لڑکی کے سسرالی مسائل

مولانا سیدجلال الدین عمری

آج جدھر دیکھئے ہمارے ملک میں لڑکیوں پر سسرال والوں کی زیادتی کا ذکر عام ہے۔ کبھی جہیز کے نہ لانے یا کم لانے پر اسے مارا پیٹا جاتا ہے تو کبھی اسے بداخلاقی اور زبان دراز بتایاجاتا ہے۔ کبھی کہاجاتا ہے کہ وہ آرام طلب اور کام چور ہے کبھی اسے اس لئے پریشان کیا جاتا ہے کہ اس کے اندر سلیقہ اور تہذیب نہیں ہے، کبھی شکل وصورت کی خرابی اور تعلیم کی کمی کا طعنہ دیاجاتا ہے۔ عام حالات میں عورت اسے زندگی کا لازمی مرحلہ سمجھ کر خاموشی سے برداشت کرتی رہتی ہے لیکن اگر وہ اپنے دفاع کی کوشش کرے اور حرفِ شکایت زبان پر لائے تو اس کے خلاف سخت سے سخت اقدام ہوسکتے ہیں۔ او رہوتے بھی ہیں۔ یہ تو ایک عام بات ہے کہ سازوسامان اور زیورات کے ساتھ فرار ہونے کاالزام لگا کر اسے گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو بے دردی سے اس کی جان لینے کے بعد یہ اعلان ہوجاتا ہے کہ باورچی خانہ میں جل کر مرگئی یا بجلی کے جھٹکے کا شکار ہوگئی یا چھت سے گرپڑی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ان اعلانات میں کوئی صداقت نہیں ہوتی۔ یہ ایک سنگین جرم پر پردہ ڈالنے کی ناپسندیدہ کوشش ہے۔ حالات زیادہ خراب ہوتے ہیں تو بے چاری خود بھی تنگ آکر خود کشی وخود سوزی کر بیٹھی ہے۔ شاید اس سے پہلے بھی یہ سب کچھ ہوتا تھا لیکن اس کا ذکر ایک چھوٹے سے دائرے میں ہوکر رہ جاتا تھا لیکن موجودہ ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اس کا چرچا عام ہونے لگا ہے۔ ان ذرائع سے جو تھوڑی بہت اطلاعات مل پاتی ہیں ان سے پورے ملک کی حالت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اصلاً یہ مسئلہ غیر سماج کا ہے اس پر اس کے مفکرین اور مصلحین کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے اس کا اثر مسلمانوں پر بھی ہے۔ یہاں بھی ساس بہو کے جھگڑے ضرب المثل بن چکے ہیں۔ طرح طرح سے عورت کو سسرال میں پریشان کیاجاتا ہے۔ اس معاملے میں چندباتوں کا پیش نظر رہناضروری ہے۔

(۱)سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہمیں لڑکی کے بارے میں سوچتے وقت لڑکے کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔ اس سے بہت سی الجھنیں دُور ہوسکتی ہیں۔ لڑکے اور لڑکی کا اپنی سسرال سے تعلق بالواسطہ ہوتا ہے۔ اس میں براہِ راست وہ کشش نہیں ہوتی جو خونی رشتوں میں ہوتی ہے۔ ایک اجنبی لڑکی کو لڑکے کے رشتہ داروں سے اتنی ہی محبت ہوسکتی ہے جتنی کہ خود لڑکے کو اپنے سسرال والوں سے ہوتی ہے۔ لڑکا اپنی بیوی کی وجہ سے سسرال سے محبت کرتا ہے۔ اسی طرح لڑکی کا تعلق سسرال سے محض اپنے شوہر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر یہ دونوں بیچ سے ہٹ جائیں تو تعلق کی کوئی مضبوط بنیاد باقی نہ رہے گی اور ایک طرح کی اجنبیت حائل ہوجائے گی۔ اس لئے اگر دونوں طرف کے خاندان والوں کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے کہ انہیں بہو اور داماد کی بالواسطہ محبت ملی ہے تو بے جا توقعات قائم نہیں ہوں گی اور شکوہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔

(۲)اس حقیقت کو ماننا چاہئے کہ شادی کے بعد لڑکے کی زندگی میں ایک نئی شخصیت داخل ہوگئی ہے وہ اس کی رفیقۂ حیات اور ہمسفر ہے۔ ان دونوں کو مل جل کر اپنی زندگی کا منصوبہ بنانا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر غیر معمولی الفت ومحبت رکھ دی ہے۔ اسی محبت کی وجہ سے وہ زندگی بھر ایک دوسرے کا جی جان سے تعاون کرتے ہیں اور حالات کے سردوگرم کو بخوشی برداشت کرتے ہیں۔ اس محبت سے لڑکی کے والدین کو تو مسرت ہوتی ہے وہ خوش ہوتے ہیں کہ لڑکی اپنے شوہر کی محبت سے شادماں وشادکام ہے لیکن لڑکے کے والدین دل میں صرف ان کی محبت نہیں رہی بلکہ اس پر اپنی بیوی کی محبت چھاتی چلی جارہی ہے۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ لڑکا اپنی بیوی کو چاہ رہا ہے اور اس سے غیر معمولی محبت کررہا ہے تو خود لڑکے سے بدظن ہونے لگتے ہیں اور اس کی بیوی کو حریف سمجھ بیٹھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ شادی کے بعد بھی لڑکے کی محبت صرف ان کے لئے مخصوص ہوکر رہے اور بیوی سے اس کا تعلق محض رسمی ہو، یہ بالکل غیر فطری بات ہے۔ اس کی توقع ہرگز نہ رکھنی چاہئے۔

(۳)شادی کے بعد لڑکے اور لڑکی پر جنسی جذبات کا شدید غلبہ ہوتا ہے۔ وہ اس کی بار بار تسکین چاہتے ہیں۔ یہ ان کی جوانی کا فطری تقاضا ہے لیکن بعض اوقات گھر کے بڑے بزرگوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے یہ کوئی غلط اور ناپسندیدہ تعلق ہے۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ یہ ایک جائز اور پسندیدہ تعلق ہے اس سے انسان کو ذہنی اور جسمانی سکون ملتا ہے۔ اور یہ میاں بیوی کے درمیان محبت کے پیدا ہونے اور بڑھنے کا ایک فطری ذریعہ ہے۔ شریعت کے نزدیک اس تعلق پر انسان اجر وثواب کا مستحق ہوتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اس میں بے اعتدالی ضرر رساں ہے۔ اس کی اصلاح کے لئے مناسب طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں۔ اس پر ناگواری کااظہار یا قدغن لگانے کی کوشش صحیح نہیں ہے۔ اس سے لڑکے اور لڑکی دونوں ہی پر کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا۔ جنسی تعلق میں جب انہیں اتنی آزادی نہیں ملتی جتنی کہ انہیں فطری طور پر ملنی چاہئے تو ان کے اندر مجرمانہ ذہنیت پیداہونے لگتی ہے اور وہ ایک طرح کے ذہنی تناؤ اور کشمکش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس معاملہ میں گھر کے بڑے بزرگ بالعموم اپنا دورشباب بھول جاتے ہیں کہ انہیں اپنے بزرگوں کے اس طرح کے رویہ سے کتنی تکلیف پہنچتی تھی اور وہ کس طرح اسے اپنی حق تلفی اور ایک طرح کی زیادتی سمجھتے تھے۔ کبھی کبھی یہ زیادتی بھی ہوتی ہے کہ جنسی تعلق میں بے اعتدالی کااصل مجرم لڑکی کو سمجھاجاتا ہے جیسے لڑکا بہت معصوم سرشت ہے حالانکہ یہ سب نادانی کی باتیں ہیں اس سے لڑکی کے دل میں سسرال والوں کی محبت کیا پیدا ہوگی نفرت اور بیزاری بڑھے گی۔

(۴)اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات لڑکی میں بھی کمزوریاں ہوتی ہیں۔ کبھی اس میں خاندانی غرور ہوتا ہے، کبھی اسے اپنی حیثیت پر ناز ہوتا ہے، کبھی وہ تیز مزاج اور جھگڑالوہوتی ہے، کبھی اس کے اندر اطاعت اور وفا شعاری کے جذبے کی کمی ہوتی ہے۔ اس کی ان کمزوریوں کو اس کے والدین تو برداشت کرتے رہتے ہیں بلکہ بسااوقات اپنی محبت کی وجہ سے ان کمزوریوں کو ماننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے لیکن مختلف نفسیاتی عوامل کی بناپر سسرال سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ان کے اندر محبت کے وہ جذبات نہیں ہوتے جو لڑکی کے والدین میں ہوتے ہیں اس لئے اس کی غلطیوں کو نظرانداز کرکے اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا ان کے لئے مشکل ہے لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ سسرال میں اس کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس کے لئے بھی کوئی وجہ جواز نہیں ہے۔ ایک لڑکی جو کم عمر اور ناتجربہ کار ہوتی ہے اسے اچانک ایک نئے ماحول سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس ماحول سے پوری طرح واقف بھی ہوجائے گی اور خود کو اس سے ہم آہنگ بھی کرلے گی۔ یہ توقع بے جا ہے ہر خاندان کے بلکہ ہر فرد کے معمولات اور طور طریقے الگ ہوتے ہیں۔ کھانے، پینے اور پہننے اوڑھنے کاذوق جدا ہوتا ہے۔ لڑکی کو سسرال کے ذوق اور مزاج کو سمجھنے، اپنے مذاق کو چھوڑ کر ان کے مذاق کو اختیار کرنے یااپنے مذاق سے انہیں قریب کرنے میں وقت لگے گا۔ اس کی عمر سیکھنے کی ہوتی ہے۔ اگر اسے محبت سے سمجھایا جائے اور جلد بازی نہ کی جائے تو اصلاح ہوسکتی ہے لیکن اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جس طرح گرفت ہوتی اور خوردہ گیری کی جاتی ہے۔ اس سے اصلاح کے امکانات کم ہونے لگتے ہیں۔ اس میں اس بات کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ آنے والی لڑکی میں بھی کچھ خوبیاں ہوسکتی ہیں۔ ان سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔ محبت سے محبت اور نفرت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اگر آنے والی لڑکی کو محبت ملے تو اس کے دل میں بھی محبت اُبھرے گی۔ انسان محبت کا بھوکا ہوتا ہے۔ لڑکی جب دیکھے گی کہ سسرال والے اسے چاہ رہے ہیں اور اس کے وجود سے خوش ہیں تو وہ دیوانہ وار ان سے محبت کرے گی۔ اس کے برخلاف جب وہ دیکھتی ہے کہ وہ گھر کی مالکہ بن کر نہیں آئی ہے شریک حیات بھی شاید نہیں ہے محض پھوہڑقسم کی ایک خادمہ ہے تو اس کے اندر منفی ردعمل اُبھرتا ہے۔ یا تو وہ بزرگوں کی بالادستی جبرواکراہ کے ساتھ قبول کرلیتی ہے اور اس کی جو حیثیت متعین کی جائے اسے چاروناچار تسلیم کرکے زندگی کے دن کاٹنے لگتی ہے یا اس کے اندر بغاوت کے جذبات اُبھرآتے ہیں اور گھر محاذ جنگ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔آج بھی مسلم معاشرے میں ایسے خاندان بکثرت موجود ہیں جہاں ان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس سے ساس بہو کے جھگڑے کم ہوتے ہیں اور خوش گوار زندگی گزارتی ہے، لیکن اس کے باوجود عام طور پر دونوں طرف حجاب زندگی بھرباقی رہتاہے۔ بہو لڑکی نہیں بن پاتی اور ساس ماں نہیں ہوتی۔ اسلام نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ کوئی لڑکی سسرال میں رہنا نہ چاہے تو اس کا خاوند اسے الگ رکھے۔ یہ اس قدر معقول حل ہے کہ اگر اس پر عمل ہوتو مسلمان خاندان جھگڑوں سے پاک ہوسکتے ہیں اور ان کی خانگی زندگی دوسروں کے لئے بھی نمونہ بن سکتی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146