گذشتہ ماہ کے آخری ہفتہ میں دسویں اور بارہویں کے نتائج نے ایک بار پھر دھماکہ کیا۔ سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن (CBSE) کے بارہویں کے امتحان میں اس بار بھی لڑکیوں نے لڑکوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس طرح گذشتہ چودہ سالوں کی روایت قائم رہی۔ اس سال سی بی ایس ای بورڈ کے امتحان میں کامیابی کا تناسب 79.55%رہا جس میں لڑکے 75.93% اور لڑکیا ان سے کہیں آگے84.41%رہیں۔ لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان یہ 8.5%کا فرق گذشتہ سال کے مقابلہ 2% سے کچھ زیادہ ہے۔ دہلی کی رہنے والی نمیشا چودھری 97.2%نمبرات حاصل کرکے دہلی میں اول رہیں۔ چنئی میں اگرچہ لڑکے اور لڑکیوں کے کامیاب ہونے کے تناسب میں کوئی بہت بڑا فرق نہیں ہے مگر دہلی میں حیرت ناک طریقہ سے لڑکیاں لڑکوں سے 8%آگے ہیں جبکہ اجمیر ریجن میں یہ فرق گھٹ کر صرف5.24%رہ گیا ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں لڑکیوں نے لڑکوں کو پیچھے چھوڑنے کی روایت 1991ء میں شروع کی تھی اور اپنی محنت اور سنجیدگی کے بل پر گذشتہ پندرہ سالوں سے وہ اسے قائم رکھے ہوئے ہیں۔
سی بی ایس ای کے بارہویں کلاس کے نتائج کے مطابق 5412طلبہ ایسے ہیں جنھوں نے 90%نمبرات حاصل کیے ہیں جبکہ 90%سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والوں میں کل3380طلبہ ہیں جن میں 1906صرف دہلی کے ہیں اور ان 90% سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والوں میں بھی اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ واضح رہے کہ ۲۰۰۱ء میں 90%سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والے دہلی میں صرف226طلبہ و طالبات تھے۔
سی بی ایس ای کی پالیسی ہے کہ وہ ٹاپر کا اعلان نہیں کرتا صرف نمبر اور فیصد بتاتا ہے ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوٹایام کی جیرینے میتھیو سی بی ایس ای کی ٹاپر ہیں جنھوں نے 98.2%نمبرات حاصل کیے ہیں۔ وہ سنٹرل ورک ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر کی بیٹی ہیں۔ جیرینے کی جڑواں بہن آئی رینے نے بھی سائنس میں 98.8%نمبرات حاصل کیے ہیں۔ جیرینے کے ریاضی میں 99% بائیلوجی میں99، فزکس میں 99 ، کیمسٹری میں 97اور انگریزی میں 96نمبرات حاصل کیے ہیں۔
اسی طرح سی بی ایس ای کے دسویں کے نتائج بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ محنتی، سنجیدہ اور علم کی شوقین ہیں۔ اس سال کے نتائج بتاتے ہیں کہ دسویں میں پاس ہونے کا تناسب77.16%جس میں طالبات تناسب77.70%اور طلبہ کا 76.77%ہے۔
دسویں میں لڑکیوں نے لڑکوں کو پیچھے چھوڑ نے کی روایت تین سال پہلے شروع کی تھی اور وہ اب تک اسے نے صرف قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ مسلسل ان کے درمیان کا فرق بڑھتا جارہا ہے۔ مذکورہ بورڈ کے ذریعہ جاری کردہ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ اس امتحان میں 95فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے میں بھی لڑکیوں نے لڑکوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور اس میدان میں ملک کی راجدھانی دہلی سب سے آگے ہے جہاں 90سے 95فیصد نمبرات حاصل کرنے میں لڑکیاں لڑکوں سے کافی آگے ہیں۔ لڑکیوں کا یہ ریکارڈ صرف سی بی ایس ای بورڈ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دیگر ریاستوں کے تعلیمی بورڈس کے امتحانات میں بھی لڑکیوں کی کارکردگی نہ صرف بہت بہتر رہی ہے بلکہ وہ مجموعی اعتبار سے کئی ریاستوں میں لڑکوں سے آگے رہی ہیں۔
ملک کی سب سے پسماندہ تصور کی جانے والی ریاست بہار میں بھی لڑکیاں لڑکوں سے آگے رہی ہیں۔ بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل کے ذریعہ اس سال کے جاری کردہ نتائج بتاتے ہیں کہ یہاں مجموعی کامیابی76.09فیصد رہی جس میں لڑکیاں لڑکوں پر بازی مارتے ہوئے 80.37فیصد رہیں جبکہ لڑکوں کا تناسب 74.01فیصد سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اسی طرح بہار سے حال ہی میں الگ ہوئی ریاست جھارکھنڈ میں بھی لڑکیوں نے لڑکوں سے آگے نکلنے کی روایت کو باقی رکھا۔ جھارکھنڈ اکیڈمک کونسل کے ذریعہ اعلان کردہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کامیابی کا تناسب آرٹس میں 74.51، سائنس میں43.09اور کامرس میں68.78فیصد رہا۔ جھار کھنڈ وہ ریاست ہے جس میں گذشتہ سال کے مقابلہ 24%زوال سامنے آیا۔
اس صورت حال میں آرٹس میں72.33لڑکے اور 76.75فیصد لڑکیاں، سائنس میں41.56 فیصد لڑکے اور 48.28فیصد لڑکیاں اور کامرس میں48.28فیصد لڑکے اور 79.83لڑکیوں نے کامیابی حاصل کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ جملہ میدانوں میں لڑکوں سے زیادہ بہتر کارکردگی کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ان نتائج کے درمیان کئی اور چیزیں حیرت ناک ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ حیران کن اور خوشی کا باعث رشمی تنیجاکی کارکردگی ہے۔ کامرس کی طالبہ رشمی نے 88.2فیصد نمبرات حاصل کیے ہیں جبکہ وہ پیدائشی طور پر نابینا ہے۔ رشمی وہ کی طالبہ ہے جس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کا نابینا ہونا اس کے جذبے، لگن اور شوق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ رشمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی لکھنے والے کی خدمات نہیں لیتیں اور کسی پر منحصر ہونا نہیں چاہتیں اور اس کام کے لیے ایک نارمل ٹائپ رائٹر استعمال کرتی ہیں۔ رشمی نے تاریخی مثال قائم کرتے ہوئے بے شمار لوگوں کے لیے خود کو نمونہ بنادیا ہے۔
اسی طرح کی مثال گڑگاؤں (ہریانہ) کی سوما پٹنائک نے قائم کی ہے۔ سوما صرف ۲ فیصد دیکھ سکتی ہے اور پڑھنے کے لیے اسے محدب عدسہ کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ وہ ریٹنائٹس پکمنٹوسا نامی بیماری کا شکار ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ چند سال بعد وہ مکمل طور پر نابینا ہوجائے گی۔ مگر اس صورت حال کے باوجود سوما نے حیرت انگیز طور پر 92.6فیصد نمبرات حاصل کرکے ایک شاندار ریکارڈ قائم کیا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ اپنا مطالعہ کس طرح کرتی ہے۔ سوما نے جواب دیا کہ ’میں مکمل اندھے پن کی طرف بڑھ رہی ہوں اور میں نے خود کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار کرلیا ہے۔ میں مکمل طور پر سننے پر انحصار کرتی ہوں اور گھر میں آکر کورس کی کتابیں لوگوں سے پڑھوا کر سنتی ہوں۔ اگرچہ میں خود بھی پڑھ سکتی ہوں مگر دیر تک نہیں پڑھ سکتی۔‘ سوما نے بڑے اعتماد سے کہا کہ میرے نمبرات 95فیصد سے زیادہ ہوجاتے اگر سنسکرت میں میرے نمبر کم نہ آتے۔ اس نے کہا کہ کئی مضامین میں میرے نمبر 99 ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں اس شاندار کارکردگی میں ہندو لڑکیاں بھی شامل ہیں اور مسلم و سکھ اور عیسائی بھی۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ اس سماج کی لڑکیاں ہیں جہاں انہیں آج بھی پرایا دھن تصور کرکے بہت ہی بنیادی تعلیم و تربیت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہندو سماج اور ویدک دھرم میں عورت اور گائے میں مذہبی طور پر کوئی فرق نہیں۔ ان تمام تلخ حقائق کے ساتھ اگر لڑکیاں موقع پاتے ہی اس قدر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بے شمار تخلیقی اور تعمیری صلاحیتیں رکھی ہیں اور اگر انہیں مواقع میسر آئیں اور اعلیٰ تعلیم و تربیت سے آراستہ کردیا جائے تو وہ ایک ہمہ گیر سماجی و معاشرتی انقلاب کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
یہ الگ اورافسوسناک بات ہے کہ اس پورے تعلیمی نظام کی باگ ڈور اور اس کا نظم و نسق ان لوگوں کے ہاتھوںمیں ہے جو تصور دین و اخلاق سے نابلد اور مغربی دنیا کی ’’ثقافتی دہشت گردی‘‘ کی زد میں ہیں۔ لیکن ملت اسلامیہ کے لیے مثبت پہلو یہ ضرور سامنے آتا ہے کہ اس نظام میں بھی روزہ نماز اور تلاوت قرآن ہی نہیں بلکہ تہجد گزار نوجوان لڑکیاںبھی نمایاں کامیابی حاصل کررہی ہیں اور یہ لڑکیاں موجودہ دور کی فلمی ہیروئنوں اور اسٹارس کو نہیں بلکہ عائشہ اور فاطمہ کو اپنا رول ماڈل تصور کرتی ہیں۔
سماج کے دیگر طبقوں کے لوگ اپنی بچیوں کی اس کامیابی پرخوشیاں منانے کے حقدار ضرور ٹھہرتے ہیں لیکن ملت اسلامیہ کے افراد اس صورت حال سے کئی سبق حاصل کرسکتے ہیں اور انہیں حاصل کرنے چاہئیں:
٭ اس ضمن میں سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ لڑکیوں کی معیاری تعلیم پر امت مسلمہ بھر پور توجہ دے تاکہ لڑکیوں میں بھی اعلیٰ ترین صلاحیتیں ابھر کر آئیں اور ملک و ملت کی تعمیر جدید میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔
٭ تجربات اور مشاہدات بتاتے ہیں کہ جس طبقہ کی طالبات نے بھی یہ نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اس میں ان کے گھر اور والدین کی بھر پور توجہ اور مناسب رہنمائی کا کلیدی رول ہے۔ مسلم گھرانے بھی اپنے بچے بچیوں کی تعلیم کے لیے اسی طرح سنجیدہ اور متوجہ رہیں جس طرح سماج کے دیگر طبقوں کے لوگ ہیں۔
٭ حالات اور واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح ہی یا ان سے بھی آگے نکل کر بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہیں اور ہماری اسلامی تاریخ میں بھی بے شمار ایسی خواتین ہیں جن میں سے ایک ایک سیکڑوں اصحاب علم و فضل پر بھاری نظر آتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ بھی ایسی عظیم، انقلابی اور صاحب علم و فضل خواتین تیار کرنے پر توجہ دے کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا فریضہ انجام نہیں دیا جاسکتا۔
٭ اب وقت آگیا ہے کہ تحریک اسلامی ان ذہین اور باصلاحیت طالبات کو اپنے حلقہ میں شامل کرنے کی طرف پوری سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اس کام کے لیے عملی منصوبہ بنائے کہ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کے درمیان اسلام کے انقلابی پیغام کو متعارف کیسے کرایا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ جب تک ہم کالجوں اور اسکولوں میں نفوذ حاصل نہیں کریں گے اعلیٰ ترین صلاحیتیں اور نیا خون اسلامی تحریک کو حاصل نہ ہوسکے گا۔ اس طرح اسلامی تحریک کو وہ خواتین میسر نہ آسکیں گی جو اسلامی معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں ستون کا کام انجام دے سکیں۔
٭ یہ وقت ہے کہ مسلم سماج خواتین کے سلسلہ میں غیر حقیقت پسندانہ اور غیر اسلامی سوچ و فکر کو ترک کرتے ہوئے عہدِ اسلامی کی طرف پلٹے اور خواتین کو ان کا وہ مقام دینے کے لیے خود کو آمادہ کرے جو اللہ اور اس کے رسول نے تو دیا ہے مگر ہماری خواہشات اور ہمارے اندیشوں نے ان حقوق و اختیارات کو سلب کرلیا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے دیکھنا ہوگا کہ اللہ کے رسول نے خواتین کو زیور علم سے آراستہ کرکے انہیں اس طرح پختہ انداز میں تیار کریا تھا کہ وہ دین، سیاست، معیشت، دعوت اور جہاد ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے قابل ہوگئی تھیں۔




