میری بیٹی بھی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھے لیکن
حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے، آج میں جیتے ہوئے…
نہ کہ آنے والے حسین کل کے خواب آنکھوں میں سجا رکھے اور پھر ان کے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہونے سے جس چبھن کا احساس ہوتا ہے اسے تا عمر محسوس کرے۔
نہیں جنت … تم حقیقت میں ہی زندہ رہنا۔
اور سب سے اہم …
جنت … میری بیٹی … صنفِ نازک ہونے کے ناطے اپنے ارد گرد، اپنے وجود، اپنی ذات کے اطراف ایک مضبوط ہالہ بنائے رکھو … اک وقار ہو، اک متانت ہو، تاکہ اس مضبوط ہالہ کو ہر کس و ناکس نہ توڑسکے۔ یہ نہ ہو کہ اپنے آپ کو نئے زمانوں میں ڈھال دو ہر حد کو بھول جاؤ۔
پیاری بیٹی …لڑکی کا کردار ایک شیش محل، بارش کی پاکیزہ بوند، صبح صادق کی پہلی معصوم سی کرن، اور سیپ میں بند آب دار موتی کی مانند ہوتا ہے۔
جنھیں ذرا سی بھی بے احتیاطی کے ساتھ برتا جائے تو پھر یہ
ٹوٹ جاتے ہیں، بکھر جاتے ہیں، ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں…
اپنے اطراف اس ان دیکھے حصار کو قائم رکھو۔ کردار ہی متاعِ حیات ہے۔ صرف خوابوں میں جیوگی تو اک ادھورا خواب بن جاؤگی۔
حقیقی و عملی زندگی میں جینے والے ہی زندگی جیتے ہیں۔ ورنہ لوگ زندگی گزارتے ہیں!!
امید ہے کہ تم میری باتیں سمجھ پائی ہوگی۔
جانتی ہوں ماں کے بغیر ’جنت‘ اداس ہوگی۔ لیکن میری جنت نہ صرف بہت سمجھدار ہے بلکہ بہت بہادر ہے۔
اپنے بابا اور فہد کا خیال رکھنا اور…
اپنی ماں کے لیے دعا کرنا…!!
ڈھیروں ڈھیر پیار
اپنی پیاری بیٹی ’جنت‘ کے لیے
جنت کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ مگر منظر صاف تھا۔
’’عجیب فلسفہ ہے مما کی تحریر میں … مگر بہت حقیقی … وہ اپنے آنسو پوچھتے ہوئے بڑبڑائی۔
جنت نے ہر لفظ جذب کرلیا تھا۔ یہ اس کے لیے مشعلِ راہ تھی۔lll