اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں اور لڑکوں کی پیدائش میں فطری طور پر ایک توازن اور تناسب قائم کیا ہے۔ اور یہ تناسب جو ماہرینِ سماجیات بتاتے ہیں ہر سو لڑکوں پر ۱۰۲ سے ۱۰۶ لڑکیوں کا ہے۔ لیکن مختلف اسباب و وجوہ کی بنا پر یہ تناسب ساؤتھ ایشیاء میں سال بہ سال بگڑ رہا ہے اور لڑکیوں کی پیدائش مسلسل طور پر کم ہورہی ہے۔ ہندوستان میں پچھلے دو سینسس یا مردم شماری اسی تشویشناک کمی کو واضح طور پر ظاہر کرچکے ہیں۔
فطری تصور کیے جانے والے تناسب اور موجودہ تناسب کا جب مقابلہ کیا جاتا ہے تو لڑکیوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے۔ اس حقیقت کو اقوامِ متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشنس پاپولیشن فنڈ نے اپنی تازہ رپورٹ میں یہ کہہ کر واضح کیا ہے کہ ’’ایشیا میں ناپید ہونے والی ۱۱۷؍ملین لڑکیوں کی تعداد صرف ہندوستان اور چین ہی کی ہے۔‘‘ یعنی اگر ہندوستان اور چین میں دخترکشی کا رجحان نہ ہوتا تو گیارہ کروڑ ستر لاکھ لڑکیاں ناپید نہ ہوتیں اور لڑکوں اور لڑکیوں کا یہ تناسب جس پر آج کی حکومتیں پریشان ہیں بگاڑ کا شکار نہ ہوتا۔ ہندوستان میں اس وقت ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ میں محض ۹۱۴ لڑکیاں ہیں اور بعض علاقوں مثلاً پنجاب اور راجستھان کے بعض اضلاع میں یہ تناسب اور بھی کم پایا گیا ہے۔ پڑوسی ملک چین کی صورتِ حال اور زیادہ خراب ہے، جہاں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں محض ۸۴۷؍ لڑکیاں ہیں اور یہ تناسب چھ سال کی عمر تک کے بچوں کے درمیان دیکھا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں اس صورتِ حال کے لیے الٹراساؤنڈ ٹیکنالوجی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو ماں کے پیٹ میں رہتے ہوئے ہی بچے کی جنس کی شناخت کرلینے والی بتائی جاتی ہے۔ اس ٹکنالوجی کے ذریعہ یہ پتالگایاجاتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی اور اگر لڑکی پائی جاتی ہے تو اسے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کردیا جاتا ہے۔ یہ صورتِ حال موجودہ معاشرے کی سنگ دلی، اس کے فکری فساد کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی کے خیر کے ساتھ ساتھ شرو فساد کی ایک مثال ہے۔
حالانکہ یہ بات ابھی بھی یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ الٹراساؤنڈ حتمی اور یقینی طور پر یہ بتا ہی دیتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی، مگر لڑکی کا امکان ظاہر کرنے کے نتیجے میں ہی میڈیکل سائنس کا ارتقاء اپنی ٹکنالوجی سے اسے ختم کردیتا ہے۔ یونائٹیڈ نیشنس پاپولیشن فنڈ کی اس رپورٹ کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ لڑکیوں کے دھوکے میں ہزاروں لڑکے بھی اس ٹکنالوجی کی بھینٹ چڑھ رہے ہوں گے۔ اس ٹکنالوجی کی صحت پر اور اس کی قطعیت پر سوال یقینی ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: ’’اورکوئی نہیں جانتا کہ ماؤں کے رحم میں کیا ہے۔‘‘
زید سعودی عرب میں رہتا ہے، جہاں بیٹی کی پیدائش کو خوشحالی تصورکیا جاتا ہے۔ اس کی بیوی کو الٹراساؤنڈ نے بتایا کہ بیٹا ہونے والا ہے، مگر ان کی آنکھوں نے دیکھا کہ بیٹی پیدا ہوئی۔ سیکس ڈٹرمینشن جو اس ملک میں ممنوع نہیں، ناکام ہوگیا۔ اس کے بالکل برعکس زید کے دوست کے ساتھ ہوا۔ بتایا گیا کہ لڑکی ہونے والی ہے، مگر لڑکا ہوا۔
یہ دو واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کتنے ہی ’’بدبخت‘‘ والدین ہیں جو بیٹے کی چاہ اور بیٹی کی نفرت میں اپنے بیٹے کی چاہت کو ٹکنالوجی کی بھینٹ چڑھا کر محرومی کو اپنی قسمت بنارہے ہیں۔
ہندوستان میں اگرچہ سیکس ڈٹرمینشن یعنی جنس کی شناخت (لڑکا یا لڑکی) قانوناً ممنوع ہے اس کے باوجود یہ کاروبار یہاں مدت سے جاری ہے اور اس کا واضح ثبوت پچھلی دونوں مردم شماریاں ہیں۔ جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہندوستان میں لڑکی کی پیدائش غیر مطلوب اور غیر پسندیدہ ہے۔ چنانچہ والدین اپنے علم اور کوشش کی حد تک اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ لڑکیاں پیدا نہ ہونے پائیں۔ گزشتہ چند سال قبل راجستھان کا ایک گاؤں اخباری سرخیوں میں صرف اس قصہ سے آیا کہ اس گاؤں میں چالیس سال کے بعد بارات آئی تھی۔ یعنی لڑکیاں نہیں تھیں۔ راجستھان ہی کے شہر جے پور کے بارے میں ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ وہاں ہر سال ۳۵۰۰ لڑکیوں کو رحمِ مادر میں قتل کردیا جاتا ہے۔ جبکہ ہندوستان کی تجارتی راجدھانی ممبئی کے بارے میں ۱۹۸۴ء کا ایک سروے بتاتا ہے کہ ۸۰۰۰ بچوں میں سے جنھیں قتل کیا گیا۷۹۹۹ لڑکیاں تھیں۔
چنئی کی ایک تنظیم کمیونٹی سروس گلٹ نے ۱۲۵۰ ہندو خاندانوں کا سروے کیا اور پایا کہ ان میں ۷۴۰ خاندان ایسے ہیں، جن میں صرف ایک لڑکی ہے۔ جبکہ ۲۱۳ ایسے ہیں جن میں دو یا دو سے زیادہ لڑکے ہیں۔ ان خاندانوں میں ۲۴۹ نے کھلے عام اعتراف کیاکہ انھوں نے جان بوجھ کر ہی صرف لڑکی کی کفالت کو پسند کیا ہے۔
یہ فکری فساد ہے
چین میں لڑکی کی پیدائش کو ناپسند کرنے کے کیا سماجی اسباب ہیں، اس کا ہمیں بہت زیادہ اندازہ نہیں مگر ہندوستان کے سماج و معاشرے میں لڑکی کو ناپسند کیے جانے کے اسباب واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
قدیم ہندوستانی سماج میں عورت کی جو حیثیت تھی، وہcommodityیا قابلِ انتقال شئے کی تھی اور اسے ’’دان‘‘ کیا جاتا تھا۔ اس دان کا مہذب نام ’’کنیا دان‘‘ آج بھی رائج ہے۔ جہاں شادی کی رسم کو کنیا دان کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ وہ ذہنی فساد ہے جو مذہب کی بنیاد پر قائم ہوا اور اس نے لڑکی کی موجودگی کو لڑکے کے مقابلے میں فروتر گردانا۔
ایک اور اہم سبب ہندوستانی سماج کا مفاد پرستانہ نظریۂ حیات ہے۔ بیٹا ہوگا تو کمائے گا، کھلائے گا اور سہارا بنے گا۔ بیٹی ہوگی تو کیا ملے گا۔ محض ذمہ داری۔ پالنا پوسنا اور دوسروں کے حوالے کردینا۔ یہ نظریہ بنیادی طور پر خدا کے نظام کو نہ سمجھنے اور فطرت سے جنگ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اور تیسرا اور اہم سبب یہ ہے کہ موجودہ سماج میں جہیز کی رسم نے جان لیوا اور انتہائی تکلیف دہ حالت پیدا کردی ہے، غریب اور متوسط طبقے کے لوگ لڑکی کی پیدائش سے محض اس لیے گھبراتے ہیں کہ وہ اسے اچھا پڑھا لکھا کر بھی اس کی شادی اور شادی کے بعد کی ضروریات کو بہتر یا سماج کی رسموں کے مطابق پورا نہیں کرسکیں گے۔ اس میں پورا ہندوستانی سماج یکساں ہے خواہ وہ مسلم سماج ہو یا ہندو اور سکھ سماج۔ سکھ سماج کا معاملہ تو اور عجیب ہے، وہ سب سے زیادہ خوشحال تصور کیا جاتا ہے، مگر لڑکیوں کا سب سے کم تناسب ریاست پنجاب ہی میں ہے، جہاں اکثر سے بھی زیادہ اکثریت سکھ مذہب کے ماننے والوں کی ہے، جبکہ مسلم سماج بھی اپنی جہالت اور بے دینی کے سبب اس کیچڑ میں اسی قدر ڈوبا ہوا ہے جس قدر دوسرے لوگ۔ اس میں تفریق اگر کی جاسکتی ہے تو محض استثنائی ہے۔
فکر کو بدلنے کی ضرورت
یہ فکری فساد ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ٹکنالوجی کو ہی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ بلکہ اس کا اصل سبب وہ فکر ہے، جو لڑکی کو کمتر اور بے فائدہ تصور کرتی ہے۔ اگرچہ اس فکر کو بدلنے میں شادی بیاہ کی غلط اور فضول رسموں کے خاتمہ کا اہم رول ہوگا مگر سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ لڑکی کو بھی اسی طرح اہم تصور کیا جائے، جس طرح لڑکے کو اہم تصور کیا جاتا ہے اور یہ اسی وقت ہوگا جب لوگوں میں یہ سوچ عام ہوگی کہ بہ حیثیت انسان مرد اور عورت یکساں اور برابر ہیں اور دونوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص نظام کے تحت پیدا کیا ہے اور دونوں کی ضرورت اور اہمیت یکساں ہے۔ ——