لڑکیو ں کی تعلیم

غزالہ انجم

حالیہ تعلیمی بیداری میں لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیاں زیادہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہورہی ہیں۔ لڑکیوں کی یہ کامیابی خوش آئند ہے۔ مختلف سطح کے امتحانات اورمقابلوں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی نمایاں کامیابی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ موجودہ مقابلہ کے دور میں لڑکیاں زیادہ سنجیدہ ہیں اور خود کو اس حالت میں زیادہ کامیاب ثابت کرنے میں لگی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں لڑکیوں کا تناسب بتدریج بڑھ رہا ہے جبکہ لڑکے اپنے غیر سنجیدہ طرزِ عمل کے سبب مسلسل پیچھے جارہے ہیں۔

اس تعلیمی مسابقت کے دور میں ہمارے لڑکوں کا پیچھے رہ جانا کئی سماجی و معاشرتی مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ درمیان میں تعلیم چھوڑنے والے نو عمر طلبہ چونکہ غیر تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ طور سے غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں اس لیے خود کو کسی میدان میں کامیاب ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ نتیجتاً ان کے لیے ایک ہی میدان بچتا ہے اور وہ ہے جرائم کی دنیا کا میدان جو بہت جلد اور بہ آسانی انہیں دولت مند بنادیتا ہے۔چنانچہ ہم اعداد و شمار دیکھتے ہوئے حیران ہوجاتے ہیں کہ جرائم میں کس قدر تیزی سے یہ نوعمر شریک ہورہے ہیں اور ان کی تعداد تیز رفتاری سے جرائم کی دنیا میں بڑھ رہی ہے۔ ایک اور معاشرتی مسئلہ یہ پیدا ہورہا ہے کہ ان تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لیے مناسب رشتوں کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں اپنے جیسے زیادہ تعلیم یافتہ لڑکے سے شادی کریں گی حالانکہ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے۔ اچھے شوہروں اور تعلیم یافتہ لڑکوں کی تلاش میں بہت سی لڑکیوں کی عمریں ڈھل رہی ہیں نیز اس کے دوسرے غیر فطری نتائج بھی رونما ہورہے ہیں۔ معاشرے میں اخلاقی برائیاں اور معاشرتی مسائل بھی اس کے سبب پیدا ہورہے ہیں۔ ہمیں اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے سوچنا ہوگا۔ لڑکیوں کی تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی تعلیم یا توبے مقصد ہے یا پھر اس کا مقصد محض نوکری کے ذریعہ دولت کا حصول اور معیارِ زندگی کو اعلیٰ ترین بنانا ہے یا پھر محض ڈگری حاصل کرکے اچھے رشتوں کا حصول ممکن بنانا ہے۔

یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ایک متوازن سماج میں لڑکیوں کی تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی لڑکوں کی اور سماج و معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ان کا رول بھی ناقابل انکار ہے مگر یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ ہمارے آج کے سماج میں تعلیم یافتہ لڑکیوں کی ازدواجی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے اور یہ مشاہدہ عام ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں اچھی بہو اور اچھی بیوی ثابت نہیں ہوتیں۔ اچھی بہو تو درکنار یہ لڑکیاں اچھی بیٹی بھی ثابت نہیں ہورہی ہیں۔ آخر ان مسائل کا حل کیا ہے۔ کیا ہم لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم نہ دلوائیں؟ نہیں بلکہ ہم اس مروجہ نظام تعلیم کی اصلاح کریں۔ اور لڑکیوں کے لیے ایسا تعلیمی نظام وضع کریں جس سے نکلنے والی طالبات اپنی جملہ تعلیمی صلاحیتوں کے ساتھ سماجی، معاشرتی اور خاندانی تقاضوں کو بھی سمجھ کر انہیں ادا کرنے کے لیے فکر مند ہوں۔ یہ ہمارے قومی نظام تعلیم کی اہم ترین ضرورت ہے۔

دوسری طرف امت مسلمہ اس طرف خصوصی توجہ دے کیونکہ لڑکیوں کی تعلیم امت مسلمہ کی ضرورت اور ترجیحات عام لوگوں کی ترجیحات اور ملکی ضروریات سے قدرے مختلف ہیں۔ امت مسلمہ کو ایسے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں ان کی بیٹیوں کو کاروبار زندگی چلانے کے ساتھ ساتھ اسلام کا ایسا گہرا اور واضح شعور ہو کہ وہ ہر میدان میں اپنی ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی انجام دے سکیں۔

ان اداروں سے ایسی خواتین کی ٹیم نکلے جو اسلامی معاشرے کو برپا کرنے میں اپنا کردار نبھائے اور ایسی نسل تیار کرے جو الٰہی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے والی اور عملاً سماج میں انہیں قائم کرنے والی ہو۔ اگر ہم اس طرح کی جدوجہد میں کامیاب ہوگئے تو انشاء اللہ یہاں سے وہ پاکیزہ و پاکدامن روحیں نکلیں گی جن سے معاشرے کی فضا بدل جائے گی۔ پھر ان نحوستوں کو پنپنے کا موقع نہیں ملے گا جو عریانی و بے حیائی کی پیداوار ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146