تعلیمی کیرئیر کا انتخاب طالب علم کی زندگی کا اہم مسئلہ ہے اور لڑکیوں کے لیے تو زیادہ اہم تر۔ تعلیمی کیرئر کے انتخاب کے ذریعہ ہی تعلیم کو روزگار سے بھی جوڑا جاتا ہے اور مقصد زندگی اور سماجی خدمت سے بھی۔ لڑکیوں کے تعلیمی کیرئیر کو روزگار سے جوڑنے کا نظریہ یکسر انداز تو نہیں کیا جاسکتا لیکن کم از کم مسلم لڑکیوں کے سلسلہ میں یہ اس حیثیت سے قابلِ غور ضرور ہے کہ موجودہ فساد زدہ معاشرہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دور اور ان کے خاص ورک کلچر کی حالت کو نظر میں رکھتے ہوئے اس معاشرہ میں مسلم تعلیم یافتہ لڑکیوں کو روزگار حاصل کرنے کے مواقع کس حد تک ہمارے دینی، تہذیبی اور فکری سانچے میں فٹ ہوپاتے ہیں۔ اس حیثیت سے سوچتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ اس خاص ماحول اور کلچر میں ہماری مسلم لڑکیوں کا شامل ہونا نہ صرف ہماری بنیادی اخلاقی تعلیمات اور دینی طرزِ زندگی کے لے خطرناک ہے بلکہ اپنی مذہبی اور اخلاقی اقدار سے ہاتھ دھونے کے لیے کافی ہے۔
تعلیم کو لڑکوں کے سلسلہ میں روزگار سے جوڑنے کی فکر اگرچہ کسی نہ کسی حد تک حقیقت پسندانہ ہے لیکن لڑکیوں کے سلسلے میں یہ فکر ان بنیادی سماجی، معاشرتی اور انسانی صلاحیتوں کو نظر انداز کرنا ہے جو قدرت نے فطری طور پر مردوں اور عورتوں کو الگ الگ عطاء کی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک مسلم سماج میں مختلف میدانوں کی خواتین ماہرین کی ضرورت اور اہمیت ناقابلِ انکار ہے۔ ایسے میں والدین کے دو نقطۂ نظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر لڑکیاں نوکری نہ کریں تو ان کی اعلیٰ اور پیشہ وارانہ تعلیم کا کیا فائدہ؟ اور دوسری یہ سوچ کہ اگر لڑکیوں نے اعلیٰ تعلیم اور پیشہ وارانہ مہارت پیدا کی ہے تو ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس کا استعمال کرتے ہوئے نوکری کریں۔ جبکہ حقیقت میں یہ دونوں ہی نقطۂ نظر غیر حقیقت پسندانہ اور افراط و تفریط پر مبنی ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم صرف یہی کہنا چاہتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم ہو یا لڑکوں کی دونوں کا بنیادی مقصد صرف اور صرف یہی ہونا چاہیے کہ ملک و ملت کو باشعور، باصلاحیت، بااخلاق اور بلند کردار شہری میسر آئیں۔ اگر یہ نقطۂ نظر نہ ہو تو خواہ ملک کے تمام تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیاں نوکری کرکے دولت کمانے لگیں مگر تعلیم کا بنیادی مقصد حاصل نہ ہوسکے گا۔ اور بدقسمتی سے اس وقت یہی صورت ہے۔ جبکہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کا ایک اور اضافی پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑکیاں مستقبل کا سانچہ ہیں اور ان سانچوں کا ہر طرح سے درست مناسب اور معیاری ہونا ضروری ہے اس لیے وہ اس بات کی زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی ذہنی وفکری سطح کو اس حد تک لازماً بلند کیا جائے کہ وہ زمانے کے تقاضوں اور وقت کے چیلنجز کو سمجھنے اور اس کے مطابق نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے لائق بن جائیں۔ اس لیے والدین اور خود مسلم لڑکیوں کو یہ سمجھنے کی فکر کرنی چاہیے کہ تعلیمی کیرئیر کو چنتے وقت ان کی ترجیحات کیا ہوں؟
اس وقت دنیا بھر میں عام طور پر ہمارے ملک میں خاص طور پر تعلیم و تحقیق کے میدان میں ایک عدم توازن کی کیفیت پیدا ہورہی ہے اور مستقبل میں یہ کیفیت ایک بحران کی شکل اختیار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ تعلیم کو روزگار سے جوڑنے کی فکر نے لوگوں کو صرف یہ سوچ دی کہ وہ اپنا زیادہ باصلاحیت اور ذہین طبقہ پیشہ وارانہ تعلیم جیسے ڈاکٹری انجینئرنگ اور سائنسی علوم کی طرف دھکیل رہے ہیں اور وہ میدان ہائے تعلیم جو انسان اور سماج و معاشرے کے بنیادی مسائل، حل اور ضروریات سے متعلق ہیں باصلاحیت اور ذہین طلبہ سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔
دوسری طرف ملٹی نیشنل ٹائپ کمپنیوں کا وہ ماحول ہے جہاں خواتین روزانہ نت نئے مسائل سے دوچار ہورہی ہیں اور اپنی نسوانیت اور اپنا عزت و وقار گنوانے کے کگار پر جاپہنچی ہیں۔تو کم از کم مسلم طالبات اور ان کے والدین کوتو اس بات پر ضرور توجہ دینی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے عزت و وقار، ان کے نسوانی کردار اورسماج و معاشرہ کی فلاح و بہبود اور اس کے مسائل کے حل میں تعلیم و تحقیق پر توجہ دینے کی خاطر انہیں ایسے میدانوں کی طرف رخ کررائیں جہاں وہ اپنے وقار کو بھی باقی رکھ سکیںاور سماج و معاشرہ کی خدمت کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی فلاح و بہبود میں بھی اہم کردار ادا کرسکیں۔
آج ہمارے ملک کو بھی اور ملت و معاشرے اور اسلامی تحریک کو بھی ایسی بلند پایہ خواتین محققین اور ریسرچ اسکالر خواتین کی ضرورت ہے جو اسلام کا گہرا شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ ان سماجی اور انسانی علوم میں زبردست مہارت رکھتی ہوں جن کا تعلق عام انسانی و معاشرتی ضروریات سے ہے۔
ہماری طالبات اور ہمارے سماج کے والدین ذرا نظر اٹھا کر دیکھیں کہ ان کے آس پاس کیا اعلیٰ درجہ کی ماہر سماجیات، تاریخ و تہذیب، نفسیات، تعلیم و تربیت،میڈیکل و تیمارداری، صحافت و میڈیا، نفسیات وسماجی خدمت اورماہر مذہبیات خواتین نظر آتی ہیں۔
جبکہ یہ اور اس جیسے اور بہت سے میدان ہائے تعلیم ایسے ہیں جہاں اعلیٰ ترین مقام کو پہنچ کر بھی ہماری خواتین نہ صرف اپنے عزت و وقار کو محفوظ رکھ سکتی ہیں بلکہ ملک و ملت اور سماج کی بہترین خدمت بھی انجام دے سکتی ہیں۔
ہمارے خیال میں یہ بہترین وقت ہے کہ ہماری طالبات ان میدانوں کی طرف متوجہ ہوں اور انہیں اپنے کیرئر کا میدان بناکر اعلیٰ صلاحیتیں پیدا کریں۔ اس طرح ایک طرف تو وہ باعزت طریقہ پر اپنی تعلیم کو روزگار سے بھی جوڑ سکیں گی دوسری طرف وہ بہترین انداز میں سماج و معاشرہ کی خدمت کے ساتھ اس خلا اور عدم توازن کی کیفیت کو بھی ختم کرنے میں معاون ہوں گی جو پیشہ وارانہ تعلیم کی اندھی دوڑ نے سماج ومعاشرہ میں پیدا کردیا ہے۔
دنیا جیسے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کررہی ہے، انسان ویسے ویسے نت نئے سماجی، معاشرتی، نفسیاتی اور تہذیبی مسائل سے دوچار ہوتا جارہا ہے۔ مادہ پرست اور دولت کا پجاری معاشرہ نہ تو خود اس کی پرواہ کررہا ہے اور نہ ہی یہ چاہتا ہے کہ کوئی اس طرح کے موضوعات کی طرف متوجہ ہو۔ کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اس کے نظام، اس کی اقدار اور اس کی تہذیب اور اس کے مفادات کی قلعی کھل جائے گی۔
ان میدانوں کی طرف متوجہ ہونا وقت کا تقاضا بھی ہے اور زمانے و حالات کی ضرورت بھی۔ یہ ہمارے سامنے مواقع سے بھرا میدان بھی ہے اور چیلنجز سے پُر صورت حال بھی۔ تو کیا ہمارے معاشرے کے مسلم والدین اور ہماری طالبات ان مواقع اور چیلنجز سے فائدہ اٹھانے کا عزم نہیں کرسکتے؟
مسلم طالبات اور تحریکِ اسلامی کی فکر رکھنے والی طالبات کیا ’’گاؤں بنتی دنیا‘‘ میں اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ صحافت کے میدان میں ان کا لکھا ہوا ایک مضمون ہزاروں ذہنوں کی اصلاح اور نئی فکر دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے اور کیا وہ اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ سماجی علوم کے میدان بحث و تحقیق کے ذریعہ وہ سماج و معاشرہ پر اثر انداز ہوکر نئی تبدیلی لاسکتی ہیں اور سماج کو نئے رخ پر چلانے کا کام کرسکتی ہیں اور کیا یہ بات ابھی تک ہماری باشعور طالبات پر واضح نہیں ہوئی کہ تعلیم و تربیت، تاریخ اور علوم مذاہب کے میدان میں گراں قدر تحقیقات پیش کرکے ایک پورے نظام اور افکار و خیالات کے سانچوں کو تبدیل کرسکتی ہیں۔
اگر یہ علوم انسانی اور سماجی زندگی پر اس قدر گہرے اثرات مرتب کرسکتے ہیں تو نہ تو ان علوم کو نظر انداز کرنے کا کوئی جواز ہے اور نہ پیشہ وارانہ تعلیم کی اندھی دوڑ میں کودنے کی کوئی وجہ۔ مگر شرط ہے سخت جدوجہد کے عزم کے ساتھ چیلنجز کے مقابلہ کا ارادہ اور ایک جذبہ جسے جذبۂ خدمت خلق بھی کہا جاتا ہے۔ اور دعوت و تحریک کا جذبہ بھی۔lll