میراث اس مال اور اسباب کو کہتے ہیں جس کو مرنے والا چھوڑ کر جاتا ہے۔ اس مال و اسباب میں اس کے وارثوں کا حق ہوتا ہے جن میں مرنے والے کے بیٹے بیٹیاں اور دیگر قریبی رشتہ دار شامل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام کے حصے قرآن مجید میں واضح انداز میں بیان کردیے ہیں کہ کس وراث کو کس صورت میں کتنا حصہ ملے گا۔ اسلام نے اسی وراثت میں جہاں بیٹوں کا حق متعین کیا ہے وہیں مرنے والے کی بیٹیوں کا حصہ بھی واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ لیکن مسلمانوں کی اسلام سے غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج بیٹیوں کو مکمل طور پر باپ کی میراث سے محروم کردیا گیا ہے۔ اور دیکھنے میں آتا ہے کہ اچھے اچھے دین دار لوگ بیٹیوں کو ان کا شرعی حصہ نہیں دیتے جو دین کے خلاف ہے جو بہت بڑی حق تلفی اور اللہ و رسولﷺ کی مخالفت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’جو شخص اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا اور اللہ کے قانون و ضابطوں سے نکل جائے گا تو اللہ اس کو دوزخ میں داخل کرے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا اور اس کو ذلت کی مار دی جائے گی۔‘‘ (النساء)
ہادیِ اعظم حضور ﷺ فرماتے ہیں:
’’بعض لوگ تمام عمر اللہ کی عبادت کرتے ہیں لیکن مرنے کے وقت میراث میں وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سیدھا دوزخ میں پہنچاتے ہیں۔ یاد رکھو جو شخص اپنے وارث یعنی حق دار کو میراث کے مال سے محروم کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت سے محروم کرے گا۔‘‘ (ترمذی و مشکوٰۃ)
بس جو نیک بندے اللہ اور رسولؐ کا حکم سمجھ کر میراث کا مال تقسیم کرتے ہیں اور حصے داروں کو پورا پورا حصہ دیتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے:
’’ جو لوگ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر چلیں گے اللہ تعالیٰ آخرت میں ان کو جنت الفردوس کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (النساء)
اسلام عدل و انصاف کا دین ہے اور اس نے انصاف کے مطابق تمام وارثوں کے باقاعدے حصے متعین کردیے ہیں اور دولت کی تقسیم کو انصاف پر مبنی اصولوں پر قائم کیا ہے۔ اس انصاف کو سماج و معاشرے اور اپنی ذات پر قائم کرنا اسی طرح فرض اور ضروری ہے جس طرح پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام اور روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اگر انسان روزہ، نماز، اور حج کا اہتمام کرے اور حق داروں کو ان کا حق نہ دے تو تمام عبادات اللہ کے نزدیک ناقابلِ اعتبار ٹھہریں گی جیسا کہ حدیث سے واضح ہے۔