لڑنے جھگڑنے اور پھر ناراض ہوکر قطع تعلق کرلینے کو بہت سی خواتین مشکلات و مسائل کا آسان ترین حل سمجھتی ہیں۔ حالانکہ ناراضی سب سے زیادہ نقصان دہ چیز ہے۔ ایک عورت سسرال والوں سے لڑ جھگڑ کر بول چال بند کرلیتی ہے۔ دوسری عورت اپنی پڑوسن سے جھگڑا کرنے کے بعد آنا جانا بند کردیتی ہے۔ کوئی خاتون اپنے بھائی اور اپنے بھائی کے گھر والوں سے مخاصمت رکھتی ہے اور کوئی اپنی نند سے بیزا رہے۔ حتیّٰ کہ کئی عوتیں اپنے ماں باپ سے بھی تعلقات ختم کرلیتی ہیں۔
یہ حقیقت ہر مسلمان پر واضح ہے کہ جو مسلما ن کسی مسلمان سے قطع تعلق کرلیتا ہے اس کا کوئی عمل بھی آسمان کی بلندیوں کی طرف نہیں جانے پاتا جب تک کہ تعلقات بحال نہ ہوں، ناراضی ختم نہ ہوجائے۔ جھگڑا ایک ایسا تیر ہے جس کا ہدف دشمن نہیں ہوتا بلکہ ہمارا اپنا گلا ہوتا ہے۔ اگر ہمارے نیک اعمال قبول نہ ہوں تو ایسی دنیا کا ہمیں کیا فائدہ؟
میں نے اپنے ایک ہفتہ وار درس قرآن میں اپنی تمام سننے والیوں سے درخواست کی کہ آئیے ہم سعادت کی کنجی پکڑیں اورپھر اسے استعمال کرکے یہ دیکھیں کہ ہمیں کتنا سکون، چین اور قرار ملتا ہے۔ ہم پر ابدی سعادت کے دروازے کیسے کھلتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ آج کی کنجی یہ ارشادِ الٰہی ہے:
ادفع باللتی ہی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوۃ کانۃہ ولی حمیم۔ (حم السجدہ:۳۴)
’’تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔‘‘
میں نے اس آیت کا مدعا و مفہوم واضح کیا اور بہنوں کوبتایا کہ اس آیت پر عمل کرنے کے لیے ہمیں اللہ پر کامل یقین اور مسلسل صبر و برداشت سے کام لینا ہوگا۔ میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے منشا پر عمل کرنے اور اس کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب ہمیں عمل کے نتیجے کا انتظار کرنا ہوگا۔ اب تک ہم اپنے مسائل کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ ہمیں مشکلات سے فرار کی عادت پڑچکی ہے۔ ہمیں اب حقائق کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہم میں سے ہر ایک کواپنے مخالف کے ساتھ ایک عملی تجربہ کرنا ہوگا۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ دشمن کو ’’جگری دوست‘‘ میں تبدیل کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے اور کتنی محنت درکار ہوتی ہے؟ ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے کوئی اگلے ہفتے کے درسِ قرآن میں آکر رو رو کر یہ بتائے کہ جی میں تو اپنی فلاں مخالف کے پاس گئی تھی، اسے منانے کے لیے، راضی کرنے کے لیے، بہت کوشش کی لیکن مجھے کامیابی نہیں ہوئی۔ کئی رکاوٹیں کھڑی ہوئیں۔ میں اپنی ان بہنوں سے کہوں گی کہ وہ اپنے ساتھ صبرو برداشت کی دولت بھی لے کر جائیں۔ آپ مخالف کے پاس اکیلی نہ جائیں، اپنے ساتھ صبر کو لے جائیں، بار بار جائیں، مایوس نہ ہوں۔
کئی دن بیت گئے، کئی ہفتے گزر گئے۔ ابھی ہم نے قرآن کریم کی اس آیت پر ہونے والے عمل کا جائزہ نہیں لیا تھا۔ ایک دن میں نے معزز خواتین سے کہا: ’’آج آپ لوگوں کے تجربات سننے کا وقت آپہنچا ہے۔ وہ کون کون خوش قسمت ہیں جنھوں نے اس آیت کریمہ پر یقین کرنے کے بعد، دل میں جگہ دینے کے بعد اپنے حواس و جوارح سے بھی اس پر عمل کیا ہے؟‘‘
اس پر حاضرین میں سے ایک نے بتایا: ’’الحمدللہ! مجھے اس پر عمل کی توفیق ملی ہے۔ میرا اپنی نند کے ساتھ جھگڑا تھا۔ وہ بڑی زود رنج ہے۔ مجھے اس سے کئی ناپسندیدہ و ناگوار باتیں سننا پڑتی تھیں، اس لیے میں نے اس سے نہ ملنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں اصل میں اسے پسند کرتی ہوں کیونکہ وہ میرے شوہر کی بہن ہے، میری نند ہے، میرے بچوں کی پھوپھی ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ شیطان ہمیں بہکاتا ہے، ہمارے غلط کام خوش نما بناکر پیش کرتا ہے تو ہم انھیں اچھا سمجھنے لگتے ہیں۔ جب یہاں درسِ قرآن کریم میں اس آیت کے بارے میں طے کیا تو میںنے گھر جاکر اس آیت کریمہ کو بار بار پڑھا اور فیصلہ کیا کہ میں دل و جان سے اس آیت پر عمل کروں گی۔
میں مناسب موقع کی تلاش میں تھی تاکہ اس ناراضگی کو ختم کروں۔ مجھے جلد ہی موقع مل گیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ میری نند ہسپتال میں داخل ہے۔ اس کے یہاں تیسرے بچے کی ولادت ہوئی تھی۔ میں نے اپنے خاوند سے اصرار کیا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ اسپتال لے جائیں تاکہ میں ان کی بہن سے ملاقات کروں۔ پہلے تو وہ حیران ہوئے۔ پھر بڑی خوشی سے مجھے اپنے ساتھ ہستپال لے گئے۔ میرا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا اور مسکراہٹ کے ساتھ اندر چلی گئی۔ میں نے اپنی نند کو بچے کی پیدائش پر اور اس کی جان کی سلامتی پر مبارک باد دی۔ مگر وہ میری طرف متوجہ نہ ہوئی اور اپنے بھائی سے ہی باتیں کرتی رہی۔ میرے خاوند پریشان تھے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ میں نے نومولود بچے کو اٹھایا، اسے پیار کیا۔ میں نے نند کو خوش خبری دی کہ اس کا بچہ خوبصورت ہے اور ان شاء اللہ سعادت مند بنے گا۔
میری یہ باتیں سن کر وہ ہلکی سی مسکرائی۔ خیر ہماری ملاقات ختم ہوئی۔ میں کار میں بیٹھی تو میں نے ایک آہِ سرد کھینچی جو میرے خاوند نے سن لی۔ میں نے اس وقت اپنے دل میں تہیہ کرلیا کہ میں کبھی ہار نہیں مانوں گی۔ اللہ کا کلام سچا ہے، میرے اندیشے غلط ہیں۔ میں نے تو حسن سلوک کیا ہے، اب صرف ’’جگری دوست‘‘ بننا رہ گیا ہے۔ مجھے صبر کرنا ہوگا۔ صبر کے لیے وقت درکار ہے۔ گھر پہنچتے ہی میں نے اندیشہ ہائے دور دراز کو اپنے دل و دماغ سے جھٹک دیا اور بدی کو نیکی سے دفع کرنے کا عزم مصمم کرلیا۔ میں نے بچوں کے لیے کھانا تیار کیا اور کھانا لے کر نند کے گھر جا پہنچی۔ ان کی خیریت دریافت کی۔ واپس آکر میں رات کو تنہائی میں امن و سکون سے سوئی۔ مجھے اللہ کے حکم کی تعمیل کی مسرت تھی اور اس بات کا یقین تھا کہ مفید نتائج جلد سامنے آئیں گے۔
اگلے دن میں نے اپنی نند کے ردعمل کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ میرے طرز عمل پر خوش ہے اور میری شکر گزار ہے۔ میں نے اس کے بچوں کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس کا اس پر خوشگوار اثر پڑا۔ میں نے اس دن بھی کھانا تیار کیا، یہ کھانا پہلے کھانے سے بڑھ کر تھا۔ میں کھانا لے کر پھر نند کے گھر گئی۔ اب میری کوششوں اور محنت کا نتیجہ سامنے آنے لگا تھا۔
میں اس کے بچوں کا خیال رکھنے لگی۔ اب میری نند میرے ساتھ محبت و نرمی سے باتیں کرنے لگی۔ اس نے مجھے اپنے بیٹے کے عقیقے کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے کہا۔ مجھے کیا انکار ہوسکتا تھا۔ اس نے بڑی گرم جوشی سے میرا خیر مقدم کیا، یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک طویل جدائی کے بعد مجھ سے مل رہی ہے۔ میں نے اسے گلے لگالیا۔ مجھے اپنی خوش بختی پر رشک آرہا تھا۔ اللہ نے میرے عمل کو قبول فرمالیا تھا اور مجھے انعام سے نوازا تھا۔‘‘
ایک اور خاتون نے کہا: کیا آپ کے پاس اتنا وقت ہے کہ میں اپنا تجربہ بیان کروں۔ مجھے خود اس تجربے کے نتیجے کا یقین نہیں آرہا، مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ میں نے اسے اپنا واقعہ بیان کرنے کی اجازت دی تو وہ یوں گویا ہوئی:
’’میری ایک پڑوسن تھی جسے میںبہت پسند کرتی تھی۔ میں اس کے پاس بیٹھنا، باتیں کرنا چاہتی تھی۔ مجھے اس سے اتنی محبت ہوگئی کہ میں نے اپنے کئی رازوں سے اسے آگاہ کردیا۔ بات یہ ہے کہ میرے میکے والے یہاں سے دور ہیں، کوئی اور قریبی عزیز بھی یہاں نہیں رہتا، اس لیے یہ پڑوسن ہی میری قریبی ا ور عزیزہ تھی۔ محبت و دوستی کے چند سال بعد، میں نے دیکھا کہ میری پڑوسن کا رویہ تبدیل ہوگیا ہے۔ وہ میرے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہوگئی۔ وہ میری طرف ایسی باتیں بھی منسوب کردیتی جو میں نے کبھی نہ کی ہوتیں۔ میں نے اسے منانے اور اس کی غلط فہمیاں دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بے فائدہ۔ اس نے شیطانی وسوسہ اندازی کا شکار ہوکر مجھ سے بالآخر قطع تعلق کرلیا۔ بول چال، آنا جانا سب بند ہوگیا۔ یہی صورت حا ل جاری تھی کہ میں نے درسِ قرآن میں شمولیت اختیار کرلی اور ہم نے سورہ حم السجدہ کی اس آیت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب اس آیت کی تشریح ہورہی تھی تو میں سوچ رہی تھی کہ میں نے تو کوشش کی مگر رائیگاں گئی۔ میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ہماری استانی صاحبہ نے ان الفاظ کی تلاوت کی وما یلقاہا الا الذین صبروا۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں۔ اس وقت میں پکار اٹھی کہ صبر تو میں نے کیا ہی نہیں۔ میں مسجد کے حلقہ درسِ قرآن سے واپس ہوئی تو میں نے پختہ عہد کرلیاتھا کہ میںمسلسل کوشاں رہوں گی اور ناکامی سے بچنے کے لیے صبر کرتی رہوں گی۔ میری یہ ناراض سہیلی چوتھی منزل پر رہتی تھی۔ ہر سیڑھی پر شیطان یہی کہتا تھا کہ واپس چلی جاؤ مگر میرا عزم صمیم مجھے شیطانی وسوسے کے شکار ہونے سے روکتا رہا اور میںبرابرسیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔ اب میں اپنی سہیلی کے گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ میں نے ایک بار اس تحفے کو دیکھا جو میں اس کے لیے لائی تھی۔ کال بیل پر ہاتھ رکھا تو سوچا کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ میں نے ہر قسم کے ردعمل کا سامنا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کررکھا تھا۔ میں نے اس وقت سوچا کہ میں یہاں اپنی پڑوسن کے لیے نہیں آئی بلکہ اللہ کے لیے آئی ہوں۔ میرا مقصد اس کی رضا حاصل کرنا ہے۔
دروازہ کھلا تو وہ میرے سامنے کھڑی تھی۔ میں نے پورے اعتماد اور محبت سے کہا: کیا آپ مجھے اندر آنے کی اجازت دیں گی؟ اس نے یک دم پورا دروازہ کھول دیا۔ مجھے اندر لے گئی۔ وہ ایک طویل جدائی کے بعد میرے وہاں آجانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ہم نے باتیں شروع کیں۔ ہر قسم کے موضوعات پر، مگر عتاب و ملامت کے ادنیٰ اشارے کے بغیر۔ مجھے ایسا معلوم ہورہا تھا کہ میں اپنی سہیلی کے گھر میں نہیں بلکہ اللہ رحمان و رحیم کے باغ میں بیٹھی ہوں۔ میںنے کچھ دیر وہاں بیٹھنے اور باتیں کرنے کے بعد سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک آیت پر چلنے اور اس کے مطابق حرکت کرنے کے نور نے میرے روح و بدن کو تاریکیوں کی نحوست سے نکال دیا ہے۔ اب میری پڑوسن میری گرم جوش جگری سہیلی بن چکی ہے۔ میں نے صبر سے کام لیا۔صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ برائی کا بدلہ اچھائی سے دیا۔ مایوس نہیں ہوئی۔ میں اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوں۔ میں اپنی مسرت کا اظہار الفاظ کی صورت میں کرنے سے عاجز ہوں اور آپ کی شکر گزار ہوں۔‘‘
میں نے اس بہن سے کہا: ’’آپ میرا شکریہ ادا نہ کریں بلکہ خالقِ کائنات اور مالک جسم و جان کا شکریہ ادا کریں جس نے ہمیں اپنی خواہشات کا شکار نہیں بننے دیا۔ ہمیں دوسروں کی اغراض و خواہشات کا نشانہ بننے کے لیے تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ اپنے کلام مقدس سے ہماری راہنمائی فرمائی۔ قرآن مجید پر عمل کی توفیق آسان فرمائی۔‘‘