لوگ کیا کہیں گے؟…لوگ کیا کہیں گے؟…لوگ کیا کہیں گے؟
جلیل یہ جملے بار بار کہے جارہا تھا۔ بڑبڑا رہا تھا، وہ چکرایا ہوا تھا، اسے لگتا تھا کہ جیسے ان جملوں نے اس کو کسی زہریلے کیڑے کی طرح کاٹ کھایا ہو۔
لوگ … لوگ… لوگ… کہتے ہوئے جلیل کا عصبی تناؤ بڑھتا ہی جارہا تھا اور وہ چڑچڑا ہوتا جارہا تھا۔
لوگ کیا کہیں گے؟ لوگ مذاق اڑائیں گے۔
لوگ کیا کہیں گے؟ لوگ اعتراضات کریں گے۔
لوگ کیا کہیں گے؟لوگ مخالفت کریں گے۔
لوگ کیا کہیں گے؟لوگ حقہ پانی بند کردیں گے۔
لوگ کیا کہیں گے؟ لوگ کہیں گے زندہ باد۔
لوگ کیا کہیں گے؟ لوگ کہیں گے سبحان اللہ۔
یوں ایک ہی سوالیہ جملہ جلیل کے ذہن میں کئی ایک مثبت اور منفی معنوں کا پٹارا بنا ہوا تھا جلیل کے احساس کے مطابق اس کے منفی پہلو اس کے مثبت پہلوؤں پر حاوی تھے۔
جلیل جب بھی یہ جملہ سنتا تو چکرا جاتا تھا، اس کے زہر کو محسوس کرتا اور اس زہر کے تریاق کے لیے بے قرار ہونے لگتا۔
آہستہ آہستہ جب اس کا انتہا پسند ذہن متوازن اور معتدل ہوجاتا تو وہ بڑی متانت کے ساتھ اس جملے کے مضمرات پر سوچنے لگتا تب اس کو احساس ہوتا کہ اس دو دھاری خنجر جیسے جملے میں فی الواقع ایسی قوت پوشیدہ ہے جو لوگوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے، ڈرا دیتی ہے، پریشان کردیتی ہے، انہیں الٹ پلٹ کر دیتی ہے، انہیں کچھ کرنے سے روک دیتی ہے اور کچھ کرنے پر ابھار دیتی ہے۔ لوگوں کو اس کے خلاف تمام تر واویلا بے جواز نہیں تھا۔
اس جملے کے کوزے میں تو ایک دریا بند تھا۔
آج بھی جلیل یہی جملہ سن کر چکرا گیا تھا۔
جلیل نے آج یہ جملہ مرینا کی زبانی سنا تھا جس کی اس کو توقع نہیں تھی۔ ایک خلاف توقع امر کی کوفت بھی بڑے دندانے دار تھی۔ مرینا، جلیل کی بیوی تھی۔
دونوں میاں بیوی ایک شاپنگ سینٹر میں تھے اور وہاں ایک ہوٹل میں بیٹھے آئس کریم کھا رہے تھے۔ جلیل نے باتوں باتوں میں ذکر کیا تھا کہ اسی ہفتے دونوں کو ایک سفارت خانے کی تقریب میں شرکت کرنی ہے، یہ سنتے ہی مرینا کی ہوس خود نمائی تند و تیز ہوگئی تھی، اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا کہ وہ گھر جاتے وقت اس شاندار تقریب میں شرکت کے لیے سلے سلائے کپڑوں کا ایک بہترین جوڑا خریدتے ہوئے جائے گی۔‘‘
آئس کریم کھانے کے بعد دونوں اٹھے، مرینا اپنے منصوبے کے مطابق جلیل کو بڑی فن کاری کے ساتھ کپڑوں کی ایک دکان میں لے گئی اور وہاں کپڑوں کے ریڈی میڈ جوڑے دیکھنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بیش قیمت جوڑے پر ریجھ گئی۔ دکاندار نے اس جوڑے کی قیمت سات ہزار بتائی۔
جلیل کو جب یہ معلوم ہوا کہ مرینا نہ صرف یہ جوڑا خریدنا چاہتی ہے بلکہ اس کے لیے بالکل مری جارہی ہے تو بھڑک گیا اس نے اسے خریدنے سے انکار کردیا۔ مرینا کی روہانسی حالت بھی اس پر اثر انداز نہ ہوسکی۔ مرینا کو اس کی توقع نہ تھی، اس کا خیال تھا کہ جلیل، حیل و حجت میں پڑے بغیر اس کو نہ صرف یہ جوڑا خریددے گا بلکہ اس کی پسند اور ذوق کو بھی سراہے گا۔
جلیل کے انکار کی کئی وجہ تھیں۔
پہلی بات یہ تھی کہ اس کی جیب میں اتنے پیسے نہیں تھے۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ اس کو مرینا کی ہوس خریداری، فضول خرچی سے بھی آگے کی کوئی چیز محسوس ہونے لگی تھی۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ اس کو اپنے ڈرائیور کا پیغام ملا تھا کہ کار کی مرمت میں تین چار گھنٹے لگ جائیں گے اس لیے وہ ٹیکسی لے کر گھر چلے جائیں۔
اس کے ناراض ہونے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ مرینا نے کہہ دیا تھا کہ اگر اس کے پرس میں اتنی رقم ہوتی تو وہ یہ جوڑا خریدے بغیر گھر جانے کا نام بھی نہ لیتی۔
دونوں گھر ٹیکسی پر ہی واپس آگئے۔
گھر میں آکر بھی صورت حال کشیدہ ہی رہی۔
مرینا سے اپنی شکست آرزو برداشت نہیں ہورہی تھی۔
جلیل بھی مرینا کے بے جا اسراف پر بھنّایا ہوا تھا۔
’’آپ کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ مجھے ایک اچھا سا جوڑا ہی خرید دیں۔‘‘
’’مرینا! یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
’’مجھے افسوس ہے کہ مجھے یہ کہنا پڑگیا ہے۔‘‘
’’پھر تو تم پرلے درجے کی بے شرم ہو۔‘‘
’’ابھی تو معلوم نہیں مجھے اور کیا کیا سننا پڑے گا۔‘‘
’’وہی کچھ سنوگی جو تم ہو۔‘‘
’’کیا غضب ہوجاتا اگر وہ جوڑا مجھے خرید دیتے۔‘‘
’’واہیات فضول خرچی ہوتی۔ تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ یکم جنوری سے لے کر آج انیس مئی تک تم نے کپڑوں کی خریداری پر کتنے پیسے اڑائے ہیں۔‘‘
’’شاید یہی کوئی تین چار ہزار روپئے۔‘‘
’’تین چار ہزار روپئے تو تم نے اپنے پاس سے خرچ کیے ہوں گے لیکن میرے تو چوبیس ہزار روپئے خرچ کرواچکی ہو۔ ایک سے ایک بیش قیمت کپڑا خریدنے کے بعد یہی کہتی ہو کہ میرے پاس کوئی ڈھنگ کا کپڑا نہیں ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہی تو کہتی ہوں۔‘‘
’’پھر میںنے بھی ٹھیک ہی کیا ہے۔‘‘
’’آپ نے ٹھیک نہیں کیا ہے۔‘‘
’’میں نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔‘‘
’’لوگ کیا کہیں گے کہ بیگم جلیل اس تقریب میں بھی کوئی ڈھنگ کا لباس پہن کر نہیں آئی ہے۔‘‘
’’مرینا … مرینا… مرینا کیا کہا تم نے۔‘‘
’’یہی کہ لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
لوگ کیا کہیں گے!
یہ سنتے ہی جلیل کے ناریل چٹخ گئے۔ اور اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ جلیل گرجا:
لوگ کیا کہیں گے؟
لوگوں کے خوف سے اپنا بھلا برا سوچنا بند کردو۔
لوگوں کے خوف سے دبّو بن جاؤ، بزدل ہوجاؤ۔
لوگوں کے خوف سے فضول خرچ ہوجاؤ، بدھو ہوجاؤ۔
لوگوں کے خوف سے وہ کرو جو تمہیں کرنا زیب ہی نہیں دیتا۔
مرینا نے جلیل کے کوائف بگڑتے دیکھے تو اندازہ لگایا کہ اس کی اب وہاں موجودگی جلتی پر تیل چھڑکنا ہوگا اس لیے وہ دبے پاؤں وہاں سے کھسک گئی۔ اس کو افسوس ہوا کہ اس نے خواہ مخواہ ایک ایسے کپڑے کی ضد کی جس سے بدرجہا بہتر کپڑے اس کے پاس موجود ہیں۔ اس کو اس کا بھی افسوس ہوا کہ اس کی وجہ سے جلیل کا سکون درہم برہم ہوگیا ہے۔
گرجتے گرجتے جلیل صوفے پر بیٹھ گیا، بیٹھے بیٹھے نیم دراز ہوگیا، نیم دراز ہوکر آنکھیں موند لیں۔ یہ آثار تھے کہ وہ غصے اور ہیجان کو لگام دینے کی کوشش کررہا ہے۔
انسانی جسم کی نوعیت اور ساخت کچھ ایسی ہے کہ وہ ہیجانی کیفیت کی طوالت برداشت نہیں کرسکتا ہے اس لیے جلد از جلد وہ اپنے معمول پر آنے کی کوشش کرتا ہے۔
جلیل کا جوش و خروش بھی تھم گیا۔ وہ پرسکون ہوگیا۔ تاہم وہ آتش گیر جملہ اس کے ذہن میں چپکا رہا کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اب وہ متانت کے ساتھ اس جملے کے اندر جھانک رہا تھا کہ آخر اس جملے میں کون سا ایسا طلسم موجود ہے جس کو سنتے ہی لوگوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور ذہن کا محور بدل جاتا ہے؟ جلیل نے اندازہ لگایا:
اس جملے میں ایک ترازو ہے جو لوگوں کو تول کر بے وقعت کردیتا ہے۔
اس جملے میں ایک دہشت ہے جو لوگوں کو ہراساں کردیتی ہے۔
اس جملے میں ایک احتساب ہے جو لوگوں کے اندر کھرے کھوٹے کی چھٹنی شروع کردیتا ہے۔
اس جملے میں ایک جن کا اثر موجود ہے جو لوگوں کی گردن پر سوار ہوجاتا ہے۔
اس جملے کے زیرِ اثرلوگ وہ کچھ کرنے سے باز آجاتے ہیں جس سے باز آنا ہی بہتر ہے۔
اس جملے کے زیرِ اثر وہ طرزِ کہن پر اڑے رہتے ہیں اور آئین نو سے ڈرتے رہتے ہیں۔
اسی جملے کی بدولت وہ مورکھ اور بدھو بن جاتے ہیں۔
اسی جملے کے طفیل وہ باغی، دلیر اور ہوشیار بھی ہوجاتے ہیں۔
یہ جملہ تو ایک گنجینۂ اسرار ہے۔ اس کی کارپردازیاں بھی ایک عجوبہ ہیں کہ بیک وقت زنگ آلودہ بھی کردیتا ہے اور زنگ چھڑا بھی دیتا ہے۔ لوگ بھی بلا وجہ نہیں اس جملے کی دندان شکن قوت محسوس کرتے۔ جلیل کو سوچتے سوچتے یاد آیا کہ اس جملے نے کب اس کو پہلی بار کھرل کیا تھا۔
تین برس قبل اس نے اپنے بڑے بیٹے کی شادی کی تھی۔ دیہات سے شہر تک بے شمار گھرانے سوچے ہوئے تھے کہ شاید قرعہ فال میں ان کا نام نکل آئے لیکن قرعہ فال میں حمیرا کا نام نکلا جو اس کی بھانجی تھی۔جلیل کی بہن تو خوش ہوگئی، لیکن بہنوئی محمود بجھ کر رہ گیا۔
’’بھائی محمود! کیا آپ ، راضی نہیں۔‘‘
’’نہیں، جلیل میں تو بہت ہی خوش ہوں اور راضی بھی۔‘‘
’’پھر پریشان کیوں ہیں۔‘‘
’’پریشان اس لیے ہوں، کہ لوگ کیا کہیں گے۔‘‘
’’لوگ کہیں گے کہ جلیل نے اچھا کیا کہ اپنی بھانجی کو بہو بنالیا ہے۔‘‘
’’نہیں جلیل لوگ یہ کہیں گے کہ جلیل نے امیر کبیر گھرانے چھوڑ کر ایک تنگ دست گھرانے کو پسند کیا ہے، لوگ کہیں گے کہ جلیل کی بہن نے اپنے مطلب کے لیے جلیل پر جادو کرایا ہے تعویذ گنڈا کرایا ہے۔ لوگ کہیں گے جلیل احمق ہے، لوگ کہیں گے کہ جلیل کی بہن اور بہنوئی نے اپنی تنگ دستی سے چھٹکارا پانے کے لیے یہ چکر کیا ہے، لوگ کہیں گے کہ یہ بے جوڑ شادی ہے، یہ ریشم میں ٹاٹ کا پیوند ہے، اتارو اس پیوند کو۔ ان تمام باتوں کا تو شمار کرنا مشکل ہے جو لوگ کہیں گے۔‘‘
اس گھڑی جلیل بڑے خوشگوار موڈ میں تھا، اس لیے اس نے جانا کہ محمود کے خدشات قیاسی نہیں توہماتی ہیں، ٹامک ٹوئیاں نہیں بلکہ اندیشہ ہائے دراز ہیں۔ وہ اپنی جگہ ڈٹ گیا کہ وہ ایسے خدشات کی پروا نہیں کرے گا۔ انہیں گھاس نہیں ڈالے گا۔
’’محمود بھائی لوگ یہ کیوں نہیں کہیں گے کہ جلیل نے جو کچھ کیا اسے وہی کچھ کرنا چاہیے تھا، لوگ یہ کیوں نہیں کہیں گے کہ عائشہ کا بھائی ابھی اتنا بدلحاظ اور بے غیرت نہیں ہوا ہے کہ اس کو بھلادے۔ لوگ یہ کیوں نہیں کہیں گے کہ جلیل نے حق دار کا حق ادا کیا ہے، اگر میں یہ نہ کروں تو پھر بھی لوگ یہی کہیں گے کہ جلیل نے یہ برا کیا ہے اور اگر کرتا ہوں تو بھی لوگ کہتے ہیں کہ جلیل نے یہ برا کیا ہے، میری تو شامت آگئی ہے کہ کرتا ہوں تو برا کرتا ہوں نہیں کرتا ہوں تو برا کرتا ہوں۔ میں ایسا گیا گزرا نہیں ہوں کہ یہ بھی تمیز نہ کرسکوں کہ اصل برا کیا ہے، اس لیے آپ نچنت ہوکر شادی کی تیاریاں کریں۔‘‘
جلیل جب رخصت ہوا تو محمود کے خدشات کو بھی رخصت کرکے ہی رخصت ہوا۔
تب سے یہ جملہ جلیل کے لیے ایک ذہنی پھانس بن گیا تھا، اس لیے جب بھی وہ یہ سنتا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے تو بھڑک اٹھتا تھا اور کہنے والے کو یہ جملہ بہت مہنگا پڑتا تھا جیسے آج مرینا کو پڑا تھا۔
جلیل اکثر و بیشتر اس زہر کے تریاق کی تلاش میں رہتا تھا اور ایسے جملے کی تلاش میں رہتا تھا جو اس جملے کا مسکت جواب ہو۔
ابھی وہ جواب سوچنے کی کوششوں ہی میں تھا کہ اس نے دیکھا کہ مرینا اس کے سامنے کھڑی ہے، پریشان ہے گم سم ہے اور روئے جارہی ہے، جلیل گھبرا گیا۔
’’کیا بات ہے مرینا! خیرتو ہے۔‘‘
’’میرا پرس ٹیکسی میں رہ گیا ہے۔‘‘
’’کیا کچھ تھا اس میں۔‘‘
’’اس میں گیارہ ہزار روپے تھے تین چوڑیاں دو بندے اور تین انگوٹھیاں تھیں۔‘‘
’’دکان پر تو تم نے کہا تھا کہ تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘
’’وہ میں نے جھوٹ بولا تھا، یہ جھوٹ بولنے کی سزا ملی ہے، آپ پولیس کو فون کریں۔‘‘
’’ٹیکسی کا نمبر یاد ہے۔‘‘
’’نہیں‘‘
’’پھر تو فون کرنا بھی بیکار ہے، غلطی بھی تو ہماری ہے۔‘‘
’’پھر کیا کریں۔‘‘
پھر جلیل نے یہ کیا کہ اپنے ایک ڈی ایس پی دوست کو فون کیا، معاملے کی نوعیت بتائی۔ امتیاز کے پوچھنے پر وہ ٹیکسی کا نمبر تو نہیں بتا سکا البتہ ڈرائیور کا حلیہ ضرور گوش گزار کردیا کہ اس کی رنگت سرخ و سفید تھی، سر کے بال اور داڑھی بادامی رنگ کی تھی اور آنکھیں شفاف نیلی تھیں، یہ سنتے ہی امتیاز نے کہا کہ اس ڈرائیور کا نام شاہ گل ہے۔ وہ پٹھان ہے اور انتہائی خدا ترس اور دیانت دار آدمی ہے، اگر وہ پرس کسی سواری نے مار نہیں لیا، تو نچنت ہوجائیے۔ وہ خود اس کو پرس پہنچادے گا تاہم وہ اس کی تلاش میں اپنے ایک سپاہی کو بھیج رہا ہے۔
جلیل ابھی نچنت ہوا ہی تھا کہ اس کے ملازم نے آکر بتایا کہ کوئی آدمی اس سے ملنے آیا ہے۔
آنے والا شاہ گل ہی تھا۔
’’حاجی صیب! ہمارا نام شاہ گل ہے۔ امارا ٹیکسی میں آپ کا کوئی چیز رہ گیا تھا۔‘‘
’’ہاں ایک پرس رہ گیا تھا۔‘‘
’’زنانہ یا مردانہ۔‘‘
’’زنانہ‘‘
’’حاجی صیب! اس کا رنگ کیسا تھا؟‘‘
’’اس کا رنگ بادامی تھا۔‘‘
’’اس میں آپ کا کیا چیز تھا۔‘‘
شاہ گل کے اس سوال کا تفصیلی جواب مرینا نے دیا جو شاہ گل نے بڑے غور کے ساتھ سنا۔
’’حاجی صاحب آپ کی بیوی نے تمام باتیںٹیک بولا۔ یہ پرس ہے اپنی چیزیں پورا کرو اورامارا خلاصی کرو۔‘‘
جلیل یہ سن کر بے اختیار ہنس پڑا۔
’’حاجی صیب! آپ ہنستا ہے، ام نے کوئی ٹیک بات نہیں بولا؟‘‘
’’نہیں شاہ گل ایسی کوئی بات نہیں، میرا نام جلیل احسن ہے، میں حاجی نہیں ہوں، جب آپ نے کہا کہ امارا خلاصی کرو تو مجھے ہنسی آگئی، ارے خان بابا ہم نے آپ کو پکڑا تو نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ کے کام کا وقت ہے اور آپ جلدی میں ہیں۔‘‘
’’جلیل صیب آپ نے ٹیک بولا ہے، آپ نے ٹیک بولا ہے، ام جلدی میں ہے۔ آپ نے ام کو نہیں پکڑا ہوا، ام کو تو اللہ نے پکڑا ہوا ہے۔‘‘
’’شاہ گل! کیا کہا تم نے؟‘‘
’’صیب ام بولا کہ ام کو اللہ نے پکڑا ہوا ہے۔‘‘
’’کیوں اللہ نے کیوں پکڑا ہوا ہے؟‘‘
’’اس پرس کی وجہ سے پکڑا ہوا ہے، اس کا حکم ہے کہ یہ امانت جلدی سے پہنچاؤ۔‘‘
’’ام کو اللہ نے پکڑا ہوا ہے۔‘‘
جلیل دیکھ رہا تھا کہ اس جملے میں شاہ گل کا احسان بندگی بول رہا ہے، اس جملے میں اس کا شرف بندگی دمک رہا تھا، اس جملے میں شاہ گل کی رفعت بندگی جھلک رہی ہے۔جلیل کو شاہ گل کے اس جملے نے اپنا لیا تھا، اس کی دیانت داری، امانت داری اور راست بازی کا منظر اس کے ذہن میں گردش کررہا تھا۔ اس کا بے اختیار جی چاہ رہا تھا کہ شاہ گل کو گلے لگالے۔
’’اچا، جلیل صیب ام جاتا ہے۔‘‘
’’نہیں خان بھائی، آپ چائے پئے بغیر اور اپنا انعام لیے بغیر نہیں جاسکتا۔‘‘
’’جلیل صیب چائے مائے تو ام پی لے گا لیکن اگر آپ انام شنام کی بات بولے گا تو ام جلدی سے بھاگ جائے گا۔‘‘
’’کیوں کیا انعام آپ کا حق نہیں ہے؟‘‘
’’مالوم نہیں جلیل صیب یہ امارا حق ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو بھی ام آپ سے نہیں لیتا۔‘‘
’’پھر کس سے لیتا ہے؟‘‘
’’اپنے اللہ سے۔‘‘
’’اللہ سے!‘‘
’’ہاں جلیل صیب! اللہ سے، ام نے اللہ کو راضی کرنے کے لیے آپ کا پرس آپ کو دیا ہے۔ اگر ام آپ سے انام شنام لیتا ہے تو اللہ ام سے خوش نہیں ہوگا۔‘‘
جلیل یہ سن کر ایک بار پھر خاموش ہوگیا، اس نے محسوس کیا کہ شاہ گل نے اس کے اکناف باطن میں ایک بڑی مکرم اور ذی جاہ جگہ مقرر اور محفوظ کرلی ہے۔
جلیل نے شاہ گل کو ایک برادرانہ سوز دروں کے ساتھ بتایا کہ اس کا لوہے کا کارخانہ ہے، اگر شاہ گل خود وہاں ملازمت کرنا چاہے یا کسی کو ملازمت دلوانا چاہے تو جب چاہے آجائے۔ اس نے شاہ گل کو اپنا ملاقاتی کارڈ دیا۔ شاہ گل چلنے کے لیے اٹھا۔
’’خان صاحب آپ نے اتنا بھرا ہوا پرس واپس کردیا انعام بھی نہیں لیا، لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے؟‘‘
لوگ کیا کہیں گے؟
یہ سنتے ہی جلیل ایک بار پھر تلملا گیا۔
’’بی بی ام تو اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ لوگ بولے گا تم نے برا کیا۔ ام کو کیسے معلوم ہوگا کہ ام نے اچا کیا یا برا کیا۔ اس لیے ام لوگوں کی پروا نہیں کرتا۔‘‘
’’پھر آپ کس کی پروا کرتا ہے؟‘‘
’’ام تو اس بات کی پروا کرتا ہے کہ اللہ کیا کہے گا۔‘‘
’’اللہ کیا کہے گا؟‘‘
’’جی ہاں، اللہ کیا کہے گا؟‘‘
یہ جملہ سنتے ہی مرینا تو مرجھا کر صفرہوگئی لیکن جلیل احسن کھڑا ہوگیا اور یہ جملہ دہرانے لگا:
اللہ کیا کہے گا؟…اللہ کیا کہے گا؟…اللہ کیا کہے گا؟
’’ہاں جلیل صاحب! اللہ کیا کہے گا، وہ حشر کے روز ضرور کہے گا کہ شاہ گل میں نے تم کو اپنا بندہ بنا کر بھیجا تھا، تو اور کس کا بندہ بنا رہا ہے؟ جلیل صیب ام میں مجال نہیں ہے کہ اللہ کو ناراض کرے۔‘
جلیل کے ذہن میں پھر اودھم مچ گیا اور اس کو معلوم بھی نہیں ہوا کہ شاہ گل کس وقت چلا گیا لیکن اس کو وہ تریاق دے گیا جس کے لیے وہ ترسا ہوا تھا۔
جلیل احسن کے اندر تو طبلِ جنگ بج گیا تھا، اس کے ذہن کے ہر گوشے میں ایک جنگ چھڑگئی تھی، جس کے علم بردار دو سوال تھے۔
لوگ کیا کہیں گے؟
اللہ کیا کہے گا؟
گویا لوہا لوہے کو کاٹ رہا تھا۔
جلیل کے جملہ مسائل حل ہوگئے تھے۔ وہ شرحِ صدر کے ساتھ جان گیا تھا کہ یہ تو دو مسلک ہیں، دو طرزِ احساس ہیں، دو طرزِ آگہی ہیں، اور یہ بھی جان گیا تھا کہ ان میں غالب ہونے والا مسلک کون سا ہے؟